مضامین

مسلم لیڈران اور علمائے کرام سے چند مخلصانہ باتیں

ارشد بستوی

آج یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ آئے دن مسلمانوں پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوتی جا رہی ہے، مسلمانوں کے خلاف روز بہ روز زہر افشانیاں کھلے عام ہورہی ہیں، مسلمانوں کو دہشت گرد، ظالم اور اس ملک کا غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ روز بہ روز سوشل میڈیا پر اس ملک کے عوام کو بہکایا اور ورغلایا جا رہا ہے، لوگوں کے سامنے مسلمانوں کا ایک غلط نقشہ پیش کیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے ملک کا ماحول مزید زہر آلود ہوتا جا رہا ہے۔ جب کہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ایسے موقع پر کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، نہ ہمارے پاس سیاسی طاقت ہے، نہ تو ہم متحد ہیں، نہ ہی ہم میں سے مسلمانوں اور اسلام کی نمائندگی کرنے والے صحیح طور پر صورت حال کا اندازہ لگا کر مسلمانوں اور اسلام کا صحیح اور درست نقشہ پیش کر پارہے ہیں۔ ہم جب بھی کوئی ڈبیٹ اوربحث ومباحثہ دیکھتے ہیں تو یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام پر چاہے جیسی آواز اٹھا دی جائے اور ان کا چاہے جیسا نقشہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے مگر کوئی صحیح طور پر مسلمانوں اور اسلام کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کر پاتا، کئی مرتبہ لوگوں کے بہکاوے میں آجاتا ہے، تو کئی مرتبہ اپنے جذبات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور مخالفین کٹھ پتلیوں کی طرح پوری ڈبیٹ میں مسلم نمائندہ کہے جانے والے لوگوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں، اور اپنی بات کہنے اور الزام تراشی کے بعد گفتگو کا رخ جدھر چاہیں موڑ دیتے ہیں، اب اسے ہماری نا اہلی کہیے یا دشمنوں کی شاطرانہ چال، بہر حال ہم میں بھی کچھ کمی تو ضرور ہے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صحیح جانکاری نہیں ہوتی وہ تو ہر اس شخص کو مسلم نمائندہ سمجھتے ہیں جس کا نام بس مسلمانوں والا ہو، چاہے اس کو دین اسلام کی صحیح معلومات ہوں یا نہ ہو، یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے مسلم سیاسی لیڈران کو بھی۔ اور اسی وجہ سے اگر کوئی ایک مسلمان کوئی غلطی یا غلط بیانی کر دے تو اس کا ذمہ دار پوری مسلم قوم کو ٹھہرایا جاتا ہے اور اس کا خمیازہ پورے مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ میں نے بہت پڑھے لکھے لوگوں کو دیکھا ہے جو اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کی گزشتہ شخصیات کے قائل ہیں، لیکن وہ موجودہ دور کے مسلمانوں خاص کر علمائے کرام کرام کو بہت کوستے ہیں۔ کئی لوگ تو سرے سے ہی علما کے خلاف ہیں۔ ان کو اسلام دھرم تو اچھا لگتا ہے لیکن علما اتنے ہی برے بھی لگتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے اس کی کوئی اور وجہ نہیں بلکہ مسلم نمائندہ بن کر منظر عام پر آنے والے لوگوں کی کم علمی اور نا اہلی ہی اس کا سبب ہے۔ ظاہر سی بات ہے وہ تو علما سے ملتے جلتے ہیں نہیں، نہ ہی ان کا مسلمانوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا ہے، وہ تو ٹی وی چینلز کے ذریعے موجودہ حالات پر نظر رکھتے ہیں اور وہی ان کے ہاں ساری دلیل ہے، اب اگر وہیں سے ہی مسلمانوں اور علما کی صحیح تصویر سامنے نہ آ سکے اور وہ مسلم نمائندوں کو کسی قابل محسوس نہ کر سکیں تو وہ کیوں کر ان کے تئیں حسن ظن رکھ سکیں گے؟
