محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
٭ زعفرانی حکومت سہ بارہ اقتدار کے حصول کی کوشش میں کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔
٭ ان کوششوں میں ایک کوشش500 روپیہ کے نوٹ کی واپسی ہوسکتی ہے۔
٭ اس کوشش سے حزب اختلاف کے انتخابی اخراجات پر روک لگ سکتی ہے۔
٭ چھ سال قبل ایسی ہی پیش قیاسی کی گئی تھی جو صد فیصد درست ثابت ہوئی تھی۔ (روزنامہ منصف4؍ستمبر2016ء)
قارئین کرام کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ رواں کالم کے ذریعہ 4؍ستمبر2016ء کی اشاعت میں ایک زبردست وارننگ دی گئی تھی کہ کسی بھی وقت500 اور 1000 روپیہ کے کرنسی نوٹ منسوخ ہوجائیں گے اور رائے دی گئی تھی کہ جو بھی کرنا ہو اب ہی کرلو ورنہ آپ کے قیمتی نوٹوں کی قیمت ردی کے کاغذ کے برابر بھی نہ ہوگی ۔ یہ پیش قیاسی یا وارننگ اس وقت کے حالات و واقعات اور معاشی اتھل پتھل کی روشنی میں دی گئی تھی اور اس وقت کے اور آج کے حکمران کے خطرناک تیور کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ اس پیش قیاسی پر حیدرآباد کے ماہرین معاشیات نے سخت تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ خیالی باتیںہیں اور ایسا کبھی نہیں ہوسکتا حالانکہ سابق میں یعنی1978ء میں پانچ ہزار اور دس ہزار روپیہ کے کرنسی نوٹ بھی اچانک منسوخ کردیئے گئے تھے ۔ لیکن 8؍نومبر2016ء کی تاریخ یعنی دو ماہ بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ ظاہر کیا گیاتھا۔
آج مخالف حکومت ہوائیں چل رہی ہیں۔ کامپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی رپورٹ نے حکومت کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ ادارہ نے ایسی دھاندلیوں کا پردہ فاش کیا ہے کہ حکومت جواب دینے کے قابل نہیں ہے۔ جس سڑک کی تعمیر کا تخمینہ 18کروڑ روپیہ کابینہ کمیٹی نے منظور کیا تھا اسے بڑھا چڑھا کر 250 کروڑ روپیہ کردیا گیا علاوہ ازیں بھارت مالا پراجکٹ میں سڑکوں کی تعمیر میں تخمینہ سے 80 فیصد زیادہ رقم خرچ کی گئی ۔ یہ گھوٹالہ اس قدر شدید نوعیت کا ہے کہ حکومتِ وقت کے پاس سوائے پراسرار خاموشی کے کوئی جواب نہیں۔ لیکن ایک لہر یا آندھی حکومت کے خلاف چل رہی ہے۔ جسے حکومت بھی جانتی ہے لیکن حکمرانِ وقت نے تہیہ کرلیا ہے کہ وہ 15اگست2024ء کے دن لال قلعہ پر ترنگا لہرائے گا۔ اس ارادہ کو ہلکا نہ لینا چاہیے۔ چاروں جانب سے تنقیدوں سے گھری ہوئی حکومت یقینی طور پر کچھ ایسا کرسکتی ہے کہ حزب مخالف انتخابی سرگرمیوں کے درمیان پیسوں سے محروم ہوجائے اور یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہے کہ پیسوں کے بغیر انتخاب جیتے نہیں جاتے اور جب ہاتھ میں پیسہ ہی نہ رہے تو اخراجات کس طرح کئے جاسکتے ہیں۔ ایسی بھی خبریں بعض حلقوں سے آرہی ہیں کہ ایک ہزار کے کرنسی نوٹ چھپ کر تیار ہوگئے ہیں اور کسی بھی وقت مارکٹ میں آسکتے ہیں۔ اگر ہزارروپیوں کے نوٹوں کی اجرائی کے ساتھ پانچ سو روپیوں کی نوٹوں کی منسوخی ہوجائے تو وہی صورت پیدا ہوگی جو2016ء میں ہوئی تھی۔ جب آپ اپنا روپیہ بینک میں جمع کرنے جائیں گے تو اس کا حساب پوچھا جائے گا اور آپ جواب دینے سے قاصر رہیں گے کہ اتنی بڑی رقومات کے حصول کے ذرائع کیا تھے اور یہ کہ آپ نے اس رقم کا انکم ٹیکس ادا کیا تھا یا نہیں۔
