مضامین

کیا ہلدوانی کا واقعہ ہمارے لیے نوشتہ دیوار نہیں؟

محمد ضیاءالدین

گزشتہ ہفتہ سپریم کورٹ نے ہلدوانی کے ہزاروں افراد کو بے گھر ہونے سے عبوری طور پر بچالیا، مگر یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا۔7 فروری کو اس کیس کی دوبارہ سماعت ہونی ہے۔
گزشتہ کچھ د نوں سے سوشل میڈیا اور معدودے چند غیر جانبدار میڈیا نمائندوں نے اترا کھنڈ کے ہلدوانی نامی مقام پر ریلوے کی جگہ پر ناجائز قبضہ کے نام پر چار ہزار خاندانوں کے سر سے چھت ڈھائے جانے کے سرکاری فیصلے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں بے گھرہونے والے ہزاروں افراد کی بے چینی اور بے گھر ہونے کے خوف کے سبب ان میں پائی جانے والی سراسیمگی اور خوف کو اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے اس کے بین السطور میں مسلم دشمنی کی سیاست کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جو نہ تو نئی ہے نہ ہی غیر متوقع ۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ 2014 کے بعد سے اس ملک کی سیاست اور اس ملک کے حکمرانوں کا طریقہ حکمرانی یہ بن گیا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے اس ملک کے مسلمانوں کو اذیت پہنچے تاکہ اس طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑے جو مسلمانوں کے تئیں بغض اور نفرت کے جذبات رکھتا ہے اور حکمران طبقہ کے لیے اقتدار کی کنجی ہے۔ گو کہ ان مفسد طبقات کی تعداد اتنی زیادہ نہیں کہ حکمران طبقہ ان کے بل پر مطلوبہ نتایج حاصل کرسکے اور اس حقیقت سے وہ واقف بھی ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ اس طبقے کے بغلیں بجانے اور اظہار خوشی کرنے سے ایک طرح کا نفرت کا ماحول پھیلتا ہے جس سے ایک طرف حکمران طبقہ کی ہندوپرستی کی امیج میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں میں غم غصہ اور بے چینی کی لہر پھیل جاتی ہے اور اگر مسلمانوں کی جانب سے کچھ تیکھے ری ایکشن آئیں تو یہ بھی حکمران طبقہ کے لیے فائدے کی ہی بات ہے اور بڑا فائدہ یہ کہ بے چینی اور اضطراب اور نفرت کے اس ماحول میں حکمران طبقے کی ناکامیاں بہت آسانی سے چھپ جاتی ہیں اور اسی گرد و غبار میں وہ بڑی ہوشیاری سے اپنے مفادات کی تکمیل کرلیتا ہے جو عام حالات میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔ غرض کہ سیاست اور اقتدار کی مرگھٹ پر مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنایا جارہا ہے اور اس میں ان کو کامیابی بھی مل رہی ہے ۔
زیر نظر اتر کھنڈ کے ہلدوانی کا واقعہ ہے جہاں کی ایک بستی میں چار ہزار سے زاید مکان ہیں جس کے بارے میں ریلوے کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کی جگہ ہے اور یہاں موجود لوگ غیر قانونی قابضین ہیں اور انھیں ہٹانے کے لیے اقدامات شروع کردیے۔ فطری طور پر جن پر یہ آفت آنے والی ہے، وہ عدالت سے رجوع ہوے اور اتر اکھنڈ ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا، اس پر کسی کو حیرت تو نہیں ہوئی کہ آج کل عدالتوں کے فیصلے حکمرانوں کی مرضی کے مطابق آنے لگے ہیں، تاہم اس فیصلے سے چھلکنے والی بے حسی پر اظہار افسوس ضرور ہوا کہ
اک عمر بیت جاتی ہے گھر بنانے میں
اس فیصلے پر عام آدمی کی رائے کوئی وقعت نہیں رکھتی، لیکن حال ہی میں ملک کے مشہور قانون داں پرشانت بھوشن برملا طور پر اس ملک کی ایجنسیوں اور انتظامیہ و عدلیہ کو حکومتوں کی جانب سے استعمال کیے جانے پر جو بات کہی ہے، وہی آج کی حقیقت ہے کہ ہمارا ملک دستور و قانون کی حدوں سے باہر نکلتا جارہا ہے اور جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اسے کسی بھی صورت قانون کی حکمرانی نہیں کہا جاسکتا۔ ہلدوانی کے واقعہ میں متاثرین کی اکثریت کا تعلق مسلمانوں سے ہونے کے سبب اس معاملے کو گودی میڈیا حسب توقع مسلمانوں کو غیر قانونی قابض قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جبکہ غیر جانبدار تجزیہ کار بتارہے ہیں کہ یہ زمین سرکارکی جانب سے آکشن کی گئی تھی اور یہاں کے باشندوں کے اجداد نے یہ زمین سرکار سے خریدی تھی جس کے ان کے پاس شواہد و کاغذات ہیں، لیکن کہتے ہیں نہ کہ ظالم کی ہٹ دھرمی کے سامنے کوئی دلیل نہیں چلتی مزید برآں متاثرین کے موقف کو عدالت نے بھی نظر انداز کر دیا، حتیٰ کہ ناجائز قابضین کو ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے گایڈ لاینس کو بھی پس پشت ڈال دیا گیا صرف اس لیے کہ معاملہ مسلمانوں کا ہے۔ معروف صحافی رویش کمار نے کئی مثالوں کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح بی جے پی کی حکومتیں اور ان کی ایماءپر انتظامیہ دھڑلے سے جانبدارانہ کارروائی کرتے ہیں کہ دلی کے جہانگیر پوری علاقے کی انہدامی کارروائی پر سپریم کورٹ کے اسٹے کے باوجود انتظامیہ نے اپنی کارروائی یہ دلیل دے کر جاری رکھی کہ انھیں کورٹ کے احکامات موصول نہیں ہوئے اور جب وکلاءنے کورٹ کے علم میں یہ بات لائی اور ادعا کیا کہ اس سے کورٹ کے احکامات کی عمل آوری کے معاملہ میں انتظامیہ کے اس رویے سے کورٹ کے احکامات اور کورٹ کے درجے کے بارے میں ایک غلط پیغام جارہا ہے، تب جاکر کورٹ کے رجسٹرار نے بذات خود کورٹ کے احکامات وہاں کے عہدیداروں کے سپرد کیے، تب جاکر یہ انہدامی کارروائی رکی لیکن تب تک وہ سب ہوچکا تھا جو کہ ان کی مرضی تھی اور یہ بھی کہ اس معاملے کے متاثرین مسلمان تھے۔ ایک اور معاملے میں جہاں چالیس لاکھ لوگ ناجائز قابضین تھے، انھیں ریگولرایز کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے انھیں قانونی تحفظ فراہم کیا۔ یہ ہے اس ملک کی موجودہ صورت حال ۔
جہاں تک بات سرکاری جگہوں پر ناجائز قبضہ جات کی ہے، وہ کسی ایک علاقے یا کسی ایک فرقے تک محدود نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مہاراشٹر میں آج بھی ایک سلگتا مسئلہ ہے جو وقتا فوقتا اپنا سر اٹھاتا رہتا ہے۔ مہاراشٹر کے دلت اپنے لیے سرکاری زمین کی مانگ کرتے ہیں اور سرکاری (گائے ران ) زمینات پر قبضہ کرتے ہیں۔ ان کے خلاف نمایشی کارروائی ہوتی ہے، کیسس دائر ہوتے ہیں اور معاملہ چلتا رہتا ہے۔ شاید ملک کے دیگر مقامات پر بھی ہو، لیکن مہاراشٹر کے اکثرو بیشتر اضلاع اور ٹاون ایسے ہین جہاں کی بڑی بڑی بستیاں ایسی ہیں جہاں کے مکین ناجائز قبضہ دار ہیں اور برسوں بیت گئے ہیں، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ یہ ہوا کہ ان بستیوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی گئیں، ہاں کچھ ایسے مقامات جن کے متعلقہ محکمہ جات نے مضبوتی سے اپنی جگہ کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی کی وہ اپنی جگہ کوعدالتوں کی مدد سے خالی کرانے میں کامیاب بھی ہوئے اور ناجائز قابضین کے مکانات کو حفاظتی انتظامات کے سہارے منہدم کردیا گیا۔ پرانی بات ہے۔ خود ہمارے شہر کا واقعہ ہے کہ آئی ٹی آئی کی زمین پر غریب طبقات نے اپنی بستی بسالی تھی جب ان کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ان کی حمایتی لیڈر شپ سامنے آگئی۔ مظاہرے ہونے لگی۔ انتظامیہ عدالت سے رجوع ہو ا۔ فیصلہ ناجائز قابضین کے خلاف ہوا۔ اس وقت کی کلکٹر سدھا بھاوے پولیس کے دستے کے ساتھ ہاتھ میں لاٹھی لے کر اس علاقے میں پہنچی اور مزاحمت کرنے والوں کو بے رحمی سے پیٹا گیا اور ساری بستی منہدم کرکے زمین دوز کردی گئی۔ بلدیہ کی زمینات پر ناجائز قابضین کے خلاف انہدامی کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ انہدامی کارروائی ہوتی ہے، پھر لوگ قابض ہوجاتے ہیں اور یہ چکر چلتارہتا ہے ۔ غرض کہ ناجائز قبضہ جات اور ان کے خلاف کارروایاں کوئی نئی بات نہیں۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے کبھی ذات مذہب دیکھ کر ایسی کارروائی نہیں کی جاتی تھی۔ یہ عمومی کارروائیاں سب ہی کے ساتھ ہوتی تھیں، لیکن اب مذہب دیکھ کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے ۔
