سیاستمضامین

بھارت میں رائے دہی میں شفافت کا فقدانبیالٹ پیپر پرانتخابات ناگزیر

محمد انیس الدین

انتخابی عمل میں شفافیت نہ ہو اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد باقی نہ رہے توا یسے انتخابات سے ایک صحت مند جمہوریت کا قیام کیسے ممکن ہے۔ ملک میں انتخابی عمل میںEVM کے استعمال کا آغاز آسانی اور سہولت کے لئے کیا گیا۔ کیوں کہ 900 ملین رائے رہندوں کے ساتھ رائے دہی کا عمل ایک دشوار مرحلہ تھا لیکن بیالٹ پیپر سے رائے دہی میں ‘ رائے دہندے کو یہ اطمینان رہتا تھا کہ اس نے اپنے پسند کے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا ہے۔ اگر کوئی نزاع کی صورت پیدا ہوجاتی تو دوبارہ گنتی کا بھی اختیار رہتا تھا لیکن EVM کے استعمال کے بعد سے یہ حق عوام سے چھن گیا اور موقع پرستوں دھاندلی کرنے والے ٹولہ نے EVM سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت و دستور پر مسلسل حملہ کرتے جارہے ہیں‘ سیاسی جماعتیں اور عوام اس بربادی کا صرف نظارہ کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ اولین فرض تھا کہ وہ EVM کے غلط استعمال پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک میں بیالٹ پیپر پر انتخابات کے لئے ایک تحریک شروع کرتے ‘ لیکن حزب اختلاف EVM پر پابندی لگانے میں ناکام رہا اور ملک کو آمریت و فسطائیت سے بچانے اور جمہوریت و دستور کی حفاظت کے لئے مشترکہ اقدام کرنے میں ناکام رہا۔ اگر آمریت و فسطائیت کے شکنجہ سے ملک کو آزاد کرانا ہے تو اس کیلئے ایک کامل اتحاد ‘ تحریک اور قربانی کی شدید ضرورت ہے ‘ سب سے پہلے زعفرانی ٹولہ کی شہ رگ EVM کے استعمال پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے۔
EVM کے قضیہ کو سمجھنے کے لئے ایک دہائی قبل تحریر کی ہوئی کتاب جس کا نام ’’ EVM سے جمہوریت کو خطرہ ‘‘ ہے اس کے مصنف جی وی ال نرسمہا ہیں اور حال ہی میں وہ بی جے پی سے رکن راجیہ سبھا بنے ہیں۔ اس کتاب کے پیش لفظ ایل کے اڈوانی اور چندرابابو نائیڈو کے ہیں۔ ان دونوں نے مصنف کے خیالات کی تائید کی اور EVM کے استعمال سے ملک کی جمہوریت کو لاحق خطرات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ کیا جمہوریت کو لاحق خطرہ صرف کانگریس دور حکومت میں تھا اور جیسے ہی حکومت زعفرانی ہوگئی یہ خطرہ ٹل گیا۔ عوام خود اس کتاب کا مطالعہ کریں اور اپنی رائے قائم کریں۔
اگر بالفرض ہیکنگ‘ مائیکرو چپ کی بیرون ملک تیاری اور اس کمپنی میں زعفرانی شراکت اور دیگر الزامات کو نظر انداز کیا جائے تو کیا عوامی سرمایہ سے تیار کردہ 18لاکھ EVM جو الیکشن کمیشن کے مطالبہ پر تیار ہوکر الیکشن کمیشن کو واپس نہیں آئے اور انتخاب کے وقت سارے ملک میں آوارہ گھوم کر ووٹنگ کی گنتی کے دن EC کی ہی کاروں میں سفر کرتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کے ٹیبل پر نمودار ہوکر زعفرانی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت بھی عوام اور سیاسی جماعتوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ یہ اضافی مشین کنول سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ان کا نمبر بھی تبدیل ہونے والی مشینوں سے مشابہ ہوتاہے۔
اس تعلق سے الیکشن کمیشن کسی بھی قسم کی وضاحت سے مجبور ہے ایسی صورت میں اس ادارہ کو زعفرانی کمیشن کا نام دیا جائے تو یہ حق بجانب ہوگا۔
