سیاستمضامین

قرآن شکوہ زن ! درد میں ڈوبی میری فریاد ہے

ش۔م۔احمد ۔ (کشمیر)

بارالہٰا!
میں فرقان ِ مجید ہوں ‘آپ کا نازل کردہ کلامِ مقدس ۔۔۔ عالم ِ انسانیت کے لئے سیدھے راستے کا پتہ‘ یقین کا بحر بیکراں، ایمان کاہفت اقلیم ‘ اخلاق کا سوز ‘اُمید کا ساز ‘ دنیاکو جنت نما بنانے والاگائیڈ بک ‘ دوزخ سے چھٹکارا پانے کافارمولہ ‘ رنگ نسل ذات زبان علاقائیت کی تفریق وتقسیم کا مخالف‘ باطل کا دشمن ‘حق کا آئینہ، صحیفہ ٔہدایت ، دستورِ حیات، ظلمات سے رہائی کا پروانہ، آزادی کی خوش خبری، نور کی سواری ،کا میابی کا سامان، انسانیت کا پاسبان، نقصان سے بچاؤ ،نفع کمانے کا سجھاؤ، ہمہ وقت مخلص مشیر ، خوش حالی کانقش ِراہ، لاینحل مسائل کا عملی حل، مفاہمت کا راستہ،امن کی منزل، محبت کا گلدستہ، اُخوت کی خوشبو ، فسادات کا خاتمہ، تضادات سے خلاصی،نیکی کانہ ختم ہونےوالا خزانہ، بدی کے لئے ابدی موت، زندہ دلی کی ضمانت، طمانیت کا خزینہ، عقل کا پیامی، فہم کا داعی، انصاف کا ترازو، قانون کی سند، جنت کی شاہراہ، دوزخ سے چھٹکارا، ایمان کا مربی، ایقان کی کسوٹی ، علم وفن کا دلداہ،عبادات کی بہار، آئین ِامامت،انوارِخلافت، حصولِ کمالات کی ترغیب، جمالِ کردار کی تزئین، حُسن ِ فطرت ، رہنمائے حکمت ،اَن گنت نعمتوں کا گلشن‘ خدمت ِخلق اللہ کا پرچم‘ حقو ق اللہ کی ادائیگی کا پیمانہ۔
خدائے ذوالجلال!
اُف ! آج عقل وفہم سے عاری انسان‘ میری تعلیمات ہدایات احکامات سے رُوگردان انسان‘ میری اَٹل سچائیوں کی تردید میں پاگل انسان ‘ میرے وجود سےانتقام لینے پر بضد جاہل انسان‘ لاعلمیت کے اندھیاروں میں بھٹکا گمراہ انسان‘ شیطانِ نفس کی قید میںپلا بڑا مجرم انسان ۔۔۔ یہ حیوان ِ ناطق اپنے اندھے پن میں بہک کر میرے ساتھ کیا کچھ کرے‘ احمقانہ الزامات کی بوچھاڑکرے‘ میری لائی ہوئی دائمی بہاروں کی آتش زدگی کا رقص نیم بسمل کرے ‘اِہانت و حقارت کی تیر زنیاں کرے‘ میرے ماننے والے مٹھی بھر انسانوں کا جینا دوبھر کردے ‘ مگر یاد رکھے کہ اس کی ابلیسی حرکات وسکنات سے میرا کچھ بگڑے گا نہیں ‘ افسوس کہ وہ خود میری بہاروں سے محروم رہے گا‘ میری آسائشوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا‘ دانائی و بینائی کی ضیا پاشیوں سےنابلد رہے گا‘ امن وسکون پانے کے لئے تادم ِ زیست تڑپتا رہے گا‘ جہنم کی آگ ‘خدائے قدوس وسلام کی ناراضی‘ دنیا کی بربادیِ آخرت کی ناکامی کا چلتا پھرتا اشتہار بن کر رہے گا۔ ایسے بدکار و گناہ گار انسان کو ابوجہل کی بربادی اور ابولہب کی تباہی سے سبق لینا چاہیے۔
مولائے کریم !
