سید سرفراز احمد
ملک کی عدالت عظمی نے 29/ستمبر کومیڈیکل ٹرمینیشن آف پریگنسی (ایم ٹی پی) ایکٹ 2021میں ترمیم کی اور اس کی تشریح کرتے ہوئے فیصلہ صادر کیا کہ غیر شادی شدہ، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین قانونی طور پر شادی شدہ خواتین کی طرح 24ہفتے تک کے جنین کے اسقاط حمل کرنے کی حقدار رہیں گی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی یعنی ایک ہی صنف کے دو بالغ لوگوں کے درمیان باہمی رضامندی سے جنسی تعلق کوجرم سے نکال کر جنسی تعلقات کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے غیر ازدواجی یعنی شادی شدہ مرد و خواتین کو اپنی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے یہ تاریخی فیصلے مغربی کلچر کی جانب بڑھتے قدم کی طرح ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اس طرح سے انسانی حقوق کی آزادی کے نام پر فیصلے ہوتے ہیں تو بجائے جرائم میں کمی کے اضافہ کا سبب بنیں گے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر چوتھا کیس عصمت ریزی کا ہوتا ہے۔ دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 67 فیصد اسقاط حمل غیر محفوظ ہوتے ہیں جو روزانہ تقریباً 8 اموات کا سبب بنتے ہیں۔
اس رپورٹ کے حوالے کے بعد اندازہ کیجئے کہ آزادی اور حق حاصل نہ ہونے کے باوجوداسقاط حمل کی شرح فیصد میں جو اضافہ دیکھا جارہا ہے، کیا وہ حق حاصل ہونے کے بعد اسقاط حمل کی شرح فیصد میں مزید اضافہ کا سبب بنے گا یا کمی کا؟انسانی حقوق کے تئیں اگر سماج کو اس طرح کی آزادی دی جائے گی تو جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جائے گا اور آہستہ آہستہ شادی اور ازدواجی زندگی کا تصور بھی ختم ہوتا جائے گا۔نوجوانوں کی بے راہ روی میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا جبکہ جو خواتین اسقاط حمل کی وجہ سے مسائل سے دوچار ہوکر مختلف بیماریوں میں گھر کرپریشانیوں میں مبتلاءہوجاتی تھیں یا اپنی جان گنوا دیتی تھیں، اب ان جرائم میں مزید اضافہ کے امکانات ہیں یہی نہیں بلکہ سماجی برائیوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوجائے گا۔تصور کیجئے اگر کوئی غیر شادی شدہ لڑکی اسقاط حمل کو اپنا حق مان کر اپنی مرضی سے کسی سے جنسی تعلق بناکر حاملہ ہوجاتی ہے تو اس کے بعد ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار کون ہوگا؟ قانونی نوعیت سے اس کا حمل تو ساقط کردیا جائے گا لیکن کیا اس کو سماج میں قبول کیا جائے گا؟ دوسرے اس کی ازدواجی زندگی کے لیے کیا رکاوٹیں پیدانہیں ہوں گی؟ تیسرے وہ ایک سماج کے اندر کیاعیب دار بن کر نہیں رہ جائے گی؟یہ سب ایک سماجی مسائل ہیں کیوں کہ قانون اور سماج کے درمیان ایسے معاملات میں اخلاقی طور پر اختلاف کا جو خلاءہے وہ کبھی پر نہیں ہوسکتا اور نہ کسی بھی مذہب کا سماج اس کو قابل قبول درجہ تک پہنچا سکتا ہے۔ قانونی رو سے ایک لڑکی آزاد تو ہوسکتی ہے لیکن وہ جس سماج میں زندگی گزارتی ہے، وہ اس چنگل سے آزاد ہرگز بھی نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ذہنی آزمائشوں اور نفسیاتی ہراسانی کا شکار ہوسکتی ہے بلکہ حتی الامکان یہ ممکن بھی ہے کہ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر اس کی زندگی تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گی۔
