مذہب

سید شاہ صابر حسینی علیہ الرحمہ حیات و تعلیمات

حید رآباد فرخندہ بنیادجو ابتداء ہی سے گہوراۂ علم و عرفان رہا‘ جس کی وجہ سے کئی ادباء‘ شعراء‘ ناقدینِ ادب‘ صلحاء‘ علماء‘ و عرفاء نے جس کو اپنا مقام بنایا۔ جہاں کئی اخیار امت نے شہر عرب، مدینہ منورہ، اور بغداد و بخارا سے ہجرت کرکے جس کو اپنا مسکن و مرکز بنایا۔

سید ابرار صابری نظامی راہیؔ
ابن سید عظیم الدین صابری
(مولوی عالم جامعہ نظامیہ)

حید رآباد فرخندہ بنیادجو ابتداء ہی سے گہوراۂ علم و عرفان رہا‘ جس کی وجہ سے کئی ادباء‘ شعراء‘ ناقدینِ ادب‘ صلحاء‘ علماء‘ و عرفاء نے جس کو اپنا مقام بنایا۔ جہاں کئی اخیار امت نے شہر عرب، مدینہ منورہ، اور بغداد و بخارا سے ہجرت کرکے جس کو اپنا مسکن و مرکز بنایا۔

اسی شہر کے ایک بزرگ جو نہ صرف نسب کے اعتبار سے ذات مصطفویؐ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ حسب‘ جاہ و جلال‘ علم و عرفان کے اعتبار سے بھی ذاتِ رسولؐ سے علاقہ رکھتے ہیں۔ کہ جن میں اسوۂ محمدیؐ، اور فضل و علم علویؓ، اور ایثار و شہادت حسنین کریمینؑ، اور جاہ و حشمتِ غوثیت مآبؓ، اور ناز و نیازِ پیر چشتی خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؓ، اور تفقّہ پیر مخدوم حسینیؒ، اور وصف وصال مجیب الدین حسینی بخاریؒ سر بسر بہ تمام و کمال و حسن‘ نظر آتا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کی ذات مبارک مصداق اکمل و آئینہ دارِ صِبْغَۃُ اللّٰہُ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃْ جلوہ گر ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کے مرشد اکمل نے آپ کو ’’اللہ نما‘‘ کے نام سے پکارا۔ اور اس مقام پر وجد نے کیا ہی خوب کہہ دیا کہ:

آپ ہیں نور علیؓ نور نبیؐ نور خدا
آپ کی دید ہے کس کس کے نظارے صابرؒ

آپ علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ابتداء اً تو عامیانہ رہی لیکن جب نگاہِ مردِ کامل و پیر و مرشدِ عامل آپ پر پڑتی ہے تو کسے معلوم تھا کہ ایک عام زندگی گذارنے والا شخص خاص نہیں بلکہ اخص الخواص بن کر کئی مردہ دلوں کو حیات ابدی بخشے گا بقول اقبال

نہ تخت و تاج میں نہ لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی اک نگاہ میں ہے
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

غرض کہ جب حضرت سید شاہ صابر حسینیؒ نے حضرت سید شاہ مجیب الدین حسینی واصلؔ بخاریؒ سے نسبت حاصل کی اور حقیقی علم و عرفان اور حقیقی اسرار و معارف سے آشنائی حاصل کرکر حقیقت عبد و رب، خود شناسی و خدا شناسی کی منازل طے کرکر اپنے ماحول میں اس کی دعوت و تبلیغ شروع کردی اور حقیقی پیری و مریدی پر تا دمِ زیست کار بند رہتے ہوئے نام و نہاد کے جاہل و ضال و مضل پیران و مرشدان کا اپنے کردار و گفتار سے رد فرماتے رہے اور یہ پیغام سناتے رہے کہ فقط رنگینیٔ لباس اور تعویذات و پلیتے اصل عرفان نہیں بلکہ اصل عرفان خدا شناسی ہے جو کہ در اصل مقصد حیات ہے‘ جیسا کہ مفتی سید شاہ مخدوم حسینی آپ کے دادا پیر علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

معرفت کے رنگ سے رنگین دل جس کا نہ ہو
رنگِ ظاہر زنگِ باطن سے نہیں خوبیِ کار

غرض کہ ہر لمحۂ حیات‘ حقیقی تعلیمات صوفیہ اور حقیقی روحِ ایمان و احسان سے اور حقیقی تفہیمِ کلمہ طیبہ سے لوگوں کو ہم کنار کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

خانقاہی نظام دو طریقوں پر ہے؛ ایک حقیقی نظام، اور ایک جعلی نظام ؛ جعلی خانقاہی نظام دو طریقوں پر قائم رہا ‘ ایک تو سراسر دین کی اصل روح و جان توحید سے دور ورطۂ ضلالت و الحاد میں گھر گیا جنہوں نے خود کو خدا بنالیا اور جملہ تکالیف شرعیہ سے دست بردار ہوگئے‘ اور خود گمرہی میں تھے ہی تھے دوسروں کو بھی اس گمرہی میں غرق و ہلاک کردیا۔