ہر کوئی واقف ہے کہ بازار سے پیسہ غائب ہوچکا ہے اور لین دین صرف فون سے ہورہا ہے۔ حکومت نے بہت پہلے ہی کچھ ایسا انتظام کررکھا ہے کہ پیسے کا چلن کم سے کم ہو۔ آپ بینک سے زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپیہ ایک سال میں نکال سکتے ہیں اور نہ ہی جمع کرسکتے ہیں اگر ایسا ہو تو انکم ٹیکس کی نوٹس آئے گی اور کارروائی کا آغاز ہوگا۔
ہماری خواہش ہے کہ ہمارا قیاس غلط ثابت ہو ورنہ آثار و قرائن اور سیاسی حالات اس بات کی غمازی کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کی بحالی اور طوالت کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے جس میں خونین فسادات سے لے کر پڑوسی ممالک سے جنگ بھی ہوسکتی ہے اور وہ سب کچھ ہوسکتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ریاستِ تلنگانہ میں اراضیات کی خرید وفروخت عروج پر ہے جبکہ خود شہر حیدرآباد میں زائد از ایک لاکھ فلیٹس جو تعمیر شدہ ہیں ان کی فروخت نہیں ہورہی ہے اور لوگوں کا رجحان دور دراز مقامات پر زرعی اراضیات کے فرضی لے آؤٹس کے پلاٹس کی خرید پر ہے۔ یہ پلاٹس اتنے دور واقع ہیں کہ وہاں آبادی بسنے میں صدیاں درکار ہیں۔ لیکن لوگ یہ پلاٹس صرف اس غرض سے خریدرہے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد انہیں دوگنی قیمت پر فروخت کردیا جائے گا۔ بازاری قیمت اور سرکاری قیمت میں بہت بڑا فرق رہتا ہے اور رجسٹریشن کی رقم سے زیادہ جو رقم ہوتی ہے وہ نقد رقم میں ادا کی جاتی ہے جب پیسہ ہی نہیں رہے گا تو یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اگر نوٹ بندی کا مفروضہ صحیح ثابت ہو تو خریداروں اور فروخت کنندگان کو بہت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
حیدرآباد میں رئیل اسٹیٹ لابی اور حکمران طبقہ کی ساز باز کی وجہ سے اراضیات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ کوکا پیٹ اراضی کا ہراج فی ایکر زائد از ایک کروڑ روپیہ ہوا۔ لیکن اس سے پہلے اطراف کی اراضیات کم قیمت پر خریدی گئیں اور آج وہاں اراضیات کی قیمت میں زائد از 400 فیصد اچھال آیا ہے ۔ گویا گورنمنٹ اراضی کا ہراج ایک شاطرانہ چال تھی۔
دو دہوں سے اراضی کے پلاٹس کو مالِ تجارت کی طرح سمجھا جارہا ہے اور اجناس کی طرح ان کی ذخیرہ اندوزی ہورہی ہے ۔ دولت مندوں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے اور ایک چھوٹے سے قطعہ اراضی کا خریدار ایک احساس محرومی کا شکار ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی کی ساری کمائی بھی جمع کرے تو اس قابل نہیں رہے گا کہ ایک چھوٹا سا مکاں خرید سکے ۔ زمینات پر دولت مندوں کی اجارہ داری ہوگئی ہے ۔ اگر کوئی زمین کا خواہشمند ہو تو یقینی طور پر اسے زمین حاصل ہوگی لیکن زندگی میں نہیں۔ مرنے کے بعد……