جوغیر شادی شدہ خواتین پہلے اسقاط حمل چوری چھپے کرواتی تھیں، اب وہ اس قید سے آزاد ہوچکی ہیں۔ اب تو وہ اپنی آزادی اور انسانی حق کاناجائز استعمال چھپے انداز سے نہیں بلکہ کھلے عام اس سے بھی بڑھ کر اعلانیہ بھی کرسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں اس قانون کو آزاد ہندوستان کے 75 سال بعد نافذ کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟حالانکہ ہماراملک اور اس کے عوام اس قانون کے اطلاق کے بغیر بھی ایسے گھناو¿نے جرائم کے کم و بیش واقعات کے ساتھ قانونی گرفت کے تحت چل رہا تھا اورکسی بھی ملک میں جرائم کاپایا جانا ایک عام سی بات ہے، لیکن جرائم کو حقوق میں شامل کرتے ہوئے آزادی دینا یہ سماج کے لیے بڑا سنگین معاملہ ہے۔ جرم کے ارتکاب پر قانون کا جوخوف لاحق تھا ،اب نہیں رہے گا اب تو انھیں خود قانون کے چنگل سے آزاد کرکے جرائم کی کھلی آزادی فراہم کرنا چور کو چوری کرنے کی کھلی آزادی دینے کے مترادف ہوگا۔ اس کے علاوہ فرض کیا جائے کہ اگر کسی خاتون کے حمل کے چھ تا سات ماہ گزر جائیں گے تب تو وہ اپنے حمل کو قانونی طور پرساقط نہیں کرواسکتی اور اس خاتون کی کوک میں پل رہا بچہ جب دنیا میں آنکھ کھولے گا تو کون اس بچہ کا ذمہ دار ہوگا؟کون اسکا وارث ہوگا؟یا پھر بناءازدواجی تعلق کے خاندان اور سماج اس بچہ کو قبول کرپائے گا؟یا پھر اس بچہ کی پیدائش کے بعد ماں باپ کو ازدواجی رشتہ میں باندھا جائے گا؟یہ سب وہ سوالات ہیں جو اس ایک غلطی کے نتیجہ میں پیدا ہوسکتے ہیں جو ایک خاندان میں مسائل کے انبار لگا سکتی ہے جس سے خاندان بکھرنے کا خدشہ لاحق رہے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب ایک بچہ بناء ازدواجی رشتہ کے دنیا میں جنم لے گا تو کیا اس بچہ سے انسانی حق تلفی نہیں ہوگی؟حق تلفی تو ایک ماں کے پیٹ میں حمل کو ساقط کرنے سے بھی ہوجاتی ہے۔ اگر ملک میں ایسے روز سینکڑوں حمل ساقط کیے جائیں گے تو اندازہ کیجئے کہ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں روز کتنے بچے اپنے جینے کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔ کیا یہ انسانی حقوق میں شامل نہیں ہے؟اگر ہم مذہب اسلام کی تعلیمات پر نظر ڈالتے ہیں تو قرآن کہتا ہے تم مفلسی کے ڈر کی وجہ سے اپنی اولاد کا قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور انھیں بھی۔ یہ قرآن کا حوالہ اس لیے دیا جارہا ہے کیوں کہ عدالت اعظمی نے جس خاتون کے کیس کی سماعت کے دوران یہ فیصلہ سنایا اس خاتون کا کہنا تھا کہ وہ اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے بچوں کی پرورش نہیں کرسکتی۔ بہرحال اس طرح کی آزادی سے خواتی
ن پر مظالم میں اضافہ ہوگا اور خمیازہ خود خواتین کو بھگتنا پڑے گا سماج پر اسکے منفی اثرات مرتب ہونگے لہٰذا عدالت اعظمی کو چاہیے کہ وہ اپنے اس فیصلہ پر دوبارہ غور کرے تاکہ خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