مضامین

”ایک اکیلا کتنوں پر بھاری“

محمد ہاشم القاسمی

9/فروری 2023 جمعرات کی دوپہر جیسے ہی راجیہ سبھا میں وزیر اعظم مودی کی تقریر شروع ہوئی، کانگریس سمیت اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے نعرہ بازی شروع کر دی۔ اپوزیشن کے لیڈران "مودی۔اڈانی بھائی بھائی” کا نعرہ لگا رہے تھے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن اراکین پارلیمنٹ نے "اڈانی پر منہ تو کھولو، کچھ تو بولو کچھ تو بولو‘ اور ’اڈانی پر جواب دو، جواب دو” کے زبردست نعرے لگائے۔ اپوزیشن کے اس حملے سے یکبارگی وزیر اعظم نریندر مودی گھبرا گئے اور انہیں اپنی تقریر درمیان میں ہی روکنی پڑی۔ پھر جب نعرہ بازی جاری رہی تو وزیر اعظم نریندر مودی کو اسی ہنگامہ کے درمیان ہی اپنی تقریر کرنی پڑی، اپوزیشن کے اس زور دار حملہ سے حیران نظر آرہے وزیر اعظم مودی نے خود کو سنبھالنے کے لیے جوابی حملہ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ”جتنا کیچڑ اچھالو گے، کمل اتنا ہی کھلے گا“ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ”تکلیف ان لوگوں کو ہو رہی ہے جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، لیکن وہ صاف کرنا چاہتے ہیں کہ بد عنوانی کے خلاف لڑائی کمزور نہیں پڑے گی، ہماری حکومت وہ حکومت نہیں ہے جو صرف منصوبے بناتی ہے بلکہ زمین پر اسے اتارتی بھی ہے۔“ وزیر اعظم مودی کے ان جوابی حملوں کے باوجود ان کی تقریر کے شروع سے آخر تک راجیہ سبھا میں مودی، اڈانی بھائی بھائی کا نعرہ گونجتا رہا۔ مودی نے راجیہ سبھا میں اپنے خطاب کے آخر میں ہنگامہ اور نعرے بازی کر رہے اپوزیشن اراکین کو زبردست نشانہ بنایا، انہوں نے اپوزیشن بینچ کی طرف دیکھ کر اپنا سینہ ٹھوکا اور کہا کہ "آج ملک دیکھ رہا ہے کہ ایک اکیلا کتنوں پر بھاری پڑ رہا ہے۔ میں ملک کے لیے جیتا ہوں، ملک کے لیے کچھ کرنے کو نکلا ہوں۔“ زبردست شور شرابے کے بیچ مودی کی تقریر پوری ہونے کے فوری بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
وزیراعظم مودی کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں زبردست بحث چھڑ گئی کہ مودی اس سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ معروف تجزیہ نگار آبے دوبے نے کہا کہ ”وہ یہ صاف کرنا چاہتے ہیں اور کھلے لفظوں میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مودی صرف اپوزیشن پر ہی بھاری نہیں ہے بلکہ پوری بھارتیہ جنتا پارٹی پر بھاری ہیں، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ جتنی حمایتی پارٹیاں ہیں ان پر بھی بھاری ہیں، راشٹریہ سیوک سنگھ اور موہن بھاگوت پر بھی نشانہ ہے کہ مودی ان پر بھی بھاری ہیں نیز یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یاد رہے کہ اگر کسی نے مودی کو پارٹی کے اندر یا باہر کی حمایتی پارٹی کے رہنما نے چھیڑنے کی کوشش کی تو سب کی ایسی کی تیسی کرنا مودی کو آتا ہے اور شاید بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حمایتی پارٹیوں کو اس کا احساس بھی ہے کہ آج وہ جن عہدے اور کرسی پر براجمان ہیں، یہ مودی کی ہی دین ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی ان باتوں پر پارٹی اراکین اور حمایتی بنچ پیٹ پیٹ کر ان کی مراد کی تائید کرتے نظر آئے۔ پوری دنیا میں سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان میں کسی نے یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ پارلیمنٹ کے بیچ و بیچ کوئی ایک شخص ملک کے تمام تر ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا سہرا اپنے سر پر باندھ کر خوش ہوگا اور دیگر عوامی نمائندے بے دست و پا تماش بین ہو کر اس کی تائید میں بینچ تھپتھپا رہے ہوں گے۔ کیا جمہوری حکومت کا یہی مفہوم ہے کہ بادشاہ کی طرح گھمنڈ اور رعونت بھرے انداز میں حکمرانی کا اعلان کیا جائے؟ عوام الناس تو جمہوریت یہ جانتے ہیں کہ ” جمہوریہ، طرز حکومت، حکومت کی ایک حالت ہے جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت میں سربراہ حکومت منتخب کیا جاتا ہے، اس کو بادشاہت عطا نہیں ہوتی۔ یہ اصطلاح جمہوریہ انگریزی اصطلاح Republic کا ترجمہ ہے جو لاطینی زبان کی اصطلاح res publica سے اخذ ہوا ہے اور اس کا مطلب عوامی معاملہ کے ہیں۔