اسی طرح میں نے خود اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے کہ اگر لوگوں کے سامنے سچائی اور حقیقت پیش کی جائے تو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں دل چسپی لیتے ہیں۔ مگر ہماری کمزوری اور مجبوری یہ ہے کہ ہم، لوگوں کے سامنے مسلمانوں اور اسلام کی سچائی نہیں پیش کر رہے ہیں اور اسی لیے روز بہ روز حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، اگر ہماری طرف سے اس سلسلے میں کوتاہی ہو تو ہم صرف مسلم دشمن طاقتوں کو کوسنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ ایک غیر مسلم بھائی سے بات ہوئی، اس کے ذہن مین مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات تھے اور مسلمانوں کا ایک منفی تصور اس کے ذہن ودماغ میں بسا ہوا تھا، اس نے کشمیر فائلز کا حوالہ دے کر کہا کہ مسلمانوں کی یہ کیا حالت ہے اور مسلمان ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ میں نے اس کو سمجھایا کہ مسلمان ایسے نہیں ہوتے اور مسلمانوں کا ایک غلط نقشہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو بہکایا جا رہا ہے جھوٹ اور فریب کا سہارا لے کر۔ اور میں نے اس کو کچھ کتابیں سیرت، اسلامی تاریخ اور اسلامی تعلیمات کی پی ڈی ایف میں بھیجیں اور تاکید کی کہ ان کتابوں کو ضرور پڑھو، اس نے کہا فی الحال فرصت تو نہیں ہے لیکن فرصت ملتے ہی ضرور پڑھوں گا۔ لیکن اس وقت بھی میں نے اس کی ذہنیت کو بدلتا ہوا محسوس کیا تھا۔ اور امید ہے کہ ان کتابوں کو پڑھنے سے اس کے بہت سے اشکالات اور غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ لیکن ایک بات اس نے بڑی معصومیت اور بھولے پن سے کہا کہ آخر کوئی کیوں اس طرح جھوٹ اور غلط بیانی کا سہارا لے کر کسی کا غلط تصور پیش کرے گا؟ اس کے بعد میں نے اس کو سمجھایا کہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے انگریزوں کی طرح ” لڑاو¿ اور راج کرو“ کے فارمولے پر عمل کیا جارہا ہے، لیکن ایک بات کا اندازہ مجھے ضرور ہوا کہ اس ملک میں لوگ بڑے سیدھے سادے اور صاف دل کے ہیں، اور چوں کہ ان کا مسلمانوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہیں ہوتا اور اسلام سے انہیں واقفیت نہیں ہوتی، اسی لیے ان کے سامنے مسلمانوں اور اسلام کا جیسا تصور پیش کیا جاتا ہے وہ اسے حق اور سچ سمجھتے ہوے بغیر کسی چوں چرا کے تسلیم کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ان کے سامنے سچائی اور حقیقت پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اسے ماننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اس کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ درشٹی آئی اے ایس (کوچنگ سینٹر) کے بانی ڈاکٹر وکاس دیویکیرتی نے ایک مرتبہ خود اس بات کا تذکرہ طلبہ کے سامنے کیا، جس کی ویڈیو بھی موجود ہے یوٹیوب پر، کہ جب تک وہ کالج نہیں پہنچے تھے وہ بھی مسلمانوں سے حد درجہ بدظن تھے، لیکن کالج میں پہلی مرتبہ ایک شخص سے ملاقات ہوتی ہے، جس کے طور طریقے ان کو اچھے لگتے ہیں، اور اس سے دوستی بھی ہوجاتی ہے، بعد میں پتہ لگتا ہے کہ یہ مسلمان ہے، تو ان کی یہ ساری غلط فہمیاں دور ہوجاتی ہیں مسلمانوں کے بارے میں، اور انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں تب تو بہت ٹھیک ہے۔ انہوں نے خود اس ویڈیو میں یہ کہا ہے کہ ایسا دراصل اس لیے ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے واقفیت نہیں ہوتی اور آپس میں ملنا جلنا نہیں ہوتا۔
اسی طرح جب نومسلموں کے قبول اسلام کی داستانیں پڑھی جائیں تو اس سے بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی نے حق اور سچائی ان تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی، ورنہ اتنی مدت تک وہ کفر وشرک کے اندھیاروں میں نہ بھٹکتے۔ اور اکثر نومسلموں نے مسلمانوں کو ان کی اس کوتاہی پر بہت کوسا ہے کہ کسی نے ان کے سامنے حق نہیں پیش کیا، بھلا خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے۔ اسی طرح مسلمانوں کی موجودہ حالت پر بھی انہوں نے بہت رونا رویا ہے کہ اگر وہ مسلمان ہوے تو مسلمانوں کو دیکھ کر نہیں بلکہ اسلام کو پڑھ کر۔ تو ملاجلا کر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساری غلطیاں غیروں کی ہی نہیں ہیں بلکہ کچھ ہماری بھی ہیں۔