EVM کے استعمال سے عوام ناراض ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک میں انتخابات صرف اور صرف بیالٹ پیپر پر ہوں۔ عوام کے اس مطالبہ کو زعفرانی ٹولہ اپنی چالبازیوں اور دھوکہ دہی اور پروپگنڈہ کے ذریعہ گمراہ کرتے ہوئے اس مطالبہ کو نظر انداز کررہا ہے اور اب ایک نئی مشین ایجاد ہوئی ہے جس کا نام Remote Voting Machine (RVM) ہے ۔ جس کا مقصد ملک کے تمام صوبوں میں نقل مکانی کرنے والے ورکرس جن کی مجموعی تعداد تقریباً30 کروڑ ہوسکتی ہے ان افراد کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔
اس مشین کو کسی ایک مقام پر رکھ کر تقریباً72 انتخابی حلقوں میں ورکرس اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرسکتے ہیں۔ اس تعلق سے الیکشن کمیشن حرکت میں آکر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس نئی ایجادRVM کی کارکردگی کے مظاہرہ کی دعوت دی ۔ حزب اختلاف نے پہلی مرتبہ دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئی مشین کے مظاہرہ سے الیکشن کمیشن کو روک دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ پہلے عوام کے خدشات کو دور کیا جائے ۔
اگر عوام ان دونوں مشینوں کے استعمال پر روک لگانے میں ناکام ہوتے ہیں تو ملک سے جمہوریت اور دستور کا خاتمہ یقینی ہے ۔ یہ دونوں مشینیں جمہوریت اور دستور کی پامالی کے ہتھیار ہیں اور جو جماعتیں ان عیاریوں میں شامل ہیں وہ سب جمہوریت اور دستور کی پامالی میں برابر کے شریک جرم ہیں۔
اکثر ممالک نے EVM کے استعمال کو ترک کردیا اور بعض نے تو اس کے خلاف قانون سازی بھی کی ہے لیکن بھارت ایک ایسا ملک ہے جس نے اس مشین سے شادی کرلی ہے اور اب دوسری شادی کے ارادے سے ایک اور مشین RVM منظر عام پر آچکی ہے اور اس کے بعد تیسری شادی کے لئے ایک اور مشین مستقبل میں ایجاد ہوگی جس کی مدد سے سارے عالم کے NRI اپنے مقام پر رہتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اس کے بعد مقامی بھارتی عوام کو ووٹ ڈالنے کی زحمت بھی نہیں ہوگی۔ زعفرانی ٹولہ اپنی جیت کا کوٹہ NRIاور 30 کروڑ مائیگرینٹ ورکرس پورا لرے گا اور ملک کے داخلی رائے دہندے داخلی اور فرضی خطرات سے نمٹنے میں مشغول ہوجائیں گے کیوں کہ آر ایس ایس کو سرحد سے زیادہ خطرہ اندرون ملک نظر آرہا ہے۔
جب تک ملک میں ای وی ایم کا استعمال ہوتا رہے گا اس وقت تک جمہوریت اور دستور کی پامالی ہوتی رہے گی اور ملک میں آمریت و فسطائیت مضبوط ہوتی جائے گی۔ آخر حزب اختلاف کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ جمہوریت اور دستور کو درپیش سنگین مسئلہ سے نمٹنے لاپرواہی اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرہی ہے ۔
اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ زعفرانی ٹولہ عدلیہ کو بھی للکار رہا ہے اور وقفہ وقفہ سے دستور اور عدلیہ پر منصوبہ بند حملے ہورہے ہیں تاکہ وہ کمزور ہوکر ملک میں نئے دستور کیلئے راہ ہموار ہو۔ زعفرانی ٹولہ دستور پر حلف لے کر خلافِ دستور کام کررہا ہے اور دستور کے بنیادی ڈھانچہ پر زعفرانی ضرب لگائی جارہی ہے۔ عوام اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ ملک کے دستور میں ترمیم ہوسکتی ہے لیکن کسی صورت میں بھی دستور کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ملک کو کوئی داخلی خطرہ ہرگز نہیں ہے اور اگر کوئی خطرہ کی گھنٹی بج رہی ہے تو وہ دستور کو تبدیل کرنے کے عزائم سے ہے۔ زعفرانی جماعت توہین دستور کرکے اپنے ہی ملک کو سارے عالم میں بدنام کررہی ہے۔ ملک کی سنگین کیفیت اسے بربادی کی سمت لے جارہی ہے۔
عوام ان سازشوں کو سمجھیں اور حرکت میں آئیں دستور بچاؤ یاترا کا اہتمام کریں۔ اگر دستور بچ گیا تو بھارت خودبخود بچ جائے گا اور EVM ہٹ گیا تو زعفرانی دورِ نفرت و تباہی کا خودبخود خاتمہ ہوجائے گا۔
اگر ملک کا دستور عزیز ہے تو ملک کے ہر کونے سے تحفظ دستور کی صدا بلند ہونی چاہیے اور آنے والے یومِ جمہوریہ کو یوم تحفظ دستور کے طور پر منائیں۔ یہ نفاذ دستور کا دن ہے اس کا جشن اسی وقت منانا جائز ہے جب کہ دستور پر مکمل عمل آوری ہو۔ دستور کی توہین کرکے جشن جمہوریہ منانا بھی توہینِ دستور کے مترادف ہوگا۔ تحفظ دستور کیلئے بلا لحاظ مذہب و ملت سب کو آگے آنا ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اہم کام کیلئے صرف بہوجن سماج حرکت میں آیاہے۔
بابائے دستور ڈاکٹر امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک کے تمام محب دستور بہوجن سماج اور تمام پسماندہ طبقات اگر اپنی بقاء اور حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں تو ملک میں بیالٹ پیپر پر رائے دہی کا مطالبہ اور تحفظ دستور کیلئے ایک عظیم اور پر اثر تحریک کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو آنے والا زعفرانی غلامی کا دور انگریزوں کی غلامی سے بدترین ہوگا اور سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اقلیت اور تمام پسماندہ طبقات ہونگے۔
بھارت کی مول نواسی تنظیم بام سیف کے سربراہ وامن مشرم جو ایک عرصہ سے ای وی ایم کے استعمال کے خلاف اور مول نواسی مسلم اتحاد کیلئے عملی جدوجہد اور تحریک میں مصروف ہیں انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ 26جنوری 2023ء سے اس ضمن میں پورے بھارت میں ایک تحریک اور یاترا کا اعلان کیا ہے۔عوام جمہوریت اور دستور کے تحفظ کے لئے اٹھائی جانے والی اس آواز کا مضبوط مول نواسی مسلم اتحاد سے ساتھ دیں۔
عوام کو ابھی کس بات کا انتظار ہے۔ ملک کی معاشی حالت ابتر ہوگئی ہے‘ بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے‘ بینکس لٹ گئے ‘ اداروں کی خودمختاری ختم ہوگئی‘ جمہوریت صرف ہاتھی کے دانت کی طرح ہوگئی ہے‘ سیکولرازم غائب ہے‘ سیاسی جماعتیں اپنے فنڈس میں بے پناہ اضافہ کرچکی ہیں۔ ملک کے اہم اثاثہ یا تو فروخت ہورہے ہیں یا پھر کرائے پر دیئے جارہے ہیں۔ حکمران سرحدوں سے لاپرواہ ہوکر تجارت میں مشغول ہیں۔ سارے ملک میں اپنے نظریات کو حاوی کرنے کیلئے اپنے ہمنواؤں کا ایک جال پھیلادیا گیا ہے‘ ملک میں کوئی ترقی تو نہیں ہوئی بلکہ نفرت اور حقارت اور جھوٹ اور جھوٹے پروپگنڈے کا فروغ ہواہے۔
حزب اختلاف ‘ حزب انتشار میں تبدیل ہوگیا ہے‘ ان سے جمہوریت اور دستور کے تحفظ کی توقع رکھنا خام خیالی ہوگی۔ تمام جماعتوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور ہر کوئی ملک کا وزیراعظم بننا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ناداں یہ غور نہیں کررہے ہیں کہ ملک میں جمہوریت اور دستور کا خاتمہ ہوجائے تو وزیراعظم کا عہدہ ہی باقی نہیں رہے گا۔ اور کرسی کے اس چکر سے ملک سے جمہوریت اور دستور رفو چکر ہوجائیں گے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں سنجیدگی سے اور اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ ان کو جمہوریت اور دستور چاہیے یا وزارت عظمیٰ کی کرسی۔ اگر کرسی کے چکر میں رہتے ہیں تو ملک کا حزب اختلاف کسی صورت میں بھی ملک میں ابھرنے والی فسطائیت اور آمریت کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
عوام یہ مطالبہ حکومت وقت سے شدت سے کریں کہ وہ آنے والے تمام انتخابات صرف بیالٹ پیپر پر کروائے اور EVMاور RVM کے استعمال پر نہ صرف پابندی ہو بلکہ قانون سازی کا بھی مطالبہ کیا جائے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w