محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
٭ البتہ 20فیصد مسلم ووٹس کسی بھی امیدوار کو کامیابی دلاسکتے ہیں۔
٭ کئی حلقوں میں مسلم ووٹس کا تناسب 20تا40فیصد ہے۔
٭ اگر مسلم ووٹس انڈیا اتحاد کے پلڑے میں گریں تو زعفرانی پارٹی کی2024ء میں شکست یقینی ہے۔
٭ اترپردیش کے مسلمانوں کو ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے۔
ایسی صورت میں جبکہ الیکشن میں ہار اور جیت کا تفاوت صرف تین تا پانچ فیصد ووٹس ہوتا ہے‘ مسلمانوں کے زائد از بیس فیصد ووٹس کسی بھی پارٹی کو کامیاب کرسکتے ہیں اور کسی بھی پارٹی کو شکست سے ہمکنار کرواسکتے ہیں بشرطیکہ اترپردیش کے مسلمان ماضی میں کی گئی بھیانک غلطیوں کا اعادہ نہ کریں اور کسی بھی بیرونِ ریاست پارٹی کو ایک ووٹ بھی نہ دیں۔ گزشتہ اترپردیش اسمبلی الیکشن میں یہی غلطی بی جے پی کو کامیابی سے ہمکنار کرسکی ہے‘ جبکہ ہارجیت کا فرق صرف دو فیصد سے بھی کم تھا۔ یعنی مسلم ووٹس کی تقسیم ہوگئی اور بقول اترپردیش کے وزیرِاعلیٰ الیکشن 80:20 کی اساس پر ہوا۔
انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد صورتحال بدل گئی ہے اور حکمران زعفرانی پاری کے خیمہ میں کھبلی مچی ہوئی ہے۔ زعفرانی حکومت کسی بھی صورت میں مسلم ووٹس حاصل کرنا چاہتی ہے یا مسلم ووٹرس کو پھوٹ اور انتشار میں مبتلا کردینا چاہتی ہے۔ کامپٹرولر اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ‘ جس میں ہزاروں کروڑ روپیوں کا گھوٹالہ ہوا ‘ بی جے پی کے لئے ایک دھکہ ثابت ہوگا۔ آڈانی اسکام میں سپریم کورٹ کی مداخلت اور جواب طلبی‘ منی پور میں عیسائیوں کا قتلِ عام ‘ کوکی طبقہ کی خواتین کی عصمت ریزی ‘ ہزاروں مکانات کی آتشزدگی اور مودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور انسانی مسائل پر بے حسی‘ اپوزیشن لیڈرس کے گھروں پر انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ کے چھاپے‘ اپوزیشن وزراء کی گرفتاریاں‘ حد سے باہر جاتی ہوئی مہنگائی ‘ عروج پر بے روزگاری‘ فرقہ پرست ہندو دائیں بازو کی جماعتوں کی ان کے مجرمانہ اعمال پر خاموشی اور بے عملی‘ یہ وہ عناصر ہیں جو آنے والے الیکشن میں حکمران جماعت کا صفایا کرسکتے ہیں۔
اترپردیش کے مسلمان اس وقت ایک عرصۂ محشر میں ہیں۔ گزشتہ سات آٹھ سال سے وہ ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ بجرنگ دل ‘ وشواہندوپریشد‘ آر ایس ایس ‘ اور اسی قبیل کی دائیں ہاتھ کی تنظیموں نے جو مسلمانوں پر جو ظلم ڈھایا ہے اسے بھلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی وہ زخم مندمل ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر مزید پانچ سالہ اقتدار دائیں بازو کی پارٹی کو مل جائے تو نہ تو دستورہی رہے گا اور نہ ہی آزادی۔ مسلمان دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہ جائیں گے اوریو پی میں ان کا وہی حشر ہوگا جو مسلمانوں کا اسپین میں ہوا تھا۔ وہ اس وقت ایک آتش فشاں پر بیٹھے ہوئے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتاہے۔ خود پرست حکمرانِ وقت اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں گھرے کٹر ہندوؤں کی قدرت کے ہاتھوں بربادیوں اور تباہیوں پر بھی خاموش ہے۔ یہ وہی کٹر ہندو تھے جنہو ںنے ان دونوں ریاستوں میں مقیم مسلمانوںکو الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر اپنے گھر اور کاروبار بند کرکے چلے جائیں اور دیوتاؤں کی مقدس سرزمین کوناپاک نہ کریں۔ مسلمان پریشان اور ہراسانیوں کا شکار ہوچکے تھے اور حکومت بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ گودی میڈیا ‘ مخالف زعفرانیپارٹی کی حکومت کے خلاف نہ کوئی بات کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسی وحشت ناک خبر سے عوام کو روشناس کرواسکتا ہے۔