اس بھری دنیامیں خال خال ہی کوئی نظر آتا ہے جو بصدق دل مانتا ہے قرآن اس کے لئےکتاب ِ ہدایت ہے،نصاب ِ حیات ہے ، صلائے ایمان ہے ، ندائے رُوح ہے، عقل وشعور کو پرواز دینے والا شہپر ہے۔ کہنے کو دنیا میں مجھ پر ایمان رکھنےوالے لوگ تعداد میں کچھ کم نہیں مگر آہ!یہ مجھےزیادہ سے زیادہ چند ایک مذہبی رسموں تک محدود کرچکے ہیں‘ میرا گلہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں میری ہدایات اور احکامات سے اپنانے میں وہ یا تولاعلم ہیں، یاناواقف ہیں ،یا غافل ہیں ۔ انہیں میری یاد کبھی کبھا تبرکاً یا نیک فال کے ضمن میں ضرور آتی ہے‘ مثلاًجب کسی نیم عریاںدُلہن کی رُخصتی ہورہی ہو کہ باجے گاجے اوراختلاط مردوزَن کے شور شرابےمیں دلہن کے سر پر دو پانچ منٹ مجھے رکھنے کی رسمی طور نمائش کی جاتی ہے، جب کہ عمر بھر میراپاک سایہ اُ س کے سر سے الگ اور دل سے جدارہتاہے ۔ میری تھوڑی بہت ضرورت محسوس کی جاتی ہے جب کسی جان بلب انسان پر دَم مارنے کے لئے مجھے رسماً پڑھاجانا مطلوب ہو تاکہ مر نےو الے کی رُوح جلداز جلد قفس ِ عنصری سے عالم ِبرخ کی جانب پرواز کرسکے۔ کیا ان قرآن خوانوں کو پتہ نہیں کہ میری تمام آیات کاملاً زندگی کے پل پل سے آراستہ ہیں اور حالاتِ زندگی کی نبض آشنا ہیں ۔ مردوں کےایصال ِثواب کے وقت بھی رسماً میری ورق گردانی کی جاتی ہے ۔ میرا شکوہ ہےکیوں پیروان ِ اسلام نے عملاً مجھے اپنی زندگی کی گہماگہمی اور حرکات سے بے دخل سمجھا ہے؟
میں ابدی سچائیوں کا گواہ ہوں مگر لوگ میری جھوٹی قسمیں کھا تے ہیں آپس میںدھوکہ دھڑی کر نے کے لئے، ایک دوسرے کاحق مارنے کے لئے ، عارضی فوائد سمیٹنے کے لئے۔ مجھے ہی ڈھال کے طور ان سارے بد انجام کاموں میں استعمال کیا جائے ِ ہائے افسوس۔ اور ہاںمیراتماشہ جھاڑ پھونک ، تعویذ گنڈے ، مذہبی استحصال،جعلی درویشی، مسلکی تقسیم، طبقاتی کشاکش ،خشک ولایعنی بحث ومباحثے، تقریری مقابلوں، تحریری پہلوانیوں،نذرونیاز کی کمائیوں ، مناظرہ بازیوں جیسی دکانیں چمکانے کے لئے بھی ہورہا ہے۔اللہ اللہ خیر صلا۔
رب ِ کریم !
میں آپ کا کلام مقدس ہوں جسے گلے لگانے والے خوش خصالوں نے دنیا کی امامت کی‘ صداقتوں کا نو ر پھیلایا‘ علوم وفنون کا اُجالاکیا‘ انسانی خدمات کا گلستان مہکایا‘ اخوت ومحبت اور مفاہمت ویگانگت کی تہذیب کا سرمایہ لٹایا مگر وائے شومی ٔ قسمت آج میں کسی کا چہیتا نہیں ، کوئی میری ہدایت کا طلب گار نہیں، کسی کو میری مشاورت درکار نہیں، کسی کو میری سرزنش پر اعتبار نہیں ، کسی کو میری پیشگی دھمکیوں کے باوجود گناہ کے دلدل میں دھنس جانے سے اجتناب نہیں، دنیاکی کارگاہ سے لے کر محشر کی عد الت تک میری چتاؤنیوں سےعوام وخواص غافل ہیں اور حال یہ ہے ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہے کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام توہے، جو ہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گِل ہی نہیں
اے خدائے ذوالجلال !
میں تمام انسانوں سے بلا کسی امتیاز کے محبت کا لاثانی رشتہ رکھتاہوں ، لوگوں کی تکالیف پر میرادل کڑھتا ہے ، اُن کے روز مرہ مسائل کا نپٹارے کے لئے بے قرار ہوں مگر افسوس صد افسوس ! انسانی دنیا انسانیت میری بے لوث محبت بے غرض رشتہ سے لاتعلق ہے۔ اسےمیرے تئیں اپنی نافرمانیوں پر کوئی شرمندگی نہیں ، اس کی رُوگردانیاںبڑھ رہی ہیں ، حلال کیا ہے حرام کیا ، یہ مجھ سے پوچھنے کا سوال نہیں‘ ایک خوردبینی اقلیت کو چھوڑ کرسبھی شیطانی فریب یا نفس ِامارہ کی من مانیوں سے کام چلاتے ہیں۔
یاحی وقیوم !