جدید و قدیم جمہور نظریات اور طرز حکومت میں انتہائی مختلف ہیں۔ جمہوریہ کی سب سے عام تعریف یہ ہے کہ کسی ریاست میں ایسی حکومت جس کا سربراہ حکومت کوئی بادشاہ نہیں بلکہ منتخب شدہ عوامی نمائندہ ہو۔ دنیا کی مشہور جمہوریہ جیسے امریکہ، فرانس میں سربراہ حکومت کو نہ صرف آئین کے تحت بلکہ رائے عامہ کے بعد ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جیمز میڈسن نے جمہوریہ کی تعریف ”نمائندہ جمہوریت“ کے تحت کی ہے جو ”راست جمہوریت“ کا تضاد مانا جاتا ہے۔ اور امریکہ میں اب بھی اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہلوانے والے اس تعریف اور امریکہ میں جمہوریت کے بارے یہی نظریہ اپناتے ہیں۔ عام طور پر جمہوریہ میں طرز حکومت مختلف ہو سکتی ہیں، یعنی کہ سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت میں یا تو تمام عوام کی حکومت ہوتی ہے یا پھر عوام کی بڑی آبادی کی جانب سے اکثریت والی سیاسی جماعت یا افراد حکومت چلانے کے فرائض دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں حکومت عوام یا جمہور کی رہتی ہے اور اس لیے دونوں طرز حکومتوں کو جمہوریہ میں شامل کیا جاتا ہے۔ جدید سیاسیات میں جمہوریت اس مخصوص نظریے کا نام ہے جو مجموعی رائے عامہ پر پروان چڑھتا ہے اور اس کو دوسرے عوامی نظریات جیسے آزاد خیالی یا روشن خیالی سے منفرد سمجھا جاتا ہے۔
عمومی طور پر جمہوریہ ایک خود مختار ریاست کا دوسرا نام ہے، لیکن خود مختار ریاست میں ذیلی انتظامی و سیاسی اکائیاں وجود رکھتی ہیں جو جمہوریہ کے ماتحت رہتی ہیں یا کئی مواقع پر ان انتظامی و سیاسی اکائیوں کو بھی ضرورت کے مطابق آزاد یا پھر وفاقی جمہوریت کے طرز پر ڈھال دیا جاتا ہے۔
کئی سیاسی ماہرین نے فلاح کو کسی بھی ریاست میں بنیادی جمہوری نکتہ گردانا ہے، یعنی کہ سب سے قابل قبول اور عمل جمہوریہ وہ گردانی جائے گی جس کی بنیاد عوامی فلاح اور بہبود پر رکھی گئی ہو۔(وکیپیڈیا)
شاہد مختار لودھی لکھتے ہیں ”سیاست کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں جمہوریت کا جو مطلب سمجھا ہوں یہ ہے کہ ایک ایسا نظام حکومت جس میں مذہب رنگ زبان نسل شناخت خیالات کے اختلافات کی بجائے تمام انسان اور حقوق برابر پیدا ہوتے ہوں اور ہر شہری کو فیصلہ سازی اور زندگی گزارنے کا حق ہوتا ہے جمہوریت میں فیصلے کثرت رائے سے کئے جاتے ہیں جو موجودہ دور میں میری نظر سے نہیں گزرے افراد اور ادارے غلطی سے بالا نہیں ہوتے اگر کوئی اداروں میں مداخلت نہ کرے تو جمہوریت کے مطلب کی سمجھ آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اختیارات کو مختلف اداروں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ حکومت پالیسیاں بناتی ہے اور انتظامیہ عملدرآمد کراتی ہے، اس طرح اداروں میں توازن پیدا ہوتا ہے، لیکن دوسری جانب جب طاقت اور بندوق کے زور پر حکومت کی جاتی ہے تو ایک شخص تمام چیزوں سے بالا تر ہو کر براہ راست انتظام حکومت چلانا شروع کر دیتا ہے تو پھر اس ریاست کے عوام پریشان ہو جاتے اور سوچتے ہیں کہ کہاں ہے جمہوریت اور کہاں ہے عوام کی حکومت۔؟ طاقت کے زور پر حکومت بن سکتی ہے لیکن طاقت کے استعمال پر بدنام ہو کر آخرکار ختم ہو جاتی ہے۔ ہمیشہ اقتدار کا سرچشمہ عوام کو کہا گیا ہے۔ جمہوریت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور انصاف قانون کی حکمرانی سے ملتا ہے۔ جمہوریت میں ہمیشہ قانون‘ قانون ساز ادارے بناتے ہیں اور قانون کی آنکھ شہریوں کے سیاسی‘ معاشی اور سماجی تقاضے دیکھتی ہے۔ یاد رکھیں ایک سیاسی ورکر کے قلم سے یہ الفاظ نکل رہے ہیں جمہوریت شہریوں کی حفاظت کرتی ہے۔ زندگی کی سہولیات فراہم کرتی ہے، سیاسی روایات قائم کرتی ہے۔ جمہوریت لوگوں کی حکومت ہوتی ہے۔ لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے اور لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔جمہوریت میں ضروری نہیں کہ ایک مذہبی عقیدے پر قائم ہو۔ جمہوریت میں تمام مذاہب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جبکہ طاقتور اپنی طاقت کے زور پر بننے والی حکومت سے عوام کو خوفزدہ کر کے حکومت کرتے ہیں، وہ جسے چاہتے ہیں سونے کا ہار پہنا دیتے ہیں جسے چاہے جیل میں ڈال دیتے ہیں، جمہور لفظ عربی کا ہے جس کا مطلب ہے ”عوام“ جمہوریت ذمہ دار اور جواب دہ حکومت کا نام ہے جمہوریت ایک نظریہ نہیں ہے۔ جمہوریت ایک طریقہ کار کا نام ہے جمہوریت میں کوئی کہتا ہے کہ زراعت میں ترقی کا راز ہے، کوئی کہتا ہے صنعتی ترقی پر زور دیا جائے اور یہی ہوتا ہے جمہوریت میں اپنا اپنا فیصلہ آزادی کے ساتھ کیا جاتا ہے اور جب میڈیا پر پابندیاں لگائیں گے تو ذرائع ابلاغ کام نہیں کر سکتے۔
معروف صحافیہ عارفہ خانم شیروانی کہتی ہیں "وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو صحافت کی دنیا ہی بدل گئی۔حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ حکومت سے متعلق معمولی اسٹوری کا بھی ایڈیٹر حضرات ایک طرح کا آپریشن کر دیتے ہیں۔ ان کو خدشہ رہتا ہے کہ اگر یہ اسٹوری حکومت کو پریشان کرے گی تو ادارے کے اشتہارات بند ہوں گے یا مالکان یا ادارے کی کمپنی کو کسی نہ کسی کیس میں گھسیٹا جائے گا۔ جمہوری ملک میں صحافی اور حکومت کے درمیان تخلیقی یا مثبت تناو¿ کا رشتہ ہونا ضروری ہے۔ میڈیا کا اصل کام اداروں کا ہمہ وقت احتساب کرنا اور حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطے کی ذمہ داری بھی نبھانا ہوتا ہے۔“
کنگس کالج لندن میں بھارتی سیاست اور سماجیات کے پروفیسر، فرانسیسی مصنف نے اپنی حالیہ کتاب’مودی کا ہندوستان، ہندو قوم پرستی اور نسل پرستانہ جمہوریت کا ظہور‘ جو انگلش میں ہے، انھوں نے اس کتاب میں اس حوالے سے کئی سوالات اٹھائے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ حال ہی میں مودی نے اقوامِ متحدہ میں کھوکھلا دعویٰ کیا کہ جمہوریت نے ہندوستان میں جنم لیا، مگر کسی نے مودی سے یہ نہیں پوچھا کہ آج بھارت میں جمہوریت کا کیاحال ہے؟وہاں تو جمہوریت زوال پذیر ہے، سالہا سال ہندوستان میں کمزور ہوتی جمہوریت کو مختلف عالمی اداروں نے بھی دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ تسلیم کیاہے، کرسٹوف جیفرلاٹ نے مزید لکھاکہ 2018 میں ’ورائٹی آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے ہندوستان کو لبرل ڈیموکریسی کی بجائے، الیکٹورل ڈیمو کریسی قرار دیا، کیونکہ وہاں سیول سوسائٹی اور میڈیا کی آزادی سلب کی جارہی ہے، 2019 میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس پر ہندوستان 10 پوائنٹ تنزلی کے بعد 51 ویں نمبر پر آگیا، ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان ایک ناکام جمہوریت کے طور پر درج ہے، کیوں کہ وہاں سماجی آزادیاں محدود ترہوتی جارہی ہیں۔ 2020 میں فریڈم ہاو¿س نے بھی اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت کو تشویش والے ممالک میں شامل کیا، کتاب میں مزید ہے کہ فریڈم انڈیکس 2020میں جمہوریت اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے ہندوستان سب سے زیادہ تنزلی کا شکارملک ہے، فریڈم ہاو¿س نے سکیورٹی، توہین عدالت اور غداری وغیرہ کے نام پر بننے والے کالے قوانین کے ذریعے جمہوری آوازوں کو دبائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا، ہندوستان پریس کی آزادی کے حوالے سے بھی 9 پوائنٹس کی تنزلی کے بعد 142 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔
٭٭٭

a3w
a3w