مسلمان ایک ” EVICTION ORDER” کا شکار تھے کہ اچانک قدرت کا قانون پورے زوروشور کے ساتھ (EXECUTE) ہوا اور ایک ایسا حکم تخلیہ جاری ہوا کہ مکینوں کے ساتھ مکانات بھی قدرتی تباہی کا شکار ہوئے۔ کچی مٹی اور پہاڑی ڈھلان پر بنے ہوئے ہزاروں مکانات طوفانی ندیوں میں بہہ گئے ۔ کوئی سڑک سلامت نہ رہی۔ بارش اتنی شدید تھی کہ بھاری چٹانیں بھی بہہ گئیں۔ شائد ہزاروں لوگوں کا دنیا سے تخلیہ کروالیاگیا۔ یہ حکم تخلیہ آج بھی جاری ہے۔ ’’ دیوتاؤں کی مقدس سرزمین ‘‘پر ایسی تباہی صدیوں میں بھی نہ آئی ہوگی۔ ایک شہراسی طرح سے تباہ ہوا جس کی کتبِ سماوی سے ہوتی ہے۔
زعفرانی پارٹی ایک خوف و ہراس کا شکار ہے۔ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ ‘ راجستھان ‘ آندھرا پردیش اورتلنگانہ میں نومبر میں انتخابات ہوں گے۔ تمام سروے کرنے والی تنظیموں نے بی جے پی کی واضح شکست کی پیش قیاسی کی ہے۔ جب جہاز ڈوبنے کے قریب ہوتا ہے تو س بسے پہلے چوہے ‘ اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح بی جے پی کے لیڈرس اپنا استعفیٰ پیش کرکے انڈیا اتحاد میں شامل ہورہے ہیں۔ تقریباً تمام ریاستوں میں انڈیا اتحاد کا زور نظرآرہا ہے۔ صرف گجرات‘ اترپردیش ہی دو ریاستیں ہیں جہاں سے بی جے پی کو کچھ امید ہے۔یقینی طور پر بی جے پی اترپردیش میں بھی ہارے گی اگر وہاں کے مسلمان دور اندیشی کا مظاہرہ کریں اور فہم وفراست سے کام لیں جوش دلانے والی تقریروں سے متاثر نہ ہوں اور کھل کر انڈیا اتحاد کا ساتھ دیں۔ اترپردیش کے مسلمان یاد رکھیں کہ ان کا ایک ایک ووٹ بہت ہی قیمتی ہے جس پر ان کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ اب جبکہ ایک کے مقابلہ میں ایک کی ٹکر ہوگی تو بی جے پی کے 35 فیصد ووٹس کچھ کام نہ آسکیں گے کیوں کہ مسلمانوں کے20 فیصد ووٹس جنگ میں اس محفوظ گھڑ سوار دستے کاکام کریں گے جن کا آخری اور حتمی حملہ جنگ کا پانسہ پلٹ دے گا۔ بی جے پی نے کچھ ضمیر فروش مسلمانوںکو اپنی پارٹی میں بعض اہم عہدے دیئے ہیں۔ جن میں ایک قریشی صاحب بھی ہیں جو سابق میں کانگریس کے ممبر آف پارلیمنٹ رہے ہیں اور آنجہانی راجیو گاندھی کے بہت ہی قریبی رفیق تھے۔ متذکرہ سیاست دان مسلمانوں کو ورغلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
اگراس حکمتِ عملی سے کام لیا جائے تو یقینی طور پر زعفرانی عفریت سے نجات مل جائے گی۔ مغربی اترپردیش میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے جو کم از کم بیس پارلیمانی نشستوںپر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ لیکن مقامی اکثریت کے بل بوتے پر وہ یہ نہ سوچیں گے وہ از خود کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر مسلمان اکیلے اورتن تنہا انتخاب لڑیں تو شکست نہ صرف ان کا مقدر ہوگی بلکہ وہ دیگر سیکولر پارٹیوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے جیسا کہ انہوں نے یو پی اسمبلی الیکشن میں کیا۔ اس سیاسی غلطی کا خمیازہ بے گناہ مسلمان آج تک بھگت رہے ہیں۔ ہندوستان کی انتخابی تاریخ میں ایسا اتحاد آج تک نظر نہیں آیا جو آج نظر آرہا ۔ سب کی سب پارٹیاں متفق الخیال ہیں کہ اس عفریت اور اس کی پارٹی کو کیفر کردار تک پہنچائیں جس نے آزادی اور حرّیت کو پیروں تلے روندا ہے۔ اب تو دستور کی تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں تو پھر آزادیٔ اظہارِ خیال کہاں رہے گی۔ شخصی آزادی کچل دی جائے گی اور ملک میں وہی ہوگا جو 1933ء میں نازی جرمنی میں ہوا تھا۔ لہٰذا یوپی کے مسلمانو! خبردار اور ہرشیار رہنا۔
