بھارت

ملک میں گذشتہ 20سال کے دوران نسوانی جنین کشی عروج پر

ہندوؤں میں لڑکیوں کی تعدادمیں سب سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے جس کی ایک وجہ ہندوستان میں رحم مادر میں نسوانی جنین کشی ہوسکتی ہے۔

نئی دہلی: ہندوؤں میں لڑکیوں کی تعدادمیں سب سے زیادہ کمی پائی جاتی ہے جس کی ایک وجہ ہندوستان میں رحم مادر میں نسوانی جنین کشی ہوسکتی ہے۔

پیوریسرچ سنٹرکی ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی ہے۔ محققین نے نیشنل فیملی ہیلت سروے (این ایف ایچایس) کے گذشتہ تین راؤنڈس بشمول پانچویں اورحالیہ راؤنڈ(2019-2020 میں منعقدہ) سے یہ معلومات اخذ کی ہیں۔

واضح رہے کہ مرکزی حکