دینی مدارس کا سروے

محمد ابراھیم خلیل سبیلی
ان دنوں یوگی سرکار کی طرف سے بڑے زورو شور سے مدارس کا سروے ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے مدرسہ انتظامیہ میں کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ بیشتر مدارس والے حکومت کی نیت پر سوال کھڑا کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک خاص مذہب کے اداروں کو نشانہ بنانا کسی صورت درست نہیں ہے، کیوں کہ مدارس نہ ہی غیر قانونی طور پر چل رہے ہیں اور نہ ان میں کوئی غیر قانونی سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں۔ اگر سروے کرانا ہی ہوتو تمام مذاہب کے اداروں میں کرانا چاہیے تب ہم بھی اس کے لیے تیار ہوں گے، لیکن سروے سے متعلق 12نکات پر جان کاری سامنے آنے کے بعد مدارس انتظامیہ کی کچھ بے چینی ختم ہوئی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ سروے ٹیم کو لے کر تشویش میں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں اور ان کو مطلوبہ معلوت فراہم کریں۔
یوگی حکومت غیر منظور شدہ مدارس کا سروے 12نکاتی سوالوں پر کر وا رہی ہے۔سوالات کے متعلق ایک پرفارما تیار کرکے مدارس کے ذمہ داروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سروے صرف انہیں بارہ سوالات کی بنیاد کیا جائے گا۔اس پرفارمامیں جو سوالات دیے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:
۱۔ مدرسہ کا نام؟
۲۔ مدرسہ چلانے والے ٹرسٹ کا نام؟
۳۔ مدرسہ کا سن قیام؟
۴۔ مدرسہ کرایہ کی عمارت میں ہے یا ذاتی عمارت میں؟
۵۔ مدرسہ میں بنیادی سہولتیں جیسے پانی کا انتظام؟
۶۔ بیت الخلاء کا انتظام؟
۷۔ بجلی کا انتظام؟
۸۔ مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء و طالبات کی تعداد؟
۹۔ مدرسہ میں پڑھایاجانے والا نصاب؟
۱۰۔مدرسہ کی آمدنی کا ذریعہ؟
۱۱۔ مدرسہ میں پڑھنے والے طلباء کسی دوسرے ادارے میں رجسٹرڈ ہیں؟
۱۲۔ کیا مدرسہ کسی دیگر غیر سرکاری ادارہ سے منسلک ہے؟
حکومت کے مطابق یہ سروے 5/اکٹوبر تک مکمل ہونا ہے۔ یہ سروے ایس ڈی ایم ایجوکیشن اور ضلع سطحی اقلیتی ٹیموں کے ذریعہ کروایا جارہا ہے۔ یہ ٹیمیں اپنی رپورٹ ایپلی کیشن ڈاٹا مینجمنٹ (اے ڈی ایم) کودیں گی جہاں سے ضلع مجسٹریٹ کو سونپی جائیں گی اور پھر 25/اکٹوبر تک یہ سروے رپورٹ حکومت کے حوالے کردی جائے گی۔
سروے کے سوالات آسان ہیں یا مشکل یہاں سوال یہ نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے تمام اداروں کو چھوڑکرصرف مدارس کے سروے پرہے۔حکومت کو ایسی کیا ضرورت پڑگئی کہ اس نے یکلخت مدارس کا سروے کرنے کا حکم جاری کردیا؟ اس لیے جمعےۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی سوال نہیں ہے بلکہ ہمیں سرکار کی نیت پر شبہ ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہے تو وہ سبھی تعلیمی اداروں کا سروے کیوں نہیں کراتی؟ ہماری ہمیشہ سے یہ کو شش رہی ہے کہ ہمارے مذہبی اداروں کو آئینی حقوق کی بنیاد پر چلنے دیا جائے لیکن فرقہ پرست لوگ انہیں کسی نہ کسی طرح تباہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔حقیقت ہے اگر حکومت کی نیت صاف ہوتی تو وہ تمام ہی تعلیمی اداروں کا سروے کرنے کا حکم دیتی۔ بیشتر دینی مدارس تو حکومت کے تحت نہیں چلتے،حکومت ان اداروں کو کچھ بھی فنڈ نہیں دیتی تاہم ان کا سروے ہورہا ہے، لیکن جو سرکاری ادارے مکمل طور پر حکومت کے فنڈ پر چلتے ہیں، وہاں سروے کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے۔