بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام‘ہالینڈ نے 27برس بعد معافی مانگ لی
مسلمان پناہ گزین جب علاقے کو چھوڑنے کیلئے بسوں پر سوار ہوئے تو مردوں اور لڑکوں کو ہجوم سے الگ کیا اور انھیں دور لے جا کر گولیاں مار دی گئیں، ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی۔ بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا۔
سراجیو(بوسنیا):8 ہزار مسلم مردوں اور لڑکوں کی ہلاکت والے بہیمانہ واقعے کی 27 ویں برسی پر، نیدرلینڈ نے متاثرہ افراد کے لواحقین سے اس بات کے لیے معافی طلب کی ہے کہ ڈچ امن دستے اس قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے تھے۔نیدرلینڈز نے سربرینتسا کی نسل کشی میں ڈچ امن دستوں کے کردار کے لیے اپنی ”گہری معذرت“ کی پیشکش کی۔
27 برس قبل بوسنیائی سرب فورسز نے ایک بہیمانہ حملے میں تقریباً 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ 1995 کے قتل عام کے بعد پہلی بار ڈچ وزیر دفاع کاجسا اولونگرین نے ہلاکتوں کو روکنے میں ڈچ امن دستوں کی ناکامی پر زندہ بچ جانے والوں سے معافی طلب کی ہے۔
پوٹوکاری میں ایک تقریب کے دوران اولونگرین نے کہا، ”بین الاقوامی برادری سربرینتسا کے لوگوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ جس صورت حال میں یہ ناکامی سرزد ہوئی اس کی ذمہ داری ڈچ حکومت پر ہے اور اس کے لیے ہم اپنی معذرت پیش کرتے ہیں۔علحدہ موصولہ اطلاع کے بموجب 11 جولائی 1995 میں سربین فوجیوں نے بوسنیا کے سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد دو ہفتوں کے دوران فورسز نے منظم انداز میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ کی سرزمین پر بدترین اجتماعی قتل و غارت تھی، یہ سلسلہ 10 دنوں تک جاری رہا۔ خود کار اسلحے سے لیس اقوام متحدہ کے امن فوجیوں نے پناہ گاہ قرار دیئے گئے اس علاقے میں جاری تشدد کو روکنے کیلئے کچھ نہ کیا۔
بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی خون آلود تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، 1990 کی دہائی میں جب یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو کئی مسلح تنازعات نے جنم لیا، بوسنیائی جنگ بھی ان تنازعات میں سے ایک تھی۔بوسنیا ہرزیگووینا نے 1992 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کیا کچھ ہی عرصے بعد اسے امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا، بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا، جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے اس نئے ملک پر حملہ کردیا۔
یہ حملہ گریٹر سربیا منصوبے کا حصہ تھا جس کی تکمیل کیلئے بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ابتدائی طور پر بوسنیائی سرب فورسز نے 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کیا، جسے بوسنیائی فوج نے جلد ہی چھڑا لیا تھا۔ چھ جولائی 1995 کو بوسنیا کی سرب فورسز نے سربرینیکا پر بھرپور حملہ کیا، اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور جب نیٹو فورسز کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے بھی کوئی مدد نہ کی یوں سربرینیکا نامی یہ علاقہ پانچ دنوں میں ہی سرب فورسز کے قبضے میں آ گیا۔
مسلمان پناہ گزین جب علاقے کو چھوڑنے کیلئے بسوں پر سوار ہوئے تو مردوں اور لڑکوں کو ہجوم سے الگ کیا اور انھیں دور لے جا کر گولیاں مار دی گئیں، ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا۔
اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی اعتراف کیا کہ گایہ قتل عام بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ منظم نسل کی کوشش کی گئی لیکن تاحال بوسنیائی عوام انصاف نہ مل سکا۔