اس لیے ان حالات میں چند کام بہت ضروری ہیں:- (۱) جس طرح ہمارے مدارس میں شعبہ مناظرہ ہوتا ہے اور اس میں دین وسنت کے دفاع کے اصول اور طور طریقے سکھائے جاتے ہیں اسی طرح موجودہ حالات میں اتنا ہی ضروری ٹی وی ڈبیٹس کے لیے قابل اور عبقری مسلم نوجوانوں کو تیار کرنا ہے، جنہیں دین وشریعت کے ساتھ ساتھ سیاست اور موجودہ حالات کی بھی گہری سمجھ ہو۔ اور فی الحال کے لیے بھی کم علم نمائندوں کو ڈبیٹ میں جانے سے روکنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔ اور قابل علماے کرام اپنا یہ فرض سمجھیں کہ دین کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لیے انہیں بھی اس میدان میں آنا چاہیے۔ (۲) اسی طرح تمام مسلم لیڈران کو اپنے اوپر یہ لازم کر لینا چاہیے کہ جس طرح وہ روز بہ روز حالات پر نظر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اسی طرح اپنے دین وشریعت سے واقفیت پیدا کرنے کی بھی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔ اور موجودہ دور میں گوگل پر پی ڈی ایف میں تو بہترین سے بہترین کتابیں تمام علمی اور بڑی زبانوں میں معتبر اور مستند علماے کرام کی موجود ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ دینی اور شرعی کتابوں کے مطالعے کو اپنی روز مرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں۔ (۳) جس قدر ممکن ہو سکے غیر مسلم حضرات سے تعلقات پیدا کیے جائیں اور ان کے سامنے اسلام کی اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی تعلیمات پیش کی جائیں۔ ممکن ہو تو سیرت، تفسیر اور اسلامی تاریخ کی کتابیں انہیں ضرور ہدیہ کی جائیں۔ (۴) جدید بھارت کی صحیح اور سچی تاریخ سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور اس تعلق سے لوگوں کے درمیان جو غلط فہمیاں اور بد گمانیاں پیدا کی گئی ہیں انہیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اسی طرح ائمہ مساجد کو چاہیے کہ اپنے جمعہ کے بیانات میں ان موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو کریں۔ (۵) موجودہ دور میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے دفاع میں ہندی اور انگریزی میں بہترین رسالے تیار کرائے جائیں اور انہیں غیر مسلموں میں تقسیم کیا جائے۔ (۶) اسی طرح کم از کم سول سروسز اور وکالت کے امتحانات دلوائے جائیں نوفارغین مدارس سے۔ اور اس کے لیے باقاعدہ افراد تیار کیے جائیں۔ اگر شریعت کی گہری سمجھ رکھنے والے عدالت میں شریعت کا دفاع کریں گے تو شرعی قوانین کے خلاف فیصلہ آنے کا ریشو ایک حد تک تو ان شاء اللہ ضرور کم ہوگا۔ یاد رکھیں ہم وکیلوں اور دیگر شعبے والوں کو مدارس میں داخلہ لے کر دینی تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتے ۔ چوں کہ یہ ایک بہت مشکل امر ہے ، لیکن مدارس کے نوجوانوں کو ان علوم سے آراستہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے اور دین وشریعت کی حفاظت اور نشر واشاعت کا ذمہ بھی ہمارے سر ہے۔ (۷) اسی طرح مسلمانوں کی اخلاقیات اور معاشرت کا سنورنا بھی نہایت ضروری ہے۔ اس لیے ائمہ مساجد کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو رغبت اور غیرت دلائیں موجودہ حالات پر، اسی طرح انہیں چاہیے کہ آس پاس کے اولیا اور بزرگان سے ربط پیدا کریں اور کم از کم مہینے میں ایک بار ان کے ہاں ضرور حاضری دیں، اس سے باتوں میں اثر پیدا ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ خانقاہوں میں پل بھر میں لوگوں کی زندگیاں اور طور طریقے بدل جاتے ہیں، لیکن مساجد میں ہر ہفتے بیان ہونے کے باوجود کسی ایک شخص کی زندگی میں سدھار اور بدلاو¿ پیدا نہیں ہوتا۔
اگر کم از کم ان باتوں پر عمل کیا جائے تو ان شاء اللہ حالات میں ضرور سدھار آئے گا، لیکن شرط ہے کہ عمل کیا بھی جائے۔ ورنہ جس طرح حالات روز بہ روز بگڑتے جارہے ہیں، اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر ایسے وقت میں بھی ہم خواب غفلت کا شکار رہے تو کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ لوگوں کے درمیان ہمارے خلاف اتنی بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیل جائیں کہ وہ ہماری بات تک سننے کے لیے تیار نہ ہوں اور پھر ہمیں خون کے آنسو رونے پر مجبور ہونا پڑے۔
ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے
پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے
٭٭٭