دوسرا طریق‘ حکایات، واقعات اور اولیاء اللہ کے قصے واقعے اور قیل و قال ذکر و اذکار کا رہا‘ اگر چہ کہ یہ طریقہ مضر اور نقصان دہ نہیں لیکن حقیقی مقصود بھی نہیں ہے۔ بفحوائے:

زباں سے کہہ بھی دیا لا اِلٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

حقیقی خانقاہی نظام تو دل و نگاہ کو مسلمان کروانا ہے‘فقط زبان سے لا الٰہ کہہ دینا کا نام نہیں کیونکہ حقیقی خانقاہی نظام جو ہے وہ ایک علمی و عملی حیثیت رکھتا ہے جس میں بندہ ماسوٰی سے کٹ کر اپنے خالق و مالک کی بارگاہ سے جٹ جاتا ہے اور اپنی ہستی مجازی کو وجود حقیقی سے پاتا ہے‘ اور قرب کی ان منزلوں میں جاتا ہے کہ جہاں رب کہتا ہے کہ اے بندے اب تیری سماعت جو تجھ سے مضاف ہوتی تھی اب تیری نہ رہی بلکہ حقیقی سمیع سے مضاف ہوچکی ہے‘ اب تیری بصارت حقیقی بصیر سے مضاف ہوچکی ہے‘ اب تیری قوت و قدرت حقیقی قوی و قدیر سے مضاف ہوچکی ہے غرض کہ اس بندے کو جو دیکھتا ہے وہ تجلیات الٰہی کے مظہر کو دیکھ رہا ہے بفحوائے اِذَا رُؤُوْا ذُکِرَ اللہُ کہ جن کو دیکھ لیا جائے روئے جانانہ نظر آنے لگے جن کی رؤیت ذکر الٰہی کے مزے دینے لگے جن کی صحبت کُنْ مَعَ اللہِ اَوْ مَعَ مَنْ کَانَ مَعَ اللہِ یُوصِلُکُمْ اِلَی اللہِ سے تعبیر ہے جو بندوں کو وصال الٰہی سے ہم کنار کرتی ہے۔ یعنی

اللہ اللہ کئے جانے سے اللہ نہ ملے
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملادیتے ہیں

ذکر و اذکار اپنا مقام و حیثیت رکھتے ہیں لیکن بقول حضرت سلطان باھو نقشبندیؒ اَلذِّکْرُ بِلَا فِکْرٍ کَصَوْتِ الْکَلْبِ (رسالہ عین الفقر صفحہ ۶۰) یعنی ذکر اگر بغیر ادارکِ مذکور ہو وہ ذکر ذکر نہیں بلکہ کتے کی بھونک کے مانند ہے۔ غرض کہ عالم قیل و قال سے عالمِ حال کی طرف عالم عقل و خرد سے عالم عشق و جنوں کی طرف بڑھنا حقیقی نظامِ خانقاہ ہے‘ فقط تسبیح و تہلیل ہی مقصد تصوف نہیں بلکہ جو تسبیح کررہا ہے اور جس کی تسبیح و تہلیل کی جارہی ہے ان میں ربط و وصال قائم ہوجائے اور زندگی کا ہر لمحہ اپنی عبدیت اور حق کی معبودیت کو پاتے رہے جو کہ عبادت مطلقہ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا:

محوِ تسبیح تو سبھی ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں

غرض کہ اسی حقیقی خانقاہی نظام کو تازیست حضرت ممدوح فروغ دیتے رہے۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص حضرت قبلہؒ کے چند نشستوں میں بیٹھا اور چند محافل حضرت کے ارشادات سنتا رہا اور بالآخر حضرتؒ سے خارجی طور پر مل کر کہنے لگا کہ حضرتِ صابر حسینی صاحب! میں نے آپ کی محافل تصوف میں بیٹھنے کا شرف حاصل کیا ہے کئی نشستیں ہوگئی ہیں مگر کہیں اولیاء اللہ کے واقعات نہیں سنے‘ تصوف کی محافل ہو اوراولیاء اللہ کا ذکر نہ ایسا ممکن نہیں‘ اور جب کہ ہر وقت آپ اسی بات کی دعوت و ارشاد کا موضوع کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہی رہا کہ کلمہ طیبہ کو جانو! کلمہ طیبہ کے مفاہیم کو اپنے زندگیوں میں جاگزیں کرلو‘ اور کہنے لگا کہ حضرت قبلہ اولیاء اللہ کا بھی تذکرہ فرمادیں اس کے اس سوال پر حضرت سید شاہ صابر حسینی علیہ الرحمہ نے ایک جملہ ارشاد فرمایا کہ: ’’نادان! میں تجھے ولایت کی دعوت و ارشاد دے رہا ہوں اور خود تجھے خاصانِ خدا میں شامل ہونے کا پیغام دے رہا ہوں اور تو ہے کہ ابھی قصہ و واقعات میں گھرا پڑا ہے۔‘‘

