سیاستمضامین

یوکرائن کی جنگ ایٹمی جنگ بن سکتی ہے؟

یوکرائن،یورپ کا روس کے بعد سب سے بڑا ملک ہے اس کی آبادی 5کروڑ اور قومی پیداوار 350 ارب ڈالر ہے۔ یہ ایک صنعتی و زرعی ملک ہے قدرتی وسائل سے مالامال یہ ملک اشتراکی روس میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ دفاعی اور حربی آلات کی پیداوار ہو یا یورپ کو روسی گیس کی ترسیل، یوکرائن بنیادی اہمیت کا حامل ملک رہا ہے۔ یہاں روسی زبان بولنے والی آبادی بھی ہے روسی اور یوکرائنی، دونوں زبانیں سرکاری ہیں۔ یوکرائن کا انفراسٹرکچر ہو یا درآمدات و برآمدات یہ سب کچھ روسی نظام میں گڈ مڈ ہے۔ اشتراکی روس میں یوکرائن کو کبھی بھی ایک علیحدہ خطے کے طور پر ترقی نہیں دی گئی۔ اسے الگ یا غیر روسی نہیں سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ نے اسے ناٹو میں شامل کرنے کا اعلان کیا تو روس نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔

مصطفی کمال پاشا

روسی صدر ولایمیر پوٹن نے بڑے کھلے اور واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ روس یوکرائن میں جاری فوجی آپریشن کو تقویت دینے کے لئے بیلاروس میں جنگی ایٹمی ہتھیار نصب کرے گا اور ہتھیار یوکرائن میں لڑنے والی روسی افواج کی مدد کے لئے ہوں گے۔ اس طرح گزشتہ سال فروری سے شروع ہونے والی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے لگی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ نے یوکرائن کو ایسے گولے فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا جو لوہے کی چادر یا پلیٹ کو بھی چیر سکتے ہیں ان میں ڈیبلیٹڈ یورینیم پایا جاتا ہے یعنی یہ ایٹمی گولے ہوں گے جوابی طور پر روس نے بھی اپنی فوج کی مدد اور معاونت کے لئے جنگی ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان کرکے ماہرین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق روس کے پاس ایسے 2ہزار کے قریب ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جنہیں جنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ شارٹ رینج میزائلوں اور طیاروں کے ذریعے داغے جا سکتے ہیں یہ چھوٹے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے کام آ سکتے ہیں۔ یونین کا ایسے ہتھیاروں کی تنصیب کا اعلان کچھ انہونی بات نہیں ہے بقول یونین امریکہ پہلے بھی بیلجیم، جرمنی، اٹلی، نیدر لینڈ اور ترکی میں ایٹمی ہتھیار نصب کئے ہوئے ہے اس لئے بیلاروس میں ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب کو انہونا واقع نہیں سمجھنا چاہیے۔
1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد معاملات نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔ کہا جاتا رہا ہے کہ عظیم الشان اشتراکی ریاست کا 15ٹکڑوں میں پرامن طریقے سے تقسیم ہونا ایک تاریخی واقع ہے کوئی خون خرابہ نہیں ہوا بلکہ 15آزاد ریاستیں قائم ہو گئیں حالانکہ اشتراکی ریاست کے قیام کے وقت خوب خون خرابا ہوا تھا۔ ریاستی جبر کے ذریعے مختلف ممالک اور ریاستوں کو غیر فطری انداز میں اکٹھا کیا گیا اور انہیں سات دہائیوں تک اشتراکیت کے جبر و قہر کے ساتھ ایک سلطنت کا حصہ بنا کر رکھا گیا۔ سوویت یونین کے جی بی اور سرخ فوج کے جبر اور آہنی شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ آہنی پردے کے پیچھے معاملات چلتے رہے حتیٰ کہ 1991ء میں اشتراکی سلطنت تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی دنیا حیران ہوئی کہ ایسا کیسے ہو گیا بہرحال ریاستیں الگ الگ ہو گئیں۔ ایسا لگا کہ روس ایک عام سی ریاست رہ گیا ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پوٹن روس کو ایک عظیم سلطنت بنانے کا عزم رکھتے ہیں اور ان کی عسکری و سفارتی پالیسیاں اسی مرکزی فکر و نظر کی عکاسی ہیں۔
