مضامین

جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ….!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان نے اپنی جمہوریت کے73سال مکمل کرلیے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی جشن یوم جمہوریہ کی تقاریب سارے ملک میں بڑے تزک و اہتمام سے منائی گئیں۔ ملک کے دارالحکومت میں شاندار پیمانے پر تینوں افواج کی پریڈ کے ذریعہ دنیا کو بتایا گیا کہ ہندوستان اپنی زبردست فوجی طاقت رکھتا ہے۔ اس سال یوم جمہوریہ تقاریب کے مہمان خصوصی مصر کے صدر عبدالفتح السیسی تھے۔ ہند۔ مصر تعلقات صدیوں قدیم ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مصری صدر کو یوم جمہوریہ کے مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ 26 جنوری کا دن ہندوستانی قوم کے لیے ایک تاریخی دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ 26 جنوری 1950کو ملک کی مجلس دستور اسمبلی نے ایک مبسوط دستور قوم کے نام معنون کر تے ہوئے اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی دن سے ہندوستان ایک جمہوری ملک کہلانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے اس طویل سفر کے دوران بہت سے نشیب و فراز بھی آئے لیکن ہندوستانی قوم نے جمہوری طور طریقوں کو خیر آباد کرکے کسی اور نظام کو اپنے لیے قبول نہیں کیا۔ عوام کی چوکسی نے حکمرانوں کو مطلق العنانی کی طرف ملک کو دھکیلنے کا موقع نہیں دیا۔ دستور نے عوام کو اس بات کا حق دیا کہ وہ اس جمہوری نظام کی نکیل کو اپنے ہاتھوں میں رکھیں۔ وقفے وقفے سے ہونے والے انتخابات اس بات کا اعلان ہے کہ عوام اپنی پسند کے نمائندوں کو منتخب کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی جانب سے کسی دباو¿ یا جبرکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یوم جمہوریہ کے تاریخی دن کو روایتی طور پر منانے کے بجائے حکمران اور شہری اپنا محاسبہ کرتے تو ہندو ستانی جمہوریت کے استحکام اور اس کے فروغ کے لیے کئی راہیں کھلتیں، لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ یوم جمہوریہ ہو کہ یوم آزادی محض ایک رسمی تہوار بن کر رہ گئے۔ جمہوریت کی کا میابی کا دار مدار عوام کے سیاسی شعور پر منحصر ہو تا ہے۔ شہری جب تک اپنے حقوق اور فرائض سے کماحقہ واقف نہیں ہو تے جمہوریت کے حقیقی ثمرات ظاہر نہیں ہو تے۔ ہندوستانی جمہوریت کا یہ المیہ ہے کہ شہریوں کو اپنے حقوق اور فرائض کا ادارک نہیں ہے۔ دستور ہند کے مدوّن کرنے والوں نے ایک مکمل باب شہریوں کے حقوق کے لیے مختص کر دیا ہے۔ دستور کے باب سوم میں دفعہ 12 تا 35 شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق کی صراحت کردی گئی ہے۔ یہ حقوق بلا لحاظ، مذہب، ذات، رنگ و نسل، جنس و زبان و علاقہ تمام شہریوںکو حا صل ہیں۔ دستور کی تدوین کے وقت کُل سات بنیادی حقوق تھے، لیکن دستور کی چوالیسویں ترمیم کے ذریعہ حق جائیداد کو بنیادی حقوق کی فہرست سے حذف کر دیا گیا اور اب جملہ چھ بنیادی حقوق تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ جن میں حق مساوات، حق آزادی، استحصال کے خلاف حق، مذہبی آزادی کا حق ، تہذیبی و تعلیمی حقوق اور عدالتی چارہ جوئی کا حق شامل ہے۔ یہ بنیادی حقوق شہریوں کو ایک با عزت زندگی گزارنے کا بہترین موقع فراہم کر تے ہیں۔ دستور کی 42ویں ترمیم کے تحت 1976 میں 10بنیادی فرائض دستور ہند میں شامل کئے گئے۔ ان بنیادی فرائض کو شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ شہریوں میں دستور اور قانون کے احترام کے ساتھ ان کے درمیان باہمی اخوت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ مابعد آزادی ہندوستان میں جو سیاسی اتھل پتھل جا ری تھی، اس پر قابو پانے کے لیے بنیادی فرائض کی شمولیت کو دستور میں ضروری سمجھا گیا تاکہ ملک کی سا لمیت اور یکجہتی باقی رہ سکے۔ بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
