
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی
کسی زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ آبادی کے بڑھ جانے سے ملک کی ترقی سست پڑ جاتی ہے۔ اسی نظریہ کو ذہن میں رکھ کر چین نے اپنی آبادی کو گھٹایا تھا لیکن اسی ملک کے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ آبادی کی کمی کے سبب ترقی کی رفتار دھیمی پڑ رہی ہے۔ ادھر یونائٹیڈ نیشنس آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اب ہندوستان آبادی کے معاملہ میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بن کر ابھر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت ہندوستان کی آبادی 142.57کرو ڑہے جبکہ چین 142 کروڑ 46لاکھ کے ساتھ دنیاکا دوسرا بڑا ملک ہے۔ یو این او کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں ایک کروڑ 60لاکھ سے ایک کروڑ 70لاکھ کا سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ ملک میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں آبادی کی شرح کم ہوتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں آبادی کا اس قدر بڑھ جانا ایک معمہ ہی ہے۔ مسلم اور ہندو دونوں ہی فرقوں میں آبادی کی اضافہ کی شرح کم ریکارڈ کی گئی اور خاص طورپر ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی شرح پیدائش کم رہی ہے۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں نے حمل مانع اشیاء کا استعمال کرتے ہوئے اپنی آبادی کو کم کیا ہے اس کے باوجود افسوس کی بات ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام نہاد قائدین یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کم علم لوگ اپنی ہی حکومت کے اعداد وشمار کو دیکھتے نہیں ہیں اور جی میں جو آیا الزام لگا دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہماری وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے اپنے ایک بیرونی دورہ میں یہ کہا تھا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ اضافہ ہندوؤں کے مقابلے میں کم ہے۔
یو این او کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں نوجوانوں کی اکثریت رہے گی۔ مردوں کی اوسط عمر 71 سال اور عورتوں کی اوسط عمر 74سال ہوگی۔ ہندوستان کی آبادی کا 68 فیصد حصہ 15 اور 64 سال کی عمر کے گروپ میں رہے گا۔ صرف 7 فیصد لوگ ہی 65 سال کے اوپر ہوں گے۔ یو این او نے یہ بھی تخمینہ لگایا ہے کہ کانگو ، مصر، ایتھوپیا، ہندوستان، نائیجریا، پاکستان، فلپائن اور تنزانیہ کی آبادیاں دنیا کی آبادی کا نصف رہیں گی۔ اگر 2023 کی شرح کے مطابق آبادی برقرار رہتی ہے تواگلے 75 سال میں ہندوستان کی آبادی دوگنی ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہندوستان میں 50 فیصد آبادی 25سال سے کم عمر کے شہریوں پر مشتمل ہوگی۔ ہندوستان اگر اس زمرہ کا صحیح استعمال کرتا ہے تو وہ بھرپور ترقی کرسکتا ہے۔ اس اثناء میں ساری دنیا کی آبادی 8ارب سے تجاویز کرچکی ہے۔
اقوام متحدہ نے جب ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سات شہریوں سے آبادی کے اضافہ سے متعلق آن لائن مختلف سوالات کئے تو انہوں نے معاشی مسائل کو اہم قرار دیا ہے ۔ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی تشویش ظاہر کی۔ 46 فیصد نے صحت او ر انسانی حقوق کی پامالی کا اندیشہ ظاہر کیا۔ ان لوگوں نے وسیع آبادی اور پیدائش کی اونچی شرح پر بھی اپنا اعتراض جتایا۔ ان کا یہ احساس تھا کہ آبادی میں اضافہ تشویش کا سبب نہیں بننا چاہئے بلکہ اسے ترقی اور قوم کی تعمیر نو کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انفرادی حقوق پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے۔ عوام نے یہ بھی خواہش کی کہ سیاستدانوں اور میڈیا کو آبادی میں اضافہ کو مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ فضائی آلودگی کو ختم کرنے کے لئے دنیا کی آٹھ ارب آبادی میں سے ساڑھے پانچ ارب آبادی والے ملکوں کے پاس خاطر خواہ فنڈس نہیں ہیں۔ عیسائیوں کے بعد مسلمان دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ اس وقت 56 ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ان کی موجودہ آبادی دو ارب ہے۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق 2050 تک مسلمانوں کی آبادی عیسائی آبادی کو عبور کرجائے گی۔ 2015 اور 2060 کے بیچ مسلمانوں کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھے گی ۔ اس بات کا امکان ہے کہ مسلم آبادی میں 70 فیصد کا اضافہ ہوگا جبکہ دنیا کی آبادی میں بحیثیت مجموعی 32 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے اگلے تین دہوں میں مسلمانوں کی آبادی تین ارب ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر 10 میں سے تین افراد مسلمان ہوں گے۔ بہرحال مردم شماری کی اصل وجہ یہ ہے کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دیا جائے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں آبادی کا تناسب ووٹ بنک بن کر رہ جاتا ہے۔ پورے ملک کو ووٹوں کے حصول کی خاطر فرقوں اور ذاتوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ترقی کرنے اور ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچانے کے بجائے انہیں کانٹے دیئے جارہے ہیں۔ ایک بار اٹل بہاری واجپائی نے یہ کہا تھا کہ حکومتیں عوام کو ذات پات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے بجائے امن و ضبط کے ساتھ ترقی کے مواقع عطا کرنے کے بارے میں سوچیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ اچھا کمیونیکیشن بہترین امن و ضبط کی صورتحال اگر پیدا کی جاتی ہے تو لوگ خود سے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے اس نظریہ میں سچائی ہے ۔ اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی سرکار کی جانب سے 80 کروڑ عوام کو پانچ کیلو گیہوں یا پانچ کیلو چاول دے دینا ترقی کی بنیاد نہیں سمجھی جاسکتی ۔ اس طرح کا کام عوام کو کمزور کرے گا او ر حکومت پر ان کا انحصار بڑھ جائے گا جو کسی بھی حالت میں اچھی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صنعتوں کا جال پھیلایا جائے، چھوٹی اور درمیانی صنعتیں قائم کی جائیں۔ دیہی علاقوں کی طرف توجہ دی جائے جہاں پر کاٹیج انڈسٹریز کھولی جائیں تاکہ لوگ اپنار وزگار اپنے ہی علاقہ میں حاصل کرپائیں۔ ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہیں جہاں پر لگ بھگ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی صنعت کارکرد ہے۔ عوام کو ان کاموں کے لئے بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس ملک کا جی ڈی پی بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو آبادی کے اس زبردست اضافہ کو قدرت کا ایک عظیم تحفہ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہئے تاکہ عوام کو مختلف پروگراموں کے ذریعہ فائدہ پہنچایا جاسکے۔ اگر آبادی کے اس اضافہ کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے ۔ سیاسی نظریات کی تفریق کے بغیر ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا ، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرنا ہوگا اور ادنیٰ سیاسی فائدوں سے اونچا اُٹھ کر کام کرنا ہوگا۔ تب ہی جاکر ہم آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ہند کے فائدے کے خاطر استعمال کرسکیں گے۔
اب ہم کرو یا مرو یعنی do or die کے اسٹیج میں آچکے ہیں۔ اب بھی اگر ہم فرقہ پرستی ، علاقائیت اور تعصب کے راستے پر چلیں گے تو ہوسکتا ہے کہ ہم تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔ اب ہمیں نفرتوں کی گندگی سے دور ہونا پڑے گا۔ سفر کٹھن ہے ہمیں رُخ بدلے بغیر آگے بڑھنا ہوگا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
شریک عہد اگر تھا حصول منزل تک
سفر میں رخ نہ بدل نفرتوں کی بات نہ کر
۰۰۰٭٭٭۰۰۰