محمد اعظم شاہد
چند دن قبل راہل گاندھی نے برطانیہ کے کیمبرڈج یونیورسٹی کے جج بزنس اسکول میں ’’اکیسویں صدی میں سننے کا ہنر سیکھنا ہوگا‘‘ کے موضوع پر خصوصی لکچر پیش کیا، مذکورہ یونیورسٹی میں مہمان مدرس Visiting Fellow کے طورپر مدعو راہل گاندھی نے واضح طورپر کہا کہ عالمی امن و بقائے باہمی کیلئے ایک دوسرے کو سمجھنے کیلئے سننے کی صلاحیت کا ہر کسی کو حاصل ہونا چاہئے ۔ موجودہ دور میں فرصت کی کمی ہے ہر کوئی اپنے آپ میں مصروف ہے ۔ حالات کو سمجھنے کیلئے سننے کی ضرورت، آج سب سے بڑا کام ہے ۔ ایک طرف فیصلے اور اقدامات جس میں سب کی شمولیت نہ ہو تو حالات بنتے نہیں بگڑجاتے ہیں۔ افراتفری کا ماحول اسی انا پرستی کے باعث دنیا میں چاروں طرف پھیلا ہوا ہے ۔اور وطن عزیز ہندوستان میں بھی یہی صورتحال ہے ۔
اس موڑ پر ندافاضلی کا یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے …
جسے بھی دیکھئے وہ اپنے آپ میں گم ہے
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا
یعنی سب اپنا کہا ہوا ، اپنا سنایا ہوا فیصلہ ہی مقدم سمجھنے لگے ہیں۔ فرد ہو یا سماج یا پھر ریاست ہو کہ ملک بلکہ پوری دنیا میں باہمی ترقی و بقاء کیلئے کون کیا کہہ رہاہے ، وہ سننا بھی سمجھنا بھی ضروری ہے ۔
اپنے ملک میں جمہوریت کامنظر نامے پر بولتے ہوئے راہل گاندھی نے بتایاکہ ہندوستان میں جمہوریت پر متواتر حملے ہو رہے ہیں۔ اپنی بات کو رکھتے ہوئے پانچ اہم نکات پر دلائل کے ساتھ وضاحت پیش کی ۔ پہلا یہ کہ عدلیہ اور میڈیا کو اپنی گرفت میں رکھتے ہوئے حکومت نے انہیں اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے ۔ دوسرا یہ کہ مزاحمت اور جواب دہی کیلئے اٹھنے والی آوازوں اور اپوزیشن پر نگرانی کیلئے جاسوسی اور حراساں کرنے کی تدابیر اپنانا ، تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اپنے ماتحت تفتیشی محکموں کو اپنے مفاد کیلئے حکومت کا جانبدارانہ استعمال ، چوتھااہم مسئلہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ ظلم و ستم اور پانچواں توجہ طلب نکتہ یہ کہ حکومت کے فیصلوں سے عدم اتفاق رکھنے اورسوالات اٹھانے والوں پر قانونی شکنجہ کسنا ۔ ان اہم نکات پر راہل نے اپنے مطمح نظر کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ملک میں آئین ، جمہوریت اور دیرینہ تکثیریتی شناخت کو پامال کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ اور چین میں عوامی شمولیت کی اہمیت اور مجموعی ترقی کی توصیف میں راہل انے کہاکہ وہاں ترقی کے مواقع آسان ہیں، اس لئے کہ عوام کے احساسات کی قدر کی جاتی ہے اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے راہل نے بتایاکہ لوگ کھل کر ملے ، گھل کر مل گئے ، جب انہیں احساس ہوا کہ کوئی ان کا اپنا ان کے احوال سننے کیلئے ان کے درمیان ہے ۔ لوگوں کے اندر چھپی ہوئی ان کہی اتنی باتیں سننے کو ملیں کہ راست طورپر اندازہ ہوا کہ کس طرح کہنے والوں کو سننے والے ملتے ہی نہیں۔ یا پھر ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ ارباب اقتدار جو کہتے ہیں وہ سنتے جاؤ بس، لوگوں کا حال سننے کیلئے ہمارے ( حکومت کے ) پاس وقت ہی نہیں ہے ۔
راہل گاندھی ایسے وقت میں بیرون ملک بقائے باہمی کا درس ایک قدیم دانش گاہ میں دے رہے تھے جب اندرون ملک شمال مشرق کی ریاستوںکے اسمبلی انتخابات میںان کی پارٹی (کانگریس ) شکست سے روبرو تھی۔ بی جے پی اپنی شاندار کامیابی پر شاداں و نازاں تھی، بی جے پی کے ترجمان ، راہل کے لکچر پر تنقید کے تیر برسانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف ہوگئے ۔ کہا گیاکہ کانگریس کی حالیہ انتخابات میں شکست کا محاسبہ کرنے کی بجائے راہل ودیش ( بیرون ملک ) میں دیش ( ملک ) کی مریادا پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ جمہوریت کو ناکام بتا رہے ہیں۔ راہل کو ناسمجھ ، ناپختہ سیاستدان قرار دیتے ہوئے، بی جے پی نے الزام لگایاکہ دیار غیر میں چین کی تعریف اور بھارت کی توہین کی گئی ہے ۔ بیان بازی کادور چل نکلا ۔ کانگریس کے ترجمان نے بی جے پی کو آئینہ دکھایا کہ کس طرح وزیر اعظم اپنے چین کے دوروں کے دوران اس ملک کی تعریف کیا کرتے ہیں، ویسے ہماری حکومت ساری دنیا کو یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہمارے ہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔
راہل کو ہندوستان میںجمہوریت کے عدم استحکام پر بیرون ملک میں بات کرنا گویا عالمی سطح پر ملک کی امیج کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔ بتایا جا رہا ہے کہ جب ہندوستان جی ۔ 20 ممالک کی سرابراہی کے منصب پرفائز ہے ۔ ایسے میں ملک کے حالات پر تنقید کرنا گویا بیرونی ممالک سے ہندوستان کا رخ کرنے والے سرمایہ کاروں کو روکا جاناہے ۔اب جبکہ چین سے عالمی سطح پر سرمایہ کار اپنے کارخانوں اور مصنوعات کیلئے ہندوستان کا رخ کر رہے ہیںاور یہاں روزگار کے مواقع بڑھانے پر کام ہو رہا ہے ۔ اس مرحلے پر چین کی تعریف کرنا ، بی جے پی کہہ رہی ہے کہ یہ ملک کے مفاد کے خلاف ہے ۔ اب اقتدار کا نشہ بی جے پی پر پہلے سے زیادہ سر چڑھ کر بول رہاہے ، وہ ( بی جے پی ) صرف اپنا کہا ہی آخری فرمان سمجھتی ہے ۔ اپنا ہی سننا جنہیں عزیز ہے ، وہ بھلا کہاں راہل کے اس نکتہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو کھلے دل سے دوسروں کی باتیں سننے کی بات کررہے ہیں۔