میں انسان کی گمراہی، بدامنی، بے چینی، بدچلنی سے دل برداشتہ ہوں، میرے خلاف اُس کی بغاوت کا شاکی ہوں، آپ کے حضور دُہائی دینے یہی فریاد لئے بار گاہِ عدل میںحاضر ہوں۔ آپ نے پہلے ہی پیش گوئی کی ہے:
’’اور رسول کہیں گے: اے میرے رب !میری قوم نے اس قر آن کو واقعی ترک کردیا تھا‘‘ (سورہ ٔ فرقان ۔آیت ۳۰ )
شکوہ زن ہوں کہ مجھے انسان نے عملاً ترک کیا ہوا ہے ۔ آج سب سے زیادہ راندہ ٔ درگاہ ، مظلومیت کا استعارہ ، محکومیت کاحوالہ، عدم توجہی کی مثال،سرد مہری کا اشتہار،فراموشی کا نمونہ، غیریت کی شکار میں یعنی اللہ کی آخری کتاب ہے۔ کس کس کا گلّہ کروں ؟ کن کن کی احسان فراموشی کا رونا روؤں؟ عرب کی مجھ سےدوری بنانے کا گلہ کروں ؟ عجم کے ستم ہائے صد رنگ بتاؤں؟ شرق کا ظلم بولوں یا غرب کی زبان درازیاں عرض کروں ؎
جو لوگ ہویٰ کے ساتھی ہیں،وہ اپنے خدا کے باغی ہیں
اس جرم ِ بغاوت سے بڑھ کرایمان کانقصاںکیا ہوگا
اےعلیم وخبیر :
آپ سمیع وبصیر ہیں، سب جانتے ہیں ، سب دیکھتے ہیں، کراماً کاتبین شب وروز احوالِ آدم قلم بند جارہے ہیں ۔آپ کی ذات ِ بے ہمتا عادلانہ فیصلہ لینے کی مجاز ومختار ہے ۔ میں نے اپنےاوپر ڈھائے جارہے ظلم وستم کی رُوداد سنا ئی ‘ الٰہ العالمین میری شنوائی ہو۔ مو لا!دنیا میں ایسی ہی کسمپری کا سامنا کررہاہوں جیسے بازارِ طائف میں پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ اقدس پر اوباشوں نے پتھر مار مار کر انہیں بے بس کردیا تھا ۔ مجھ پر بھی طائف کی مانند اغیار کی طعن وتشنیع اور اپنوں کی حکم عدولی و عدم تعمیل کے نوکیلے سنگ ر یزے چاروں طرف سے برسائے جارہے ہیں کہ لہو لہاں ہوں ۔ میرے اصولوں کی زبان بندی کی جارہی ہے ، میری لائی ہوئی شریعت کا گلا گھونٹھا جارہاہے ، میری خوش خبریوں اور دھمکیوں کا مذاق اُڑایا جارہاہے۔ میری تنبیہات ، عذاب کی وعیدوں، مکافات ِ عمل کی مثالوں کو قصہ گوئی سمجھا جارہاہے ۔ نہ قومِ نوحؑ ، نہ نمرودد ، نہ فرعون کا بُراانجام، نہ قوم ِ لوط ، نہ قوم ثمود کی دل دہلانےو الی سرگزشت سے سرکشوں کے دل پگھلتے ہیں نہ لوگوں کے کردار میں بدلاؤ آتا ہے۔ غرورِ نفس میں مبتلا شیطان کے پجاری مجھ پر دقیانوسی ، رجعت پسندی، ترقی دشمنی کے طعنے کس رہے ہیں۔ یہ لوگ میری بتائی ہوئی راہِ امن پر چلتے نہیں ، انسانیت کے دفاع میں میری کاوشوں کو قبولتے نہیں ، میری تقلید میں رنگ ، نسل ، قوم اور زبان کے بھید بھاؤ سے بالاتر بنی نوع انسان کی خدمت کو اپنا ڈھب بناتے نہیں، کمزور قوموں کو تاراج کر نے میں کوئی عار محسوس کر تے نہیں، آباد وشاداب ملکوں کو فوجی طاقت کےبل پر نشانہ ٔ عبرت بنانے سے پیچھے مڑتے نہیں اور پھر بے شرمی یہ کہ خود کو جمہوریت نواز ، حقوق البشر کے حامی ، آزاد خیالی کے پیکر جتلاتے ہوئے مجھے دہشت گرد، انتہا پسند، شدت پسند بتلا تے پھرتے ہیں۔میرے بتائے ہوئے نظامِ عدل سے سرعام انحراف ہو رہاہے۔ پاکی اور نیک عملی کے جن انمول موتیوں کوسدابہار مالا میں پرو کر محبتوں سے انسان کے گلے ڈالا تھا، اُس مالا کو ’’ادب و ثقافت اور ترقی و جدت ‘‘ کے نام سے فحاشی، عریانیت اور فسق وفجور کی زنجیروںسے بدلا جارہاہے۔ خوشی غمی کے لئے میرے سادہ حکموں اور اخلاقی قدروں سے منہ موڑا جارہاہے۔ ملّی اتحاد کو پروان چڑھانے والے میرے فرامین کو کھلم کھلالتاڑا جارہاہے ۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے جن وحشی قوموں کو میں نے ایک خدا کی بندگی،ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، ایک الکتاب کی فرماںبرداری، ایک قبلہ میں جوڑ کر ہم دوش ِثریا کیا تھا،انہی اقوام کو اب راہِ راست سےہٹا کر نہ جانے کتنے لات ومنات، رسومات، توہمات ، بدعات، یہود ونصاریٰ کی دجالی خدائیت اور جابرو قاہر قوتوں کا غلام در غلام بنایا جارہاہے۔
خدا ئے بزرگ وبرتر!
