حیدرآباد

ملعون ایم ایل اے راجہ سنگھ ایک بار پھر زعفرانی پارٹی میں شامل ہونے تیار، تلنگانہ کی سیاست میں نیا موڑ

راجہ سنگھ نے اپنے تازہ بیان میں واضح کیا ہے کہ اگر بی جے پی کے سینئر قائدین انہیں دہلی طلب کرتے ہیں تو وہ پارٹی میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور پارٹی میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ ان کے مطابق کوئی دوسری پارٹی اُن کے نظریات اور انداز سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

حیدرآباد: تلنگانہ کی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے، خصوصاً جوبلی ہلز ضمنی انتخاب اور آئندہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) انتخابات سے قبل۔ گوشہ محل کے ایم ایل اے راجہ سنگھ، جنہوں نے حال ہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے استعفیٰ دے کر سرخیاں بٹوری تھیں، اب ایک بار پھر پارٹی میں واپسی کے لیے آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد کو بھاگیہ نگر سے موسوم کرنے کاوعدہ، کشن ریڈی کی زہر افشانی
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
راجہ سنگھ کو حلقہ لوک سبھا ظہیرآباد سے الیکشن لڑنے پارٹی کا مشورہ
گچی باؤلی میں حائیڈرا کا بڑا ایکشن، غیرقانونی تعمیرات کا صفایا، ہائی کورٹ کے احکامات پر فوری کارروائی
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی

راجہ سنگھ نے اپنے تازہ بیان میں واضح کیا ہے کہ اگر بی جے پی کے سینئر قائدین انہیں دہلی طلب کرتے ہیں تو وہ پارٹی میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی اور پارٹی میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، کیونکہ ان کے مطابق کوئی دوسری پارٹی اُن کے نظریات اور انداز سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان سے کچھ غلطیاں ہوئیں، جب کہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف جھوٹی افواہیں بھی پھیلائی گئیں۔ راجہ سنگھ کا کہنا ہے کہ ہر پارٹی میں دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی، اور انہی دشمنوں نے اُن کے خلاف دہلی میں پارٹی ہائی کمان تک شکایات پہنچائیں۔ ان شکایات کی بنیاد ایک پین ڈرائیو بنی، جس کے ذریعے الزامات پیش کیے گئے، اور اسی پر ان کا استعفیٰ منظور کیا گیا۔

راجہ سنگھ نے اپنے بیان میں سوال اٹھایا کہ بی جے پی چھوڑ کر جانے والے دیگر لیڈروں کا کیا حال ہوا؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوسری پارٹیوں سے بی جے پی میں شامل ہونے والے لیڈروں کو بھی اکثر بےعزتی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اگر آج نہیں تو کل پارٹی قیادت انہیں ضرور یاد کرے گی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے صرف بی جے پی سے استعفیٰ دیا ہے، ایم ایل اے کے عہدے سے نہیں۔ وہ مزید تین سال تک گوشہ محل کے ایم ایل اے کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

بی آر ایس کے کچھ ایم ایل ایز کی کانگریس میں شمولیت کا حوالہ دیتے ہوئے راجہ سنگھ نے کہا کہ ان نشستوں پر ضمنی انتخابات نہیں ہو رہے، تو گوشہ محل میں کیوں ہوں گے؟

راجہ سنگھ کے اس تازہ بیان نے نہ صرف بی جے پی کے اندرونی حالات پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ ریاست کی سیاسی فضا میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے — کیا بی جے پی راجہ سنگھ کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرے گی؟ کیا وہ پھر سے پارٹی میں بااثر کردار ادا کریں گے؟

فی الحال، تمام نظریں بی جے پی ہائی کمان کے اگلے قدم پر جمی ہوئی ہیں، اور آنے والا وقت ہی اس سیاسی ڈرامے کا فیصلہ کرے گا۔