یعنی حضرت صابرؒ کے جواب کا مقصود یہ تھا کہ کب تلک وادی تقلید میں اندھا و بہرا پھرتا رہے گا وادیِ تحقیق میں آ! کیونکہ مطلوب الٰہی یہی ہے یٰا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا آمِنُوا یعنی اے ایمان تقلیدی والو! ایمان تحقیقی حاصل کرو کہ اسی میں بصارت و بصیرت ہے برخلاف تقلید کے کہ وہ راہ سے اندھا اور بیساکی کا محتاج ہونا ہے اور بفرمان الٰہی مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِ اَعْمٰی وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی جو یہاں کے عالم میں اندھا ہے وہ در آخرت بھی اندھا ہے۔

امروز نہ دیدی تو اگر روئے صنم را
فردا بہ قیامت رخ جاناں چہ شناسی

غرض کہ حضرت صابر علیہ الرحمہ نے ساری حیات اندھوں کو بینائی دے کر مشاہدۂ حق کرانے کے مشن میں گذاری اور اپنی آنکھوں کو تجلی گاہِ حق بنالیا اور ہر آن خدا کے جلووں سے مستفیض ہوتے رہے اور ہر آن زبانِ حال یہ کہتی ہے کہ

نظر پڑتی نہیں اب غیر پر اس چشم بینا کی
میری آنکھیں تجلی گاہ ہیں اس ذات یکتا کی

اور زبان قال سے ارشاداً اپنے ندیم و رفیق عصر حسرتؔ پیا کا شعر پڑھتے کہ:

توہم ہے توہم ہے نہ قلت ہے نہ کثرت ہے
جو سمجھوں یہ تو حیرت ہے جو نہ سمجھوں تو حیرت ہے

اور فرماتے کہ علم معرفت و تصوف وہ علم ہے کہ اگر اس کو سمجھ لیا جائے تو انتہائے حیرت یہ ہے کہ اے بندہ تو نے وہ بات جان لی اور پالی جو ملک تک نہ پاسکے، اور حیرت نہ سمجھنے پر یہ کہ اے بندے عار ہے اور حیرت ہے تیری ذات پر کہ تو نے اپنے خالق و کریم رب کو نہ جانا۔ المختصر کہ اسی طرح لوگوں کو دامِ غفلت اور جالِ دنیا سے چھڑا کر ذات رب تعالیٰ سے ان کی لو کو لگایا۔ آپ کی ذات سے جس نے استفادہ کیا کیا طُوبیٰ لَھُم اور جو اس سے محروم ہوئے ہوئے ذٰلِکَ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدیْہِمْ بعد اس کے کہ

لے کے خود پیر مغاں ہاتھ میں مینا آیا
لیکن اے بادہ کشو! تم کو نہ پینا آیا

غرض کہ یہ علم و عرفان کا چراغ اپنی تابناکی اور ذرہ نوازیوں کے ساتھ ۲۶؍ ذو الحجہ ۱۳۹۲ھ مطابق 30؍ جنوری 1973ء بروزمنگل کو جامِ بقا کی سرشاری و مستی و بیخودی میں مستغرق ہوکر ذات خدا تک کا موصِل ذاتِ خدا کا واصل ہوگیا۔اور آپ کا مزار مبارک شہر حیدرآباد کے علاقہ فرحت نگر بیرون دبیر پورہ دروازہ آستانہ صابریہ میں مرجع خلائق ہے۔ اور بفرمان الٰہی لَا تَقُوْلُوا لِمَن یَّقْتُلُ فِی سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتا بَل اَحْیَائٌ وَ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُونْ وہ آج بھی اپنے فیض سے مریدین و متوسلین کو اپنے خالق و مالک حاکم ورازق اور اپنے مالوہ سے جوڑتے جارہے ہیں اور اس فیضان کو آپ کے جانشین دلبند فرزند ارجمند الحاج صوفی سید شاہ مظہر حسینی صابری‘ مشیر اعلیٰ عالمی جمعیت المشائخ لٹارہے ہیں۔ بالآخر آپ کی ذات مقدسہ پر کچھ لکھنے کے بعد یہی کلمات پر اختتام کروں گا کہ

ورق تمام ہو اور مدح ابھی باقی ہے

انشاء اللہ آپ کی سیرت مبارکہ پر ایک رسالہ جلد از جلد منظر عام پر آئے گا۔ و باللہ التوفیق۔
٭٭٭

a3w
a3w