اشتراکی سلطنت کے انہدام کے بعدناٹو (جو ایک فوجی اتحاد ہے) کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ ناٹو، اشتراکی پھیلاؤ کو روکنے اور اس کی منہ زوریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا1911ء میں اشتراکی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور امریکہ۔ سوویت یونین سرد جنگ کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا۔امریکہ واحد سپرپاور کے طور پر دنیا کے نقشے پر قائم تھا امریکہ نے اپنی بڑائی ثابت کرنے کے لئے خلیجی جنگ بھی شروع کی۔ آپریشن ڈیزرٹ سٹارم اور ڈیزرٹ شیلڈ کے ذریعے اپنی عسکری برتری کی دھاک بھی بٹھا دی اور تہذیبی جنگ کا اعلان کرکے اپنا آئندہ دشمن بھی دنیا پر ظاہر کر دیا تھا ایسے میں ناٹو ممالک کے عسکری اتحاد کا جواز ختم ہو چکا تھا لیکن امریکہ نے اسے جاری رکھا اور اس کا دائرہ کار پھیلانا شروع کر دیا۔ مشرقی یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے دفاعی اعتبار سے اپنے آپ کو کمزور اور غیر محفوظ سمجھتے ہوئے ناٹو میں شمولیت اختیار کرناشروع کر دی۔ ابتداء تو روس نے اس پر کچھ ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن جب روس کی مشرقی سرحدات کے ہمسایہ ممالک کو ناٹو میں شامل کیا جانے لگا تو معاملات نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ جب یوکرائن کو ناٹو میں شامل کرنے کی بات ہوئی تو معاملات بگڑ گئے۔
یوکرائن،یورپ کا روس کے بعد سب سے بڑا ملک ہے اس کی آبادی 5کروڑ اور قومی پیداوار 350 ارب ڈالر ہے۔ یہ ایک صنعتی و زرعی ملک ہے قدرتی وسائل سے مالامال یہ ملک اشتراکی روس میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ دفاعی اور حربی آلات کی پیداوار ہو یا یورپ کو روسی گیس کی ترسیل، یوکرائن بنیادی اہمیت کا حامل ملک رہا ہے۔ یہاں روسی زبان بولنے والی آبادی بھی ہے روسی اور یوکرائنی، دونوں زبانیں سرکاری ہیں۔ یوکرائن کا انفراسٹرکچر ہو یا درآمدات و برآمدات یہ سب کچھ روسی نظام میں گڈ مڈ ہے۔ اشتراکی روس میں یوکرائن کو کبھی بھی ایک علیحدہ خطے کے طور پر ترقی نہیں دی گئی۔ اسے الگ یا غیر روسی نہیں سمجھا گیا یہی وجہ ہے کہ جب امریکہ نے اسے ناٹو میں شامل کرنے کا اعلان کیا تو روس نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ فروری 2022ء میں روس نے یوکرائن پر حملہ کرکے اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ اپنے ہمسائیگی میں ناٹو افواج کو ہرگز ہرگز بیٹھنے نہیں دے گا۔13ماہ سے جاری اس جنگ میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی و یورپی ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں۔ یورپی معیشت پر اس جنگ کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی کساد بازاری جاری ہے۔ عالمی معیشت ابھی کووڈ 19کے منفی اثرات سے ہی سنبھل نہیں پائی تھی کہ یہ جنگ شروع ہو گئی۔ روس، گیس واناج کا بہت بڑا برآمد کنندہ ہے جنگ کے باعث سپلائی لائن متاثر ہو چکی ہے۔ روس نے گیس و اناج کی رسد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس سے پہلے امریکہ و یورپ نے یوکرائن کی مدد کرنے کے لئے روس پر اقتصادی پابندیاں لگانا شروع کیں تاکہ روس کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے لیکن ایسا نہیں ہو سکا یونین نے طے شدہ پروگرام کے مطابق جنگ جاری رکھی اور اقتصادی پابندیوں کے جواب میں اناج و گیس کی رسد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں یورپ میں بحران پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ امریکہ و برطانیہ نے یوکرائن کو ہتھیاروں کی سپلائی شروع کر دی اس طرح جنگی جنون میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ روس نے بیلاروس میں ایٹمی ہتھیاروں کی تنصیب کے اعلان کے ذریعے اپنے عزم بالجزم کا اظہار کیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ جنگ جاری رہے گی اور اس کے منفی سفارتی، معاشی اور سیاسی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
حال ہی میں چین اور روس نے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی ہیں اس سے تاثرپیدا ہوا ہے کہ شاید چین و روس میں کوئی فوجی معاہدے بھی ہونے جا رہا ہے گو روس نے اس بات کی تردید کی ہے لیکن جاری حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہے کہ چین روس کو کسی مشکل وقت میں تنہا چھوڑ دے گا۔ امریکہ چین کا راستہ بھی روکنا چاہتا ہے لیکن لگ نہیں رہاہے ہانگ کانگ اور تائیوان کے مسائل پر چین نے جس طرح سخت اور بے لچک رویہ اختیار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرے گا۔ اب امریکہ یوکرائن میں روس کے دانت کھٹے کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے لیکن ایسا ہوتا بھی سردست نظر نہیں آ رہا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