ہبہ میمورنڈم اور متروکہ جائیداد کی تقسیم سے متعلق سوال
سوال:- عرضِ خدمت ہے کہ ہم چار بھائی ہیں جو والد صاحب مرحوم کی متروکہ جائیدادوں میں برابر کے شریک ہیں اورجائیدادوں کے کرایوں کی آپس میں مساویانہ تقسیم ہوجاتی ہے ۔ علاوہ ازیں میری خود کی کمائی سے خریدے ہوئے کچھ اراضی کے پلاٹس اور دو مکانات ہیں۔ ان مکانات کو توڑ کر چار منزلہ اپارٹمنٹس بنائے گئے ۔ ان اپارٹمنٹس کا کرایہ میں وصول کرتا ہوںاوراس میں کوئی مسئلہ نہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ متروکہ جائیداد جو ہم سب بھائیوں کی مشترکہ ہے اس کی تقسیم چاہتا ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ میں اپنی جائیداد جو میری کمائی سے خریدی گئی ہے شرعی طور پر اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں میں بذریعہ وصیت یا ہبہ تقسیم کرنا چاہتا ہوںتاکہ بچوں کو بعد میں کوئی مشکلات پیدا نہ ہوں۔
میں نے آپ کے کالم میں پڑھا کہ اس غرض کی تکمیل کے لئے رجسٹری کی ضرورت نہیں۔ تو کیا تقسیم جائیداد کے لئے بھی رجسٹریشن کی ضرورت پڑے گی۔ آج کل رجسٹریشن ضرورت پڑے گی۔ آج کل رجسٹریشن کے اخراجات اس قدر زیادہ ہوگئے ہیں کہ میں برداشت نہیں کرسکتا۔
آپ سے گزارش ہے کہ نام اور محلہ کو ظاہر نہ کرتے ہوئے میرے سوال کی اشاعت فرمائیں۔
X-Y-Z حیدرآباد۔
جواب:- وصیت اور ہبہ میں ایک واضح فرق ہے۔ آپ اپنی جائیداد کو اپنے ہی قریبی ورثاء کے حق میں وصیت نہیں کرسکتے کیوں کہ جب آپ کے بعد آپ کی جائیداد آپ کے ورثاء ہی کو ملے گی تو پھر وصیت کی ضرورت کیاہے ۔
البتہ آپ اپنی جائیداد اپنی مرضی سے یا ازروئے شرع شریف اپنے بیٹوں بیٹیوں میں دو اور ایک کی نسبت میں ہبہ کرسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ موہوبہ جائیداد کا قبضہ دیدیا جائے۔ ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے پردھان منتری جی کسی بھی وقت اپنی رخصتی سے پہلے وراثت ٹیکس لاگو کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اپنی حیات ہی میں یہ نیک کام کردیں تو بہتر ہوگا ورنہ تیس چالیس فیصد وراثت ٹیکس لگ سکتا ہے۔ وراثت ٹیکس کا قانون بہت جلد پیش کیا جائے گا جسے منظور کروالینا حکومت کے لئے مشکل نہ ہوگا۔ آپ یقینی طور پر اپنے بیٹی بیٹوں کو ان کے شرعی حصہ کے مطابق یا اپنی مرضی سے اپنی جائیدادیں منتقل کرسکتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کو رجسٹریشن کروانے کی ضرورت نہیں۔ حالات و واقعات اور موجودہ سیاسی صورتحال کو پیش نظر رکھ کر آپ جلد از جلد یہ کام کرواسکتے ہیں۔
اب رہی آبائی جائیداد کی تقسیم کی بات تو آپ بھائی آپس میں بالکل مساوی طور پر اپنی موروثہ جائیداد کو تقسیم کرسکتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے بھی رجسٹریشن یا Release Deed کی ضرورت نہیں۔
آپ صرف ایک Deed of family settlmentکے ذریعہ موروثی جائیداد کی تقسیم کرسکتے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ ہر بھائی کے حصہ میں آنے والے حصہ جائیداد کا ایک نقشہ تیار کرلیں بعد میں ہر ایک بھائی ایک دستاویز رکھ سکتا ہے جس پر تمام بھائیوں کی دستخط ثبت ہوگی۔