سیاستمضامین

اب ملک کی ترقی کے لئے پانچ پران

محمد اعظم شاہد

اس بار ہندوستان کے حصول آزادی کے 75سال مکمل ہوگئے۔ پندرہ اگست کو آزادی کا امرت مہاتسو نہایت اہتمام کے ساتھ ملک بھرمیں منایاگیا۔ جدید ہندوستان کی تاریخ میں اس بار کا جشن آزادی ایک تاریخی دن تھا۔ ہر ہندوستانی نے ہر گھر ترنگا مہم میں پورے جوش اوروطن دوستی کے جذبے سے سرشار ہوکر شامل رہا۔ پورے ملک میں ہرسمت لہراتا ہوا ترنگا نظر آیا۔ یہ سماں برسوں یاد رہے گا۔
ہمارے وزیراعظم مودی کا انداز ہربار نرالا ہوتا ہے۔ نویں بار مسلسل ’جشن آزادی‘ کے موقع پر راجدھانی دلی میں ترنگا لہرانے کے بعد اپنے قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے اگلے 25سالوں کے لئے یعنی 2047تک جب آزادی کے پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے۔ آپ نے ’’پانچ پران ‘‘ (عہد یعنی قسم لینے) کا اعادہ کیا۔ ملک میں رائج بدعنوانی ، بدگمانی اوراقرباء پروری کے خاتمے کے لئے آواز دیتے ہوئے مودی جی نے خوب کہاکہ ملک کی ترقی کے لئے اورمجاہدین آزادی کے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے ہمیں نئے سمت ورفتار میں آگے بڑھنا ہے۔ پانچ نئے عہد وپیمان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نے بتایاکہ ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے۔ آزادی کے قبل کی غلامانہ ذہنیت کے نشانات کو ختم کرنا ہے، ہماری باوقار وراثت پہ ہمیں فخرہونا چاہئے۔ ہمارے اتحاد ہی میں ہماری طاقت مضمر ہے۔ملک کے شہری کے طور پر ہمارے فرائض کو پورا کرنے میں ایماندارانہ رویہ اپنانا ہوگا۔ یہ فریضہ وزیراعظم اور ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی انجام دینا ہوگا۔ ملک کی مشترکہ تہذیب اور لسانی ورثے پروزیراعظم نے یہ بھی کہاکہ ملک کو تمام ہندوستانی زبانوں پرفخرکرنا چاہئے۔
سال 2014 سے حکومت (مرکزی) کی جو کارکردگی اور جن ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار ہے وہاں سب کے ساتھ یکساں سلوک اور ’’ سب کی شمولیت‘‘ پر کس حد تک توجہ دی جارہی ہے اور کس نوعیت کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ان امور پر بہت زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم کے اور ان کے ہمنوا کابینی وزراء اور ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے قول وعمل میں جو تضاد واضح طورپرنظر آتا ہے، وہ لفظوں کے درمیان کئی باتیں کہہ جاتا ہے۔ اقربا پروری ، بدعنوانی ، رشوت خوری کا چلن کھلے عام ملک کے انتظامیہ اور ایوان اقتدار میں دیکھا جارہا ہے۔ حصول آزادی کے 76ویں سال میں قدم رکھتے ہوئے ہندوستان میں بھولے سے بھی وزیراعظم نے تحریک آزادی میں ہندوستانی مسلمانوں کے رول پر کچھ کہا یا پھر خراج عقیدت پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ دراصل یہ رویہ کسی حیرت کا باعث نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ملک ترقی کے دھارے میں سب کی برابر شمولیت ہی سے ممکن ہے۔ مگر ملک کے مسلمان ان پر جس طرح کا امتیازی سلوک کیا جارہاہے اس سے وہ بے چین ہیں۔ عدم اطمینان محسوس کررہے ہیں۔ جہاں بنیادی فرائض کی معقول اور فرض شناس ادائیگی کی باتیں ہورہی ہیں وہ درحقیقت جملے بازی سے آگے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہیں۔ملک میں آر ایس ایس کی ایماء پر بی جے پی جس ہندو واد اور ہندو راشٹر کے قیام کے لئے کمربستہ ہیں وہاں سب کا ساتھ ، سب کا وکاس کے لئے جگہ کہاں ہے۔ بشمول کرناٹک کے وزیراعلیٰ بومئی بی جے پی کے زیر اثر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ فخر محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی سے وہ اتفاق کرتے ہیں۔ کرناٹک میں آزادی کے امرت مہاتسو کے سرکاری اشتہار میں نہرو کی تصویر کے نہ ہونے پر کافی باتیں ہوئیں۔ جشن آزادی کی تقریبات کے دوران وزیراعلیٰ بومئی نے تاویلات پیش کرتے ہوئے اپنا دامن یہ کہہ کر بچانا چاہا کہ نہرو کی ہم عزت کرتے ہیں مگر نہرو کی خدمات کو زیادہ اجاگر کرکے سابقہ حکومتوں نے بابا صاحب امبیڈکر اور لال بہادر شاستری جیسے رہنماؤں کی خدمات کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ نہرو کے علاوہ بہت سے غیر مقبول مجاہدین آزادی نے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ پنڈت نہرو کے دور حکومت ان کی (نہرو) کی کمزور انتظامی صلاحیتوںکے باعث چین کے ہاتھوں جنگ میں ہندوستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب دیکھئے کون نہرو کی قابلیت کو کس کسوٹی پر پرکھ رہا ہے۔ جانبدارانہ رویہ اپناکر سنہرے مستقبل کی باتیں کرنے والے حقیقی معنوں میں خدمت گار ہیں۔ محض ڈھونگی ہیں۔ یہ بات اہل نظر جانتے ہیں۔ آزاد ہندوستان میں جمہوری نظام کی شاندار آئینی روایات کے باوجود کس طرح آئے دن سیکولرزم کو کمزور اور بے اثرکرنے کی کوشش دانستہ طور پر ہوتی رہتی ہیں۔ یہ کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں والے ضرور جانتے ہیں۔ سیاست ہی نہیں بلکہ انتظامیہ Administration میں بھی ذات پات کا موثر دخل وعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان حالات میں ’’آزادی کی صد سالہ تقریبات تک ملک کو طاقتور اور ترقی یافتہ کس طرح بنایا جارہا ہے۔ بنایا جائے گا۔ یہ آنے والا وقت ہی بتاسکے گا اورملک کی مشترکہ وراثت پر فخرکرنے کا پیغام دینے والے خود کس طرز فکر وعمل کے پاسدار ہیں۔ یہ سب پر واضح ہے۔

a3w
a3w