لوگ یہ بات بھولے ہوئے ہیں کہ سارے ملک میں رئیل اسٹیٹ تجارت زوال پذیر ہورہی ہے اور ہندوستان کا بھی وہی حال ہونے والا ہے جو چین کا ہوا جہاں رئیل اسٹیٹ انڈسٹری تباہ ہوگئی۔ ہمارا اندازہ ہے کہ یہ رئیل اسٹیٹ بازار کا اچھال عارضی ہے اور بہت جلد یہ غبارہ پھوٹ جائے گا۔ وہ پیسہ جو دور دراز علاقوں میں اراضیات کے پلاٹس کی خرید میں لگایا گیا ہے اب وہ محفوظ نہیں رہے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن کے علاوہ کوئی اور کاروبار ہی نہیں۔ آپ بلڈنگس بنارہے ہیں۔ خریدار کہاں ہے؟ رجسٹریشن پر حکومت کی پابندیاں‘ غیر مجاز تعمیر پر بینک لون کا نہ ملنا۔ مارکٹ میں پیسے کا فقدان وہ عوام ہیں جو اس تجارت کو پامال کردیں گے اور وہ لوگ خسارے میں رہیں گے جنہوں نے کسی زعم میں دور دراز علاقوں میں اراضیات خریدی تھیں۔ ان اراضیات کی فروخت ناممکن ہوجائے گی۔ لہٰذا دور دراز علاقوں میں اراضیات خریدنے سے باز رہنے کی رائے دی جارہی ہے۔
اپارٹمنٹس کی خرید خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں
شہر اور اطراف و اکناف کے علاقوں میں اپارٹمنٹس کی خرید میں کئی مسائل درپیش ہیں۔ ان رہائشی کامپلکس میں چار پانچ یا زیادہ منزلیں ہوتی ہیں اور زمینی رقبہ دو تا ڈھائی سو مربع گز ہوتا ہے ۔ تقریباً تمام ایسی عمارتیں بغیر تعمیری اجازت کے تعمیر ہوتی ہیں اور اگر ہوتی بھی ہیں تو ایسی کہ صرف دو منزلوں کی اجازت ہوتی ہے اور اوپری تمام منزلیں غیر قانونی طور پر تعمیر ہوتی ہیں۔ ان کی خرید میں سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ غیر مجاز تعمیر عمارت میں فلیٹس کی رجسٹری نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی ایسے فلیٹس کی خرید میں بینک لون دستیاب ہوسکتا ہے ۔ کبھی کبھی تعمیری رقبہ کی تقسیم میں مالک اور بلڈر میں تنازعات ہوتے ہیں۔ بلڈر خریدار سے اڈوانس میں بھاری رقومات حاصل کرتا ہے اور پھر بعد میں تعمیر میں غیر معمولی تاخیر ہونے لگتی ہے۔ ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ صرف معاہدہ بیع پر بھاری رقومات کی اساس پر قبضہ حاصل کیا جاتا ہے اور معاہدۂ بیع سے حقِ مالکانہ حاصل نہیں ہوسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ اچھی طرح سے تعمیر کردہ کامپلکس خالی پڑے ہوئے ہیں اور خریدار نہیں ہیں۔ شہر حیدرآباد میں زائد از ایک لاکھ اپارٹمنٹس خالی پڑے ہیں جن کا کوئی خریدار نہیں ۔