ہندوستانی جمہوریت کی اصل روح یہی ہے کہ شہری اپنے دستوری حقوق اور آزادیوں سے استفادہ کرتے ہوئے قومی تعمیر میں حصہ لیں۔ ملک میں اس وقت جو فضاءپائی جا رہی ہے اس پر شہریوں کی فکر مندی کا اظہار نہ ہو تو ملک کے حکمران جمہوری نظام سے اسی طرح کھلواڑ کر تے رہیں گے جسے ملک کے عوام کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ قانونی اور دستوری اداروں کی پامالی کا جو سلسلہ چل پڑا ہے، اس سے شہریوں کے حقوق پر بھی ضرب پڑ سکتی ہے۔ کثرت میں وحدت کا جو تصور ہندوستان کے آئین نے دیا تھا، اس کو حقیقت کا روپ دینے میں ملک کے شہری ناکام ہو گئے۔ نفرت، تعصب، بغض و عناد کا جو ماحول فسطائی طاقتیں پیدا کر رہی ہیں، اس کو دور کرنے میں محبان وطن کی جو کوششیں ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو سکیں اس لیے قومی زندگی میں ہر طرف انتشار اور افتراق نے اپنے سائے بڑھا دیے ہیں۔ گزشتہ مہینہ میں ہوئے گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ ابھی شہریوں میں سیاسی شعور نہیں جاگا ہے۔ کوویڈ۔ ۱۹ کے دوران نا قابل بیان مصیبتوں کو جھیلنے کے باوجود گجرات کے عوام فرقہ پرستی کے سیلاب میں بہہ گئے اور بی جے پی کو تاریخی کا میابی سے نوازا۔ یہی وہ تنگ نظری ہے جو ہندوستانی جمہوریت کی کشتی کو ڈبودے گی۔ عوام اپنی فلاح و بہبود کے بجائے فرقہ وارانہ سیاست کو گلے لگانے کے عادی ہوجائیں تو پھر جمہوریت کا یہ ڈھونگ کیوں رچایا جائے؟ 1995سے گجرات میں بی جے پی راج کررہی ہے۔ 2022میں وہ ساتویں مرتبہ گجرات میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے، لیکن ان 27سالوں میں گجرات نے کن کن شعبوں میں ترقی کی ہے۔ اس کا کوئی واضح جواب حکمران نہیں دے سکتے۔ محض ہندوتوا کا سلوگن لگا کر رائے دہندوں کو گمراہ کیا جاتا ہے اور ان کے ووٹ بٹور لیے جاتے ہیں۔جس گجرات ماڈل کی بات کی جا تی ہے، اگر اسے سارے ملک میں نافذ کیا جائے تو سوائے قتل و غارت گری کی سیاست کے کچھ باقی نہ رہے گا۔ ملک کے وزیر داخلہ نے گجرات کی انتخابی مہم کے دوران کہا کہ "ہم نے گجرات میں 2002میں کچھ لوگوں کو ایسا سبق سکھایا کہ اس کے بعد گجرات میں کبھی دنگے نہیں ہوئے "اس قسم کے جارحانہ بیانات کے باوجود گجرات میں بی جے پی اپنی کا میابی کے سارے سابق ریکارڈ توڑتے ہوئے فتح کے جھنڈے گاڑتی ہے تو یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ ہندوستانی شہریوں کا مزاج کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جو پارٹی اپنے ہی شہریوں کی لاشوں پر اپنی حکومت کھڑی کرتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے بہت ہی سنگین صورت حال ہے۔ اس سے وقتی طور پر کسی سیاسی پارٹی کا فائدہ تو ہوسکتا ہے لیکن ملک میں جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی۔ عوام کو دستور نے یہ آزادی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ووٹ کا استعمال کریں ، لیکن ان کی یہ بھی ذ مہ داری ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے حق میں اپنا ووٹ دیں۔ ہندوستانی جمہوریت کو جو چیلنجز اس وقت درپیش ہیں اس سے نمٹنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ شہریوں کو جمہوریت کے تئیں اپنی ذ مہ داریوں کومحسوس کر تے ہوئے اسے ادا کرنے میں کسی کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ مذہب یا ذات کو ترجیح دینے کے بجائے جمہوری اقدار کو پیمانہ بناتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا وقت کا تقاضا ہے۔اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ دوسروں کی آزادی کا لحاظ رکھنے سے ہی جمہوریت پنپ سکتی ہے۔ قومی معاملات سے عوام کی عدم دلچسپی حکمرانوں کو من مانی کر نے کے مواقع فراہم کر تی ہے۔ اس لیے یوم جمہوریہ کے موقع پر ہندستانی شہریوں کو اس بات کا عزم کرنا چاہیے کہ وہ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے اپنی ذ مہ داریوں کو ادا کرنے میں بھی ہمیشہ چوکس اور چوکنّا رہیں گے۔ اسی سے ہندوستان میں جمہوریت کا بول بالا ہوگا۔