حکومت ان اداروں کو چلانے کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہے، لیکن وہاں کا تعلیمی نظام کس حد تک درست ہے یہ بہت بڑا سوال ہے؟ تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے انسان کی کردار سازی اور قوم کی ترقی ہوتی ہے۔ اس لیے ہر مذہب اور ہر ملک میں سرکاری سطح پر اس پر زور دیا جاتا ہے۔ ہندوستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں شروع ہی سے اس پر توجہ دی گئی ہے۔ حتی کہ2009 میں حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن (حق ِ تعلیم) کے نام سے ایک جامع قانون بناکر 6 سال سے 14 سال تک کی عمر کے تمام طلباء کو مفت تعلیم کے حصول کو بنیادی حق قرار دیا۔ ایک طرف حکومت ایسے قانون بناتی ہے اور دوسری طرف اسکولوں کا یہ حال ہے کہ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد بہت کم ہے اور بعض اسکولوں میں اساتذہ ہے ہی نہیں۔ حکومتیں ڈیجیٹل کلاسس کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن انٹر نیٹ کی کمی اور باقاعدہ سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے طلباء تعلیم اور سیکھنے سکھانے سے محروم ہیں۔ یونیسکو کی ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں سرکاری اسکولوں کے متعلق جو رپورٹ پیش کی گئی، وہ تشویشناک ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اساتذہ میں صلاحیت اور قابلیت کی کمی ہے اور زیادہ تر اسکولوں میں تمام مضامین کے اساتذہ تک موجود نہیں ہیں۔ شہری اسکولوں کی حالت پھر بھی غنیمت ہے، لیکن دیہی علاقوں کی صورت حال بہت زیادہ خراب ہے۔ بعض ریاستوں میں صورت حال اچھی ہے اور بیشتر ریاستوں میں خراب ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اسکولوں میں تربیت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے حالانکہ اس کام کے لیے وقتا فوقتا کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں، اس کے باوجود طلباء میں اصلاح اور بہتری نظر نہیں آتی۔
حکومت اپنے تحت چلائے جانے والے اسکولوں میں سروے کرکے ان کو ترقی دینے کی بجائے مدارس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ جب حکومت ان مدارس کی مدد نہیں کرتی تو ان کے سروے کرانے کا کیا مطلب ہے؟اب جبکہ کئی مدارس کا سروے مکمل ہوچکا ہے تو وہاں سے ایسا کوئی مواد دستیاب ہوا جو غیر قانونی ہو؟ مدارس میں کتابوں اور چٹائیوں کے علاوہ ملتا ہی کیا ہے؟ وہاں تو سبزی کاٹنے کے لیے تیزچاقو تک نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مدارس کے سروے کا مطلب سرکار کی نیت درست نہیں ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ مدارس یوپی کے سہارنپور اور مظفر نگر میں پائے جاتے ہیں اور ایشیاء کا سب سے بڑامرکز دارالعلوم دیوبند بھی وہیں موجود ہے۔ اس لیے یوگی حکومت جانچ کے بہانے مدارس پر شکنجہ کسنا چاہتی ہے۔
سروے کے سلسلہ میں 18ستمبرکو بلائی گئی جمعےۃ علماء ہند کی ہنگامی میٹنگ میں مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم نے چند اہم نکات پیش کیے جو اپنی جگہ بہت اہم اور قابل ستائش و عمل ہیں۔ تاہم مولانا نے اپنی گفتگو میں یہ بھی کہا کہ مدارس میں عصری تعلیم کا لازمی انتظام کیا جائے اور دارالعلوم دیوبند میں بھی آئندہ سال سے اس کا آغاز ہوجائے گا۔ مدنی صاحب کی یہ بات ان دنوں موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری تعلیم کہاں تک درست ہے؟بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم درست نہیں ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ بتقاضہئ وقت عصری تعلیم درست بلکہ لازم ہے۔ عصری تعلیم کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے کہ اسے حاصل نہ کیا جائے اور آج تک کسی مفتی نے اس کے ناجائز ہونے پر فتوی نہیں دیا۔ہم بھی کہتے ہیں کہ عصری تعلیم آج کے زمانے کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے سیکھے بغیر کسی کو چارہ نہیں ہے۔ اس کے باوجودمدارس میں عصری تعلیم کا نہ ہونا ہی بہتر ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں:پہلی بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند تیرھویں صدی کی ایک عظیم دینی، تعلیمی،دعوتی اوراصلاحی تحریک ہے جس نے ملک میں احیائے اسلام اور تجدید دین کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیاہے۔ اس کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے وجود کا مسئلہ درپیش تھا، کیوں کہ انگریزوں نے اسکولوں میں انجیل کے درس کو لازمی کر دیا تھا اور اسلام کو مٹانے کے درپہ تھے۔ آج ملک آزاد ہے، لیکن فرقہ پرست طاقتیں ان کے نقش قدم پر ہیں بلکہ اسلام دشمنی میں ان سے آگے بڑھ چکی ہیں۔ وہ بھی اسلام کو ختم کرنا چاہتے تھے اور یہ بھی ہندو مذہبی کتابوں کو نصاب تعلیم میں داخل کرنے کے لیے بے تا ب ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج اختصاص کا زمانہ ہے۔ پہلے ایک ڈاکٹر تمام مریضوں کی تشخیص کرتا تھا، لیکن آج ہر مرض کا ڈاکٹر الگ الگ ہے۔اسی طریقہ سے ہر شعبہ میں لوگ اختصاص کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایسے وقت میں اگرمدارس میں عصری تعلیم کو داخل کردیا جائے تو دین کی تعلیم کے ماہر کہاں پیدا ہوں گے؟ عالم کورس کا نصاب آٹھ یا نو سالہ ہوتا ہے لیکن کالج کے طلباء کے لیے پانچ سالہ نصاب متعارف کرایا گیا لیکن اس میں کالج کے طلبا کم اور دینی مدارس کے طلباء زیادہ داخلہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے ان میں جو صلاحیت پیدا ہونا تھا وہ نہیں ہورہی ہے۔ اب اگر عصری تعلیم کو داخل کردیاجائے تو رہی سہی دینی تعلیم بھی عصری تعلیم کی نذر ہوجائے گی۔ مدارس کے طلباء میں جو اختصاص پیدا ہونا تھا وہ نہیں ہوگااور طلباء دینی تعلیم سے بہت پیچھے ہوجائیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسکولس کے مقابلہ میں مدارس میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد بہت کم ہے بلکہ نہ کے برابر ہے۔ ہمارے مسلمان بچے دینی اداروں میں پڑھتے ہی کتنے ہیں؟عام اعداو شمار کے مطابق مدارس کے طلباء کی تعداد کل ملاکر چار یا پانچ فیصد ہے۔ اتنی تھوڑی سی تعداد جس کو سرپرست حضرات حافظ،عالم اور مفتی بنانے کے لیے مدرسہ میں داخل کرتے ہیں تو اس مٹھی بھر تعداد کو عصری تعلیم کی طرف لے جانا کہاں تک درست ہے؟ جو بچے عصری درسگاہوں میں پڑھتے ہیں وہ دنیوی تعلیم میں مہارت پیدا کریں اور جو بچے دینی درسگاہوں میں پڑھتے ہیں وہ دینی علوم میں مہارت پیدا کریں یہی وقت کا تقاضا ہے، کیوں کہ قوم کو بہترین ڈاکٹر،انجینئر اور قانون دان کی طرح ایک ماہر مفتی اور جیدعالم دین کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ سلف صالحین کے ملفوظات میں یہ بات ملتی ہے کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم کانہ ہوناہی بہتر ہے کیوں کہ مدرسہ دیوبند کی بابت بڑے بڑے انگریزوں کی یہ تحریر ملتی ہے کہ اگر مدرسہ کی دینی تعلیم میں دنیوی تعلیم بھی شامل کردی جائے تو مذہب کا خالص رنگ باقی نہ رہے گاجوکہ مدارس کا طرہ امتیاز ہے۔