جموں و کشمیر

عمر عبداللہ نے قبرستان کی دیوار پھلانگ کر فاتحہ پڑھی

چیف منسٹر جموں وکشمیر عمر عبداللہ‘ سابق چیف منسٹر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نیشنل کانفرنس حکومت کے بعض وزرا پیر کے دن شہر سری نگر میں اچانک گنج شہیداں پہنچ گئے۔ سیکوریٹی فورسس کے ساتھ دھکم پیل اور قبرستان میں زبردستی داخل ہونے کے ڈرامائی مناظر دیکھے گئے۔

سری نگر (آئی اے این ایس /پی ٹی آئی)چیف منسٹر جموں وکشمیر عمر عبداللہ‘ سابق چیف منسٹر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نیشنل کانفرنس حکومت کے بعض وزرا پیر کے دن شہر سری نگر میں اچانک گنج شہیداں پہنچ گئے۔ سیکوریٹی فورسس کے ساتھ دھکم پیل اور قبرستان میں زبردستی داخل ہونے کے ڈرامائی مناظر دیکھے گئے۔

انہوں نے یہ دورہ اُن شہیدوں کو خراج ادا کرنے کے لئے کیا جو ڈوگرہ مہاراجہ کی فائرنگ میں 13 جولائی 1931 کو جاں بحق ہوئے تھے۔ چیف منسٹر عمر عبداللہ نے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیکوریٹی فورسس انہیں پکڑکر قبرستان پہنچنے سے روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پکڑدھکڑ مجھے روک نہیں سکتی۔ میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کررہا ہوں۔ قانون کے محافظوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ کس قانون کے تحت ہمیں فاتحہ خوانی سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمر عبداللہ‘ ان کے والد فاروق عبداللہ‘ ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چودھری‘ چیف منسٹر کے مشیر نصیر اسلم وانی‘ نیشنل کانفرنس کے بعض وزرا اور دیگر لوگ اولڈ سٹی سری نگر میں واقع گنج شہیداں پہنچے جہاں انہوں نے فاتحہ پڑھی اور 13 جولائی 1931 کو جیل گارڈس کی فائرنگ میں جاں بحق افراد کی قبروں پر پھول چڑھائے۔

13 جولائی 1931 کو عبدالقدیر پٹھان نامی شخص کے خلاف سنٹرل جیل میں مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی۔ اس پر ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت کے خلاف لوگوں میں بے چینی پھیلانے کا الزام تھا۔ جیل پر ہجوم نے حملہ کردیا تھا۔ حکام نے کل پابندیاں عائد کردی تھیں اور قبرستان جانے کے اجازت نامے منسوخ کردیئے تھے۔ نیشنل کانفرنس قائدین بشمول چیف منسٹر عمر عبداللہ نے کل ایکس پر کہا تھا کہ لوگوں کو گنج شہیداں جانے سے روکنے گھروں میں نظربند کردیا گیا۔ آج بعض وزرا‘ چیف منسٹر کے قافلہ میں مزار ِ شہداء پہنچے جبکہ وزیر تعلیم سکینہ ایٹو اسکوٹر کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر قبرستان آئیں کیونکہ ان کی سرکاری گاڑی کو آگے بڑھنے نہیں دیا گیا۔

چیف منسٹر عمر عبداللہ‘ ڈاکٹر فاروق عبداللہ‘ ڈپٹی چیف منسٹر سریندر چودھری اور مشیر نصیر اسلم وانی‘ چیف منسٹر کے قافلہ میں قبرستان پہنچے۔ قافلہ جس وقت قبرستان کی طرف بڑھ رہا تھا‘ سیکوریٹی فورسس نے اسے نہیں روکا لیکن قبرستان کے قریب چیف منسٹر عمر عبداللہ ایک بیریکیڈ پر چڑھ گئے اور سیکوریٹی والوں کے ساتھ ان کی دھکم پیل ہوئی۔

انہوں نے فاتحہ خوانی کے بعد کہا کہ غیرمنتخبہ حکومت نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ مجھے نوہٹہ چوک سے پیدل چلنے پر مجبور ہونا پڑا۔ قبرستان نقشبند صاحب کی گیٹ بند کردی گئی۔ مجھے دیوار پر چڑھ کر اندر جانا پڑا۔ مجھے پکڑکر روکنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ 5  اگست 2019 کو دفعہ370 کی برخاستگی سے قبل 13 جولائی کو سرکاری تعطیل ہوتی تھی۔ اگست 2019 کے بعد 13 جولائی کے ساتھ 5  دسمبر (بانی نیشنل کانفرنس شیخ عبداللہ مرحوم کا یوم ِ پیدائش) کی تعطیل بھی منسوخ کردی گئی۔

نیشنل کانفرنس کا مطالبہ ہے کہ یہ دونوں تعطیل پھر سے بحال کی جائیں۔ پی ٹی آئی کے بموجب چیف منسٹر جموں وکشمیر عمر عبداللہ‘ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے 22  افراد کو خراج عقیدت ادا کرنے پیر کے دن قبرستان نقشبند صاحب کی گیٹ پر چڑھ گئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہاتھاپائی کی کوشش کی گئی۔ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ‘ خان یار چوراہا سے آٹورکشا میں گنج شہیداں پہنچے جبکہ وزیر تعلیم سکینہ ایٹو نے اسکوٹی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر مزار ِ شہداء پہنچتے ہوئے ہر ایک کو حیرت زدہ کردیا۔

سیکوریٹی فورسس نے قلب ِ شہر سری نگر میں خان یار اور نوہٹہ دونوں جانب سے قبرستان جانے والی سڑکوں کو بند کردیا تھا۔ عمر عبداللہ کا قافلہ جیسے ہی اولڈ سی میں خان یار پہنچا‘ وہ اپنی گاڑی سے اترگئے اور زائداز ایک کیلو میٹر پیدل چل کر قبرستان پہنچے جہاں انہوں نے گیٹ کو مقفل پایا۔ چیف منسٹر مین گیٹ پر چڑھ گئے اور قبرستان میں داخل ہوکر انہوں نے فاتحہ پڑھی۔ ان کے سیکوریٹی والوں اور ان کی پارٹی کے کئی قائدین نے بھی ایسا ہی کیا۔

بعد میں گیٹ کھول دی گئی۔ انہیں اور ان کے قافلہ کو گنج شہیداں میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش پر لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور پولیس کو نشانہ تنقیدبناتے ہوئے عمر عبداللہ نے میڈیا سے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ ان لوگوں کی ہدایت پر ہورہا ہے جو سیکوریٹی اور نظم وضبط کے ذمہ دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ غصہ میں بھرے نیشنل کانفرنس قائد نے کہا کہ ہمیں آج بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارے ساتھ ہاتھاپائی کی بھی کوشش کی گئی۔ بعض اوقات پولیس قانون بھول جاتی ہے۔ مجھے آج کیوں روکا گیا جبکہ پابندی کل کے لئے تھی۔ یہ آزاد ملک ہے لیکن وہ لوگ ہمیں اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ ہم غلام نہیں ہیں‘ عوام کے خدمت گار ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے پارٹی قائدین نے انہیں پکڑنے کی پولیس کی کوشش ناکام کردی۔ انہوں نے کہا کہ ایل جی اڈمنسٹریشن ہمیں کب تک روک پائے گا۔ 13 جولائی نہ سہی 12  جولائی یا 14 دسمبر‘ جنوری یا فروری ہم جب چاہیں گے یہاں آئیں گے۔