میری آیات کی وساطت سےپوری انسانیت آپ کی مخاطب ہے ۔ مجھےآپ نے نہ کسی شخص کی ذاتی جاگیر بنایا، نہ کسی قوم یا خطے کی نجی میراث میں لکھا، مجھے پوری انسانیت کے لئے اپنا ابدی تحفہ اور اَزلی امانت کے طور اہل ایمان کے سپردکردیا، البتہ میری ہدایت صرف متقین یعنی خداترسی رکھنے والے اصحاب کے لئے مخصوص رکھی۔کوئی مانے نہ مانے مگر صرف میں ہی ایک تمام ا نسانیت کے لئے آپ کی بے پایاںمحبت وخیرخواہی کا رہنما اصول ہوں ۔ الخلق عیال اللہ کے صدقے ہر کوئی میرا سگا سمبندھی ہے، میری محبت وخلوص کا یکساں حق دار ہے مگر انسانوں میں کوئی ہے جو مجھ سے بغل گیر ہے؟ مجھ سے نصیحت پکڑتاہے؟ مجھ سے رہبری چاہتاہے ؟ میرا مسلک’’ ہر ملک، ملک ماست، ملک ِ خدائے ماست‘‘ ہے( یعنی ہر سرزمین خدا کی ملکیت ہے اور یہ سب ہمارے وطن ہیں)، تقسیم تو انسانوں نے خودکی ہوئی ہے۔اس تقسیم کے توسط سے میرے’’ اپنے‘‘ بڑی لاپروائی بلکہ ڈھٹائی کے ساتھ میری نافرمانیاں کررہے ہیں اور ’’غیر‘‘ زبان ِ طعن دراز کر کے میری بُر ائیاں کر رہے ہیں اور تشکیک والحاد پھیلارہے ہیں۔ یوں دنیا میں، میںاکیلا پڑا ہوں ، تنہائی کا مارا ، اجنبیت کا ستایا ۔ کیامسلمانوں میں میرے احکامات،تعلیمات ، اخلاقیات کی کسی کو فکر دامن گیر ہے ؟ صرف زبانی کلامی عزت و محبت کے دعوے ہیں۔ بلا شبہ میرے نام پربے شماردارالعلوم ، اُنجمنیں، ادارے موجود ہیں مگر یہ سب نمبر شماری کے لئے ہیں۔ میںدنیا کے ہر کوچہ وبازار میں زندہ کتابی صورت میں موجود ہوں، میرے تراجم ہورہے ہیں ، میری بڑی بڑی شرحیں تفسیریں موجود ہیں مگر عمل ندارد ۔ لاتعداد چھاپ خانے روزمیری دیدہ زیب طباعت کر تے ہیں ، کچھ بندگان ِ خدا مجھے اپنے خوش نصیب سینوں میں محفوظ کر رہے ہیں ، مساجد قائم ہورہی ہیں ، پنج وقتہ اذانیں گونج رہی ہیں ، نمازیں ادا ہورہی ہیں، اھدنا الصراط المستقیم کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ، حُسن ِ قرأت کی مجلسیں آراستہ ہو رہی ہیں ، واعظ وخطیب میری آیات پڑھ پڑھ کے منبر ومحراب گرماتے ہیں ، مگر سب کچھ اثر اور ا جر سے خالی!!! ہاں کوئی کوئی بندۂ خدا ہے جو میرے سامنے سرنگوں ہے، میری اطاعت کا قلادہ گردن میں ڈالے ہوئے ہے ، باوجود یکہ ایسوں کے سر پر مجبوریوں کی تلواریں اور مشکلات کی کٹاریں سایہ فگن ہیں۔ اب آپ ہی انصاف کریں کہ میں غریب الدیار کیا کروں ۔
یکایک سورہ آل عمران کی آیت۱۳۹ کی صدائے غیبی آئی ؎
خرقۂ ’’لا تحزنو‘‘ اندر برش
’’اَنتم الاعلون‘‘ تاجِ بر سرش
یعنی غم نہ کرو، تم ہی اعلیٰ وبالا رہوگے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w