ہندوستانی جمہوریت کے 73سال کی تکمیل کے بعد اس وقت ملک کو جو خطرات لاحق ہیں اس پر یوم جمہوریہ مناتے ہوئے سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا کہ ان کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اس بات کا محاسبہ کر نے کی شدید ضرورت ہے کہ آیا حکمرانوں نے جمہوریت کی روح کو باقی رکھا ہے یا پھر جمہوریت کے نقاب میں ڈکٹیٹرشپ کو ملک میں رائج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں مقننہ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراو¿ کا جو ما حول دیکھا جا رہاہے آیا اس سے ملک میں جمہوریت اپنی اسپرٹ کے ساتھ قائم رہے گی۔ ملک کے وزیر قانون مسلسل سپریم کورٹ کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ججوں کے تقرر کے مسئلہ کو لے کر حکومت اور عدلیہ میں ٹھن گئی ہے۔ کالجیم کو اس لیے بنایا گیا تھا کہ ججوں کے تقرر میں سپریم کورٹ کو بالادستی حاصل رہے تا کہ عدلیہ کی آزادی اور اس کی غیر جانبداری پر کوئی سوال نہ اٹھے، لیکن اب بی جے پی حکومت کا اس بات پر اصرار ہے کہ ججوں کے تقرر کے معاملے میں حکومت کو شریک کیا جا ئے اور حکومت کے سفارش کردہ ججوں کا تقرر کیا جائے۔ اگر ججوں کے تقررات حکومت کی جانب سے ہوں تو عدالتوں کے فیصلے کیسے غیرجانبدار رہیں گے۔ حکومت کے تقرر کردہ جج صاحبان کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ حکومت کی مرضی و منشاءکے مطابق فیصلے دیں۔ سپریم کورٹ نے کیشوا نند بھارتی کیس میں یہ تاریخی فیصلہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ کو دستور میں ترمیم کا حق حاصل ہے لیکن وہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔ لیکن اب اس پر بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو بدلنے کا حق دیا جائے۔ ملک کے نائب صدر جمہوریہ اس کی وکالت میں سب سے آگے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ملک کے تمام دستوری اور قانونی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ سی بی آئی آج حکومت کے اشاروں پر کام کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن ، حکومت کے دباو¿ میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ انتہا یہ کہ ریاستی گورنروں کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے مرکز استعمال کر رہا ہے۔ کیرالا، تامل ناڈو اور تلنگانہ میں ریاستی حکومت اور گورنروں کے درمیان ٹکراو¿ روز کا معمول بن گیا ہے۔ گورنر کا عہدہ دستوری نوعیت کا ہے، لیکن اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ اس طر ح ہر طرف مرکزی حکومت اپنی مرضی کو منوانے میں لگی ہوئی ہے۔ عدلیہ کو جس انداز میں اپنے زیر اثر لینے کی مودی حکومت کوشش میں لگی ہوئی ہے اس کے بہت ہی مضر اثرات ہندوستانی جمہوریت پر پڑ سکتے ہیں۔ عدلیہ عوام کی امیدوں کی آخری کرن ہے۔ یہ جمہوریت کا وہ اہم ستون ہے جس میں اگر دراڑ پڑ جائے تو ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ مقننہ کا کام قانون کو وضع کرنا ہے۔ عدلیہ کا فرض منصبی اس قانون کی تشریح کرنا ہے۔ کوئی قانون اگر دستوری اصولوں کی خلاف ورزی کر تا ہے تو ایسے قانون کو کالعدم کرنے کاحق بھی عدلیہ کو حاصل ہے۔ اگر مقننہ یا عاملہ کی جانب سے عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کی جائے گی تو پھر ملک میں من مانی قوانین بنتے چلے جائیں گے اور ملک کے عوام کو نا قابل بیان مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ عدلیہ کی جانب سے تادم تحریر حکومت کا دباو¿ قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ اپنے موقف پر اٹل ہے، لیکن حکومت اور خاص طور پر مرکزی وزیر قانون کے روزانہ دیے جانے والے بیانات سے ظاہر ہو تا ہے کہ مرکزی حکومت کے عدلیہ کے معاملے میں ارادے نیک نہیں ہیں۔ 2024کے لوک سبھا الیکشن کے بعد بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر عدلیہ پر شب خون مارنا حکومت کے لیے آسان ہو جائے گا۔ جمہوریت کا جشن منانے والے ان زمینی حقائق کو اپنے سامنے رکھیں ۔ ورنہ شاعر مشرق علاّمہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ :
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے