ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
وزیراعظم نرنیدرمودی کے نوٹ بندی کے اچانک اقدام کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے صحیح قرار دیتے ہوئے ان تمام درخواستوں کو خارج کر دیا جو نوٹ بندی کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھیں۔ 2 جنوری 2023کو سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلہ کے ذریعہ مودی حکومت کے اس اقدام کو جائزقرار دیتے ہوئے کہا کہ مرکز نے اس معاملے میںکسی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ حکومت کا یہ اقدام ریزرو بینک آف انڈیا سے مسلسل چھ ماہ کی مشاورت کے بعد کیا گیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ وزیر اعظم نریندرمودی نے 8 نومبر 2016کی رات یکایک ایک ہزار اور پانچ سو کی نوٹوں کو منسوخ کر دیا تھا۔ راتوں رات کئے گئے حکومت کے اس فیصلے سے غریب عوام کافی پریشان ہوئے۔ سینکڑوں زائد افراد اس صدمہ کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سخت اقدام اس لئے کیا گیا کہ اس کے ذریعہ کالے دھن پر قابو پایا جائے گا اور جعلی کرنسی کے کاروبار کو ختم کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ بھی ادعا کیا تھا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے یہ اقدام کیا گیا۔ وزیراعظم کے نوٹ بندی کے اعلان سے ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا تھا اور لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر بینکوں میں قطار لگائے کھڑے تھے تا کہ وہ منسوخ شدہ نوٹوں کو واپس کرکے قابل چلن نوٹ حاصل کر سکیں۔ وزیر اعظم کے بیک جنبش قلم کئے جانے والے اقدام سے سرمایہ داروں کا تو کچھ نہیں بگڑا ، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ 8 نومبر 2016کی بھیانک رات اب بھی ایک ڈرو¿انا خواب بنی ہوئی ہے۔حکومت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ بیرون ملک سے کتنا کالا دھن واپس لایا گیا اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔ نئے اقتصادی انقلاب کی جو بات کی گئی تھی اس کے کوئی آثار ابھی تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ چھ سال بعد اگر سپریم کورٹ حکومت کے اس فیصلے کی سراہنا کر تی ہے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کن بنیادوں پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلہ کے ذریعہ حکومت کے نوٹ بندی کے اقدام کو درست قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی دستوری بنچ نے گزشتہ پیر کو 4:1کی اکثریت سے جو فیصلہ دیا ہے اس کے بین السطور سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے صرف اس حد تک حکومت کے نوٹ بندی کے فیصلہ کو جائز قرار دیا کہ حکومت نے یہ فیصلہ اپنے طور پر نہیں کیا ہے بلکہ آر بی آئی سے مشورے کے بعد ہی یہ اقدام کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس اچانک فیصلہ کے مابعد پیدا ہونے والی صورت حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو کوئی کلین چِٹ نہیں دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستوری بنچ کے چار فاضل جج صاحبان نے حکومت کے اقدام کی مدافعت کی ہے وہیں پانچویں جج نے اکثریت سے الگ اختلافی فیصلہ دیا ۔ بنچ کی واحد خاتون رکن جسٹس ناگ رتنا نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ نوٹ بندی کی تجویز پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ کی جانی چاہئے تھی۔ حکومت نے یہ کام اعلامیہ کے ذریعہ کیا ہے ۔ اس لئے یہ غیر دستوری اقدام ہے۔ جسٹس ناگ رتنا کا یہ استدال ہر حیثیت سے قابل توجہ ہے۔پارلیمانی جمہوریت میں قانون سازی کا حق صرف پارلیمنٹ کو حا صل ہے۔ ایک ایسا اقدام جس کا اثر پورے ملک کی عوام پر پڑتا ہو وہاں وزیراعظم راتوں رات کسی فیصلہ کو عوام پرزبر دستی کیسے مسلط کر سکتے ہیں؟ حکومت کو آخر کیا جلدی تھی کہ وزیراعظم نے راتوں رات ایک ایسا اعلان کیا کہ سارے عوام نیند سے جاگ اٹھے۔
سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے اپنے فیصلہ میں نوٹ بندی کے اثرات پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے ۔ جب کہ غریب عوام کو ناقابل بیان مصائب و مشکلات سے گزرنا پڑا۔ انتہا یہ کہ بیمار ہونے پر علاج کے لئے بھی لوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ان کی اپنی محنت کی کمائی جو بینکوں میں جمع تھی ، اسے بھی وہ استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں معاشی تنگدستی نہ دیکھی جا رہی تھی۔ اس پر معزز جج صاحبان کی کوئی فکر مندی سامنے نہیں آ ئی۔ پانچ رکنی بنچ کے چار جج صاحبان نے ایک سنسنی خیز فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کرکے وزیراعظم کی ہمت اور بڑھادی۔ لیکن خاتون جج نے اپنا جو الگ فیصلہ دیا اس سے کم از کم حکومت کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جمہوریت میں بے لگام فیصلے کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ میں یکطرفہ فیصلہ نہیں ہوا۔ ایک جج نے اختلافی فیصلہ دیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ کسی قانون کے نفاذ سے پہلے عوام کو دوچار ہونے والی پریشانیوں کا بھی حکومت کو اندازہ ہو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ نوٹ بندی کے اس اچانک اقدام نے پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ حکومت نے یہ نہیں سوچا کہ غریب عوام کا کیا ہوگا۔ وہ آخر اپنی جمع پونجی کو ضائع ہونے سے کیسے بچا پائیں گے۔ اختلافی فیصلہ دینے والی جج صاحبہ کا بھی یہی تاثر تھا کہ اگر پارلیمنٹ کے ذریعہ نوٹ بندی کا فیصلہ کیا جاتا تو عوام کو اتنی پریشانی لاحق نہیں ہو تی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تنقید توہین عدالت ہے۔ لیکن معزز جج صاحبان کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ نوٹ بندی سے حکومت کا مقصد پورا ہوا یا نہیں؟ سپریم کورٹ حکومت سے وضاحت طلب کر سکتی ہے کہ نوٹ بندی کے بعد کتنا کالا دھن بیرون ملک سے واپس لایا گیا۔ کتنے دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کیا گیا۔ اگر حکومت کا یہ ہدف پورا نہیں ہوا توکیوں عوام کو بلا وجہ تکلیف میں ڈالا گیا۔ یہ باور کیا جا رہا ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ دراصل ملک کے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنا تھا۔ چناچہ وہ سارا کالا دھن ، جو سرمایہ داروں کے پاس تھا اسے راتوں رات جائز پیسہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ مودی حکومت کے اس اقدام سے سرمایہ دار پورے فائدے میں رہے اور غریب بیچارہ اور مصیبت میں آ گیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ عدالت حکومت کے اس جلدبازی کے اقدام کی کھوج کرے گی اور حقائق ملک کی عوام کے سامنے آئیں گے۔ جس وقت نوٹ بندی کا فیصلہ ہوا ، اس پر ہر طرف سے لعن طعن ہو تی رہی۔ سماج کے کسی طبقہ نے اس کی تائید نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹ بندی کے عمل اور اس کے نتائج کو جاننے کے لئے ملک کے فکر مند شہریوں نے عدالت کا سہارا لیا۔ آر ٹی آئی جہد کار وینکٹیش نایک سپریم کورٹ میں آر ٹی آئی کے تحت درخواست دی۔ چھ سال کے بعد سپریم کورٹ نے نوٹ بندی پر اپنا فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ 7 ڈسمبر 2022کو محفوظ کر دیا تھا اور 2 جنوری 2023کو یہ فیصلہ 4:1کی اکثریت سے صادر کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے کیا دوررس نتائج نکلیں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن اس سے جمہوری اداروں کی ساکھ متا ثر ہو سکتی ہے۔ حکومت کسی بھی قانون کو ملک میں نافذ کرنے کے لئے صرف نوٹفیکشن جا ری کرے گی۔ پارلیمنٹ میں کسی قانون کو وضع کرنے کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ حکومت کا یہ رجحان بڑا خطرناک ہے۔ اس سے جمہوریت کا مستقبل داو¿ پر لگ جائے گا۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کے زعم میں ایسے قوانین لائے جائیں گے جس سے شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق پر ضرب پڑے گی۔ سابق میں بی جے پی حکومت نے ایسے قوانین لاکر عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لئے مجبور کر دیا۔ تین متنازعہ زرعی قوانین اور سی اے اے کا قانون اس کی بدترین مثال ہے۔ ان قوانین کے خلاف کسانوں اور دیگر افراد کو زبردست احتجاج کرنا پڑا۔