ہلدوانی کے واقعہ کے خلاف عوامی احتجاج نمائندگی یا قانونی چارہ جوئی اپنی جگہ لیکن محض چیخ پکار روناپیٹنا یا دعائیں کرنا مسئلہ کا حل ہے ؟ اس واقعہ کو ہمیں نوشتہ دیوار سمجھنا چاہیے جو آنے والے کل کے بارے میں ہمیں آگاہ کررہا ہے کہ ہمیں اپنی روایتی غفلت کی چادر کو اتار کر پھینکنا چاہیے۔ ہم اپنی پراپرٹی ہی نہیں اپنی مساجد، مدرسوں اور درگاہوں کی دستاویزات ان کی بر وقت رینیول جیسی کاغذی کارروائیوں سے اکثر وبیشتر غافل ہیں۔ اب جب کہ باوجود کاغذات مکمل ہونے کے بد نیتی سے مین میخ نکال کر ہراساں کیا جارہا ہے تو کیا ہماری غفلت پر چھوڑدیا جاے گا۔ وہیں یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہم میں بعض افراد ایسے بھی ہیں جو بلدی یا اوقافی زمینات پر ناجائز قبضہ جات کرتے ہیں۔ اگر کرایہ دار ہوں تو کرایہ ادا نہیں کرتے، مساجد کی تعمیر کے وقت بلدی قوانین کی پابندی نہیں کرتے۔ کہیں کہیں مساجد، مدرسوں میں بالخصوص( سلم ایریاز ) میں بجلی اور پانی کے غیر قانونی کنکشن ہوتے ہیں جو غیر اسلامی بھی ہے، لیکن مقامی جاہل لیڈر سستی شہرت کے لیے اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ خامیاں اگر مسلم دشمن حکومتوں کے زیر اثر علاقوں میں قانونی کلچ میں آتی ہیں جیسا کہ ایک معروف دینی ادارے کے ساتھ ہواکہ ان کی تعمیرات کے لیے مناسب اجازت نہیں لی گئی تھی تو اس پر چلائے گئے بلڈوزرکو نہ قانونی تحفظ مل سکتا ہے نہ اخلاقی حمایت گوکہ یہ ہر طرف چل رہا ہے، لیکن ہم کو اس معاملے میں خبردار اور چوکس رہ کر اپنی قانونی پوزیشن مضبوط رکھنے کی ضرورت ہے۔
ہلدوانی کے واقعہ کے پس منظر میں ایک کرم فرما کا فون آیا کہ ملت کی تنظمیوں کو اس معاملہ کو وقتی معاملہ نہ سمجھتے ہوئے اس کے مستقل حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانا چاہیے، ہمیں ہلدوانی ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف مقامات پر ایسی مخدوش بستیوں میں رہنے والے مسلمانوں کا سروے کرنا چاہیے، ایسے لوگوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جو واقعی غریب اور مجبور ہیں اور دوسرے وہ جو لالچی غنڈہ فطرت کے ہیں، انھیں چھوڑکر غریبوں اور حقیقی مستحقین کے لیے زمین خرید کر انھیں قانونی طور پر بسانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ بظاہر تو یہ کام مشکل لگتا ہے، لیکن ایسی کئی مثالیں ہیں کہ کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر ایسی بستیاں بسائی ہیں جہاں وہ خوددار غریب عزت وعافیت کے ساتھ رہتے ہیں جو سر پر سائے سے محروم اور عزت و عصمت کے لیے خطرات سے پر بستیوں میں اندیشوں و خطرات کے سائے میں زندگی بتانے پر مجبور تھے۔ شرط ہے خلوص کی اگر ملی تنظیمیں ایک مشن کے طور پر ایک سال کی زکوٰة کو اسی ایک مصرف کے لیے خرچ کرنے کا بیڑہ اٹھائیں تو کچھ عجب نہیں کہ ہم اپنے ان مجبور بھائیوں کو ان خطرات سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری ملت کی اکثریت کو یا تو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ ملک کس طرف جارہاہے، محض اقتدار کے حصول کے لیے خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف آے دن ریشہ دوانیاں کی جارہی ہیں یا پھر بے حسی نے ان کو اس قدر گھیر لیا ہے کہ انھیں کچھ نظر آرہاہے نہ سجھائی دے رہا ہے ایسے وقت ملت کے باشعور طبقے کو اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے آگے آنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ نوبت یہ ہوگی کہ ہم اس کے سوا کچھ نہیں کہہ پائیں گے کہ
اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیا چگ گئی کھیت