مضامین

آر ایس ایس سربراہ مسلمانوں کو کیا پاٹھ پڑھانا چاہتے ہیں؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) کے سر سنچالک موہن بھاگوت جی ہر تھوڑے دن کے وقفے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نیا سبق پڑھانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے آر ایس ایس کے ترجمان آرگنائزر اور پنچ جنیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ انہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ساتھ میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہندو سماج ایک اور جنگ کی زد میں ہے اور یہ جنگ باہر کے دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اندر کے دشمن کے خلاف ہے، لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اندر کا دشمن کون ہے؟ سنگھ کے سربراہ نے یہ بھی ادعا کیا کہ ہندو سماج اب بیدار ہور ہا ہے اور اس کا جارحانہ انداز اختیارکر نا فطری عمل ہے، کیوں کہ ہندو سماج ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے بر سرپیکار ہے ، اور یہ لڑائی ہندو ، اپنے دھرم اور اپنی ثقافت کے دفاع میں لڑرہا ہے۔ موہن بھاگوت جیسے جہاں دیدہ ہندوتوا کے علمبردار اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی ایک سو چالیس کروڑکی آبادی میں ہندو اکثریت میں ہوتے ہوئے حالتِ جنگ میں ہے اور اس کا دھرم اور اس کی ثقافت خطرے میں ہے تو موہن بھاگوت کے اس بے بنیاد دعویٰ کو عام انصاف پسند ہندو بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ لیکن چو نکہ ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرنا ہے تا کہ اس کے ذریعہ سیاسی مفادات کی تکمیل ہوسکے، اس لیے یہ من گھڑت افسانہ ہندوتوا کے چمپئن گھڑ رہے ہیں کہ اب ہندوو¿ں کو کسی بیرونی طاقت سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ اندر کے دشمن کو ختم کئے بغیر ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ ہندو سماج ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے بر سر پیکار ہے تو پھر کیسے ہندو مذہب وتہذیب و تمدن کی حفاظت ہو سکی اور کیسے ملک میں ہندو آبادی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا ۔ انہوں نے مسلمانوں کو جہاں ہندوو¿ں سے نہ ڈرنے کا مشورہ دیا وہیں مسلمانوں کو آر ایس ایس کے سرسنچالک یہ ” زرین مشورہ "بھی دے رہے ہیں کہ اگر مسلمان اپنے آباءو اجداد کے عقیدہ کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کو پوری آزادی حاصل ہے اور ہندوو¿ں کوایسی کوئی ضد نہیں ہے کہ مسلمان ایسا کریں۔ اس عجیب و غریب منطق کے ذریعہ موہن بھاگوت یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے آباءو اجداد بھی ہندو تھے، لہٰذا موجودہ دور کے مسلمان بھی ہندو دھرم میں واپس آجائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حالیہ بیان میں انہوں نے ہندو دھرم کی بات نہیں کی۔ لیکن سابق میں متعدد مرتبہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سب کا ڈی این اے ایک ہے اور سب کے آباءواجداد ہندو تھے۔ اس لئے سب اپنے آپ کو ہندو کہتے ہوئے فخر محسوس کریں۔ ان کا یہ موقف انفرادی نہیں ہے بلکہ پورے سنگھ پریوار کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے لوگ ہندو ہیں۔ آر ایس ایس صدر نے ایک طرف مسلمانوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے یہ کہا کہ مسلمانوں کو کسی چیز سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن دوسری طرف انہوں نے یہ دعویٰ بھی ٹھونک دیا کہ مسلمانوں کو اپنی بالادستی کے دعویٰ کو ترک کرنا ہوگا۔اس کی بھی انہوں نے صراحت نہیں کی کہ آخر مسلمان کہاں اپنی بالادستی چاہتا ہے؟ کیا ہندوستان کا مسلمان دستورِ ہند سے ہٹ کر زندگی گزارنا چاہتا ہے یا اس نے قانون سے پَرے ہوکر حکومت سے کوئی مطالبہ کیا ہے؟ ہندوستان کے مسلمان سے کیا کسی اور طبقہ کو کوئی دقت ہے؟ مسلمانوں نے ہندوستان سے الگ کوئی ہوم لینڈ کا مطالبہ بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں کیا۔ پھر بالادستی کی بات کیوں آئی ؟ آر ایس ایس سربراہ کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو بالادستی کی اپنی بلند بانگ بیان بازی کو ترک کرنا پڑے گا، یہ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے دستوری اور قا نونی حقوق سے محروم کرنے کا ایک حربہ ہے۔ موہن بھاگوت ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کا راست مطالبہ نہیں کررہے ہیں بلکہ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بناکر اس ملک میں رہنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ مشورہ دینا کہ وہ یہ سب کام کریں تو ہندوستان میں امن و سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں ، یہ خود ملک کے آئین اور قانون کے خلاف بات ہے۔ ہندوستان ، مسلمانوں کا وطنِ عزیز ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لئے مسلمانوں کے آباءو اجداد نے بے مثال قربانیاں دیں ہیں۔ آزادی کے بعد بھی اس ملک کی تقدیر کو سنوارنے میں مسلمانوں کا رول کلیدی رہا ہے۔ آج بھی یہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہے۔ اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ بالادستی کے بلند بانگ دعوے سے دستبردار ہوجائے تو سوال یہ ہے کہ جس دستور کے تحت مسلمان اپنے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ چاہتے ہیں کیا یہ سب غلط ہے؟ ملک کے آئین نے جب سب کو یکساں حقوق عطا کئے ہیں اور اس کی ضمانت بھی دی گئی تو پھر سنگھ کے سربراہ کو یہ اختیار کہاں سے حاصل ہو تا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مشورے دینے کی آڑ میں انہیں دھمکانے لگیں۔ آر ایس ایس سربراہ نے مذکورہ انٹرویو میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہندو ایک اعلیٰ نسل ہے ، ہم نے کبھی اس سرزمین پر حکومت کی تھی اور دوبارہ کریں گے۔ ان کا یہ کہنا کہ صرف ہمارا راستہ درست ہے اور باقی سب غلط۔ یہ دراصل تنگ نظری اور تعصب کی بدترین مثال ہے۔ سنگھ پریوار کی پوری عمارت اسی بنیاد پر کھڑی ہے کہ ہم اعلیٰ و ارفع ہیں اور سب نیچ اور کمتر ہیں۔ دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو بھی ہندوتوا کے علمبردار ان کے جائز حقوق سے محروم رکھتے ہیں۔ نسلی برتری کا یہ غرور اب سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ موہن بھاگوت کا یہ متنازعہ انٹرویو کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ سنگھ کا فلسفہ ہے جس کے ترجمان موہن بھاگوت ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ہندو سماج بیدار ہورہا ہے لیکن اس کی یہ بیداری ملک کی ترقی یا ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی کے لئے نہیں ہے بلکہ ہندوستانی سماج کو مزید انتشار اور افتراق میں مبتلا کرنے کے لئے ہے۔ ملک کی ایک اہم تنظیم کے سربراہ کا یہ کہنا کہ جنگ باہر کے دشمن کے خلاف نہیں بلکہ اندر کے دشمن کے خلاف ہے، ملک کو ایک آتش فشاں پر کھڑے کردینا ہے۔ سماج کے مختلف طبقات کے درمیان جنگ و جدل اور نفرت و عناد پھیلانا کیا واقعی ملک کی خدمت ہے۔ موہن بھاگوت نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو ہندوستان رہنے دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کون ہندوستان کی شبیہ بگاڑ رہا ہے۔ ہندوستان کا مسلمان ، یہاں رہنے والا عیسائی یا دلت ، ہندوستان کو ہندوستان ہی رکھنا چاہتا ہے۔ سنگھ پریوار ہندوستان جیسے خوبصور ت ملک کی تصویر کو مسخ کرکے اسے ہندو راشٹرا میں بدلنے کی سازش میں لگا ہے۔ موہن بھاگوت کا ادعا ہے کہ غیر ملکی حملہ آور نہیں رہے لیکن غیر ملکی اثرات اور غیر ملکی سازشیں جاری ہیں ، چونکہ یہ جنگ ہے لہٰذا لوگوں ( ہندوو¿ں ) کے جوش میں آنے کا امکان ہے، اس لیے جارحیت کا عمل جاری رہے گا۔ موہن بھاگوت کی یہ تاویل کسی بھی سمجھ دار شہری کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر کوئی دوسرا لیڈر موہن بھاگوت جیسا لہجہ استعمال کر تا تو اس پر کئی مقدمات دائر ہوجاتے اور وہ جیل میں بند کردیا جاتا۔ لیکن معاملہ حکومت کے ریموٹ کنڑول کا ہے، اس لیے کسی کو پوچھنے کی ہمت نہیں ہے کہ ایک جمہوری ملک میں کیا اس قسم کی باتیں مناسب اور موزوں ہیں ؟ اشتعال انگیز بیانات کو جب جائز قرار دے دیا جائے تو پھر ملک میں جارحانہ فرقہ پر ستی کے کھلے مظاہرے ہوتے رہیں گے۔ اس وقت پورے ملک میں جو زہریلی فضاءدیکھی جا رہی ہے وہ اسی بیان بازی کا نتیجہ ہے۔ اس پر کوئی گرفت نہیں ہے۔
آر ایس ایس سربراہ کے یہ بیانات کوئی حادثہ اتفاقی نہیں ہے۔ موہن بھاگوت ایک مضبوط اور قدیم تنظیم کے سر سنچالک ہیں ۔ وہ جب کچھ کہتے ہیں تو اس کا خاص پس منظر ہو تا ہے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے دو جریدوں کو انٹرویو ایک ایسے وقت دیا ہے جب کہ ملک میں الیکشن کا ماحول بنتا جا رہا ہے، ملک کی اہم ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ آئندہ سال عام انتخابات کا بھی مرحلہ ہے۔ بی جے پی نے اپنے نو سالہ دور حکومت میں عوام سے کئے گئے کسی وعدے کی تکمیل نہیں کی۔ ملک کے کسی شعبہ میں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی۔ صرف نزاعی مسائل کو چھیڑ کر عوام کو الجھا کر رکھ دیا گیا۔ حقیقی مسائل کے حل کی طرف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔ اب جب کہ الیکشن کا سامنا ہے ، سنگھ پریوار کو ڈھال بناکر سیاسی عزائم کی تکمیل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے بھی بی جے پی قائدین کومخمصہ میں ڈال دیا ہے۔ جس پارٹی کو ملک سے مکت کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا وہ پارٹی اپنی سیاسی ساکھ کو بڑھارہی ہے۔ ایسے میں بی جے پی کے لئے پھر سے ایک انجانے دشمن کی تلاش تھی۔ اسی کوگھیرنے کے لئے آر ایس ایس کے سربراہ کو منظر پر لایا گیا۔ کل تک موہن بھاگوت مسلم دانشوروں کے ساتھ گفت و شنید کرنے میں مصروف تھے۔ زیادہ دن کی بات نہیں ہے کچھ عرصہ پہلے ہی مسلمانوں کی بااثر شخصیات سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جائے۔گیان واپی مسجد کے تنازعہ کے تناظر میں آر ایس ایس سربراہ نے کہا تھا کہ ” ہر مسجد میں شیو لنگ کیوں تلاش کیا جائے ” اب آر ایس ایس کے صدر مسلمانوں کو مشورہ یا وارننگ دے رہے ہیں کہ وہ بالادستی کے بیانیہ کو ترک کردیں۔ اور پھر ہندو جارحیت کو بھی سند تصدیق عطا کرنے سے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیسے پروان چڑھے گی۔ ایک طرف بین المذاہب تعلقات کو فروغ دینے کے دعوے اور دوسری طرف اندر کے دشمن کو ختم کرنے کا ادعا، یہ ساتھ ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے بارے میں موہن بھاگوت کو مشورہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے دستور نے انہیں یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق دستور کی جانب سے دئے گئے حقوق کو استعمال کر تے ہوئے اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔ سنگھ پریوار یا موہن بھاگوت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنی بالادستی کے تصور کو ختم کرلیں۔ ہندوستان میں مسلمان بھی دیگر شہریوں کے برابر حقوق اور آزادیاں رکھتے ہیں۔ موہن بھاگوت بین السطور میں مسلمانوں کی شہریت کو ختم کرنے کی سازش رچا رہے ہیں۔ مسلم دانشوروں اور تنظیموں کو آر ایس ایس کے اس گھناو¿نے کھیل سے واقف ہونا ضروری ہے۔ بدبختی کی بات ہے کہ مسلمانوں کی بعض اہم شخصیتیں اور بعض مسلم جماعتیں سنگھ پریوار کے ان مذموم عزائم کو سمجھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ اپنا گٹھ جوڑ بنائے ہوئی ہیں۔ راشٹریہ مسلم منچ ، جو آر ایس ایس کی ایک محاذی تنظیم ہے، اس کے پلیٹ فارم پر بڑی تقدس مآب ہستیاں جلوہ افروز ہو تی نظر آ رہی ہیں۔ مسلم علماءاور دانشوروں کی جانب سے ایسی تنظیموں سے میل ملاپ اور ان کی حمایت آنے والے دنوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل بیان مصائب اور مشکلات میں ڈال دے گی۔ چند حقیر ذاتی مفادات کے لیے پوری ملت کو داو¿ پر لگادینا ایک ایسا جرم ہوگا جس کی سزا دنیا میں بھی مل کر رہے گی۔ اس لئے آر ایس ایس کے سر سنچالک کے میٹھے زہر کو امرت نہ سمجھا جائے۔ ان سے سوال کیا جائے کہ یہ حق آپ کو کس نے دیا کہ آپ مسلمانوں کو یہ پاٹھ پڑھا رہے ہیںکہ مسلمان بالادستی کے بیانیہ کو ترک کردیں۔٭٭

a3w
a3w