سپریم کورٹ کو حکومت کے ارادوں کو بھی سامنے رکھتے ہوئے اپنے فیصلے صادر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ عدالتیں ہی اس وقت ملک کی عوام کی آخری امید بن چکی ہیں۔ عدالتیں اگر حکومت کے ہر اقدام کی تائید کرنے لگیں تو پھر عوام کے لئے انصاف کا حصول محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ حالیہ عرصہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کے کئی متنازعہ اقدامات کو عدالت کی تائید حاصل رہی۔ عدالتیں تکنیکی بنیادوں پر حکومت کے فیصلوں کی توثیق کررہی ہیں لیکن عوام کے مسائل کو بھی سامنے رکھنا اس کا ایک اہم فریضہ ہے۔ نوٹ بندی کے معاملے میں آیا آر بی آئی سے مشاورت کافی ہے؟ کیا عوام کو اعتماد میں لے کر یہ اقدام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جسٹس ناگا رتنا نے اپنے اختلافی فیصلہ میں پارلیمنٹ کی اہمیت کو جس انداز میں واضح کیا ہے اس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ عوام کے مسائل کی ترجمانی کرنے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔ کسی بھی قانون کو ملک میں نافذ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ میں کھلے مباحث ہونے ضروری ہے۔ اس کے بجائے کسی بھی فیصلہ کو عوام پر مسلط کرنے کا مزاج جمہوریت کے عین خلاف ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جمہوریت کے نام پر مطلق العنانی کاجو دور چل رہا ہے اس پر روک لگانے کا وقت آگیا ہے۔ ملک کی عدالتوں کے سامنے ساری صورت حال بالکل واضح ہے۔ کس طرح سے ملک کے میڈیا کو حکومت نے دباو¿ ڈال کر یا لالچ دے کر خرید لیا ہے۔ ملک کا کوئی ٹی وی چینل حکومت کی پالیسیوں پر لب کشائی نہیں کر سکتا۔ اسی طرح حکومت کے قانونی اور دستوری ادارے غیرجانبداری کے ساتھ کام کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی شفافیت کھوتا جا رہا ہے۔ سی بی آئی کو اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ ہر شعبہ حیات میں حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے۔ کوئی اداراہ آزادانہ طور پر اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر عدالتیں بھی حکومت کے ہر اقدام کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کرےںگی تو پھر عوام کا اعتماد عدلیہ پر بھی متزلزل ہو جائے گا۔ حکومت کے کسی بھی اقدام کو عدلیہ عوام کی فلاح و بہبود کی نظر سے دیکھے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ حکومت کے کتنے فیصلے عوام کی مرضی اور خواہش کے مطابق نہیں رہے۔ خاص طور پر نوٹ بندی کے اقدام سے عوام میں جو ناراضگی دیکھی گئی اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ نوٹ بندی کا اقدام غریب ملک کے کروڑوں شہریوں کے ایک ایک اذیت ناک اقدام تھا۔ اس کی تائید و حمایت اس لحاظ سے نہیں کی جاسکتی ہے کہ حکومت نے کسی ادارے سے مشاورت کے بعد یہ اقدام کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی نوٹ بندی کے اثرات پر اپنی کوئی رائے نہیں دی لیکن بر سرِ اقتدار طبقہ اسے اپنی کامیابی مان رہا ہے۔ اسی لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیراعظم کی واہ واہ بھی ہو رہی ہے۔لیکن اختلافی فیصلہ نے ساری حقیقت عوام کے سامنے رکھ دی ہے۔ پانچ رکنی بنچ کے واحد رکن کا فیصلہ ہی عوام کو مطمئن کر تا ہے۔ جسٹس ناگ رتنا نے اپنی ذ مہ داری نبھادی اور حکومت کو آئینہ دکھا دیا کہ اس کا یہ اقدام غیر دستوری تھا۔ حساس اور عوام سے جڑے معاملات میں عدالتیں انسانی ہمدردی کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے صادر کر یں تو اس کے بہت ہی اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومتیں بے لگا م نہیں ہو جائیں گی۔ کسی بھی قانون کے نفاذ سے پہلے وہ عوام کی ضرورتوں کا خیال کر یں گی۔ عوام کا اعتماد بھی عدالتوں پر باقی اور بر قرار رہے گا۔ اس وقت ملک کی عوام حکومت سے کوئی بھلائی کی توقع نہیں رکھتی۔ گز شتہ نو سال کے دوران نِت نئے قوانین لاکر عوام کو مسائل میں ڈال دیا گیا۔ اس لئے ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے عدلیہ کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ نوٹ بندی جیسے جلدبازی کے اقدام کو قانونی جواز نہ بخشا جائے۔