اگر اپارٹمنٹ کی خرید کی خواہش ہو تو سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیے کہ آپ حقیقی مالک یا ڈیولپر سے خرید رہے ہیں۔ آپ کو بلڈر اور مالک کے درمیان طئے پائے معاہدہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس بات کا ضرور خیال رکھا جانا چاہیے کہ جن کامپلکس میں اپارٹمنٹ خریدا جارہا ہے اس کی تعمیری منظوری حاصل ہوچکی ہے اور لازمی طور پر آپ کو تعمیری پرمٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر اوپری منزل فروخت کی جارہی ہو تو اس وقت تک خرید کی حامی نہیں بھرنی چاہیے جب تک کہ تعمیری اجازت نامہ نہ دیکھیں۔ اراضی کی بھی چھان بین کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں یہ ا راضی سرکاری اراضی کا حصہ نہ ہو۔
ماہانہ منافع کی اساس پر سرمایہ کاری۔ نقصان اٹھانا پڑا
سوال:- السلام علیکم میں تیس سال سروس کے بعد دبئی سے واپس ہوا۔ ملازمت ختم ہوچکی تھی۔ بچے بڑے ہوکر باہر ممالک میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک صاحب سے میرا تعارف ہوا جو لوہے کی خرید وفروخت کاکاروبار کرتے تھے۔ ان سے دوستی ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس کچھ رقم ہو تو اسے کاروبار میں مصروف کیا جاسکتا ہے اور میں آپ کو ماہانہ چھ فیصد منافع دوں گا کیوں کہ یہ لوہے کاکاروبار بہت منافع دیتا ہے ‘ میں ان کی باتوں میں آگیا اورا یک انوسٹمنٹ اگریمنٹ کرکے ان کو پچاس لاکھ روپیہ نقد ادا کیا ۔ دو ماہ تک انہوں نے مجھے ماہانہ تین لاکھ روپیہ بطور منافع دیا ۔ ان کی دوکان کرائے کی تھی اور وہ وہاں بیٹھ کر صرف ٹیلی فون پر لوہے کی لین دین کاکاروبار کرتے تھے۔ پھر اچانک دوکان بند ہوگئی اور وہ صاحب غائب ہوگئے۔ ان کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ مکان خالی کرکے چلے گئے۔ مالکِ مکان نے کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں اور کیا کام ہے۔ میں نے جب بات بتائی تو وہ کہنے لگے کہ یہ فریبی آدمی ہے۔ ہر روز لوگ اس کے گھر پر قرض مانگنے آتے ہیں اور وہ ملتا ہی نہیں معلوم نہیں کب مکان خالی کرکے چلا گیا۔ دوکاندار نے کہا کہ یہ شخص بڑا دھوکہ باز ہے اور کئی لوگوں کو اس نے ایسا ہی دھوکہ دیا ہے۔ باتوں کا بنا ہوا ہے ۔ لمبی چوڑی شخصیت ‘ گورا رنگ اور بھاری آواز ۔ لوگوں کو بہت متاثر کرتا ہے اور لوگ اس کی باتوں میں آکر اس کے جھوٹ کو سچ سمجھتے ہیں۔
آخر کار کافی ڈھونڈ نے کے بعد دور ایک محلہ میں اس کے رہنے کا علم ہوا۔ اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ باہر ملک چلاگیا ہے۔ پتہ چلا کہ اس کی تین بیویاں ہیں۔ پتہ نہیں کس جگہ رہتا ہے اور اصل گھر کہاں ہے۔ ہمارے دوستوں نے کہا کہ اس کے خلاف پولیس میں شکایت کی جائے ‘ مگر ایک دوست نے کہا کہ یہ رقم اتنی بھاری ہے کہ اس کی اطلاع پولیس کی جانب سے انکم ٹیکس کو دیدی جائے گی اور خواہ مخواہ پریشانی ہوگی اور پچاس لاکھ روپیہ نقد کا حساب دینا ہوگا۔ آپ سے اس ضمن میں رائے دینے کی گزارش ہے۔ فقط
X-Y-Z مانصاحب ٹینک۔ حیدرآباد
جواب:- آپ کے دوست کی رائے بالکل درست ہے۔ اس قسم کا منافع سود کہلاتا ہے ۔ اس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کوسبق مل گیا۔ آئندہ ایسی سرمایہ کاری مت کیجئے۔ ایسی سرمایہ کاری میں نقصان ہی نقصان رہتا ہے۔ 44 لاکھ روپیہ خرچ کرکے بہت اچھا سبق ملا۔