حیدرآباد

جامعہ راحت عالم للبنات اور جامعہ مکارم الاخلاق عنبر پیٹ میں یوم آزادی تقریب کا اہتمام

یوم آزادی تقاریب کے ضمن میں جامعہ راحت عالم للبنات عنبرپیٹ میں پرچم کشائی کے بعد طالبات نے قومی ترانے اور اردو اور انگریزی میں ازادی کی اہمیت اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کے موضوع پر مختلف تقاریر پیش کیے۔

حیدرآباد: یوم آزادی تقاریب کے ضمن میں جامعہ راحت عالم للبنات عنبرپیٹ میں پرچم کشائی کے بعد طالبات نے قومی ترانے اور اردو اور انگریزی میں ازادی کی اہمیت اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کے موضوع پر مختلف تقاریر پیش کیے۔

متعلقہ خبریں
شہزادی درشہوار ہاسپٹل کے قریب یوم آزادی تقریب کا اہتمام
آزادی، وطن کے متوالوں کے لئے ایک عظیم کارنامہ، مانو میں یومِ آزادی تقریب، پروفیسر عین الحسن کا خطاب
گورنر اور چیف سکریٹری نے ترنگا لہرایا
ہیومن رائٹس ڈیولپمنٹ ویلفیئر اسوسی ایشن کے زیر اہتمام یوم آزادی تقریب
کاروان ساہو میں یوم آزادی تقریب، رکن اسمبلی کوثر محی الدین نے ترنگا لہرایا

ڈاکٹر رفعت سیما صدر جامعہ مکارم الاخلاق نے اپنے خطاب میں جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح پہلی جنگ آزادی جس کو انگریزوں نے غدر کا نام دے کر اس کی اہمیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی، اس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہا۔

مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد علی گوہر، مولانا ابوالکلام ازاد اور ان کی  طرح اور لا تعداد علماء جنکی جدوجہد اور قربانیوں نے جنگ آزادی میں جو رنگ بھرا وہ سب مدرسوں ہی کی دین ہے، آج تعصب کی وجہ سے آزادی کی تاریخ سے مسلمانوں کے کردار کو حذف کرکے اور مسخ کرکے دکھایا جارہا ہے۔

اس متعصبانہ سوچ  کو بدلا نہیں گیا تو یہ ملک و قوم کے لئے ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے، انہوں نے طالبات کو اپنے ملک کی تاریخ سے آگہی حاصل کرنے اور باشعور بننے کا مشورہ دیا اور اپنے ملک و قوم کے  تئیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی تاکید کی۔

عالمہ و انجینئر سیدہ صدف نے اپنے خطاب میں اودھ کے شاہی خاندان کی انقلابی فکر کی حامل خاتون حضرت محل اور مولانا محمد علی جوہر کی والدہ بی اماں کا ذکر کیا جنہوں نے جدوجہد آزادی میں غیر معمولی کردار ادا کیا تھا ان کا ذکر  پہلے سلیبس کی کتابوں میں ہوا کرتا تھا لیکن آج کی نئی نسل اس بارے میں کچھ نہیں جانتی۔  

مزید یہ کہ تاریخ کے مطالعہ کا شوق بھی اب نہیں رہا؛ انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کو اپنی چیزیں اپنی مصنوعات خود بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ دوسروں پر انحصار کی مجبوری نہ رہے آج ہم  اسرائیلی پروڈکس کا بائیکاٹ کرنا چاہیں تو یہ دشواری ہورہی ہے کہ دیسی مصنوعات بہت مشکل سے بڑی تلاش کے بعد ملتی ہیں جبکہ جدوجہد آزادی کے موقع پر انگریزوں کو شکست دینے میں بدیسی مال کا بائیکاٹ بہت کارگر ہتھیار ثابت ہوا تھا۔

آج ہمارے فلسطینی بھائی بھی اپنے ملک کو اور بیت المقدس کو اسرائیل سے آزاد کرانے کے لئے سخت ترین ظلم و ستم سے گزر رہے ہیں اور ہر طرح کی قربانیاں دے رہے ہیں  ہمارا یہ دینی فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کا ساتھ دینے کے لئے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں ۔دینی و ملی حمیت کا تقاضا یہی ہے تاکہ وہ  اسرائیل کے ظلم و ستم سے نکل کر آزادی کی حقیقی نعمت سے مستفید ہوسکیں۔

آخر میں ملک و قوم کی بھلائی اور امن و سلامتی اور خوشحالی کی دعاؤں کے ساتھ پروگرام کا اختتام عمل میں آیا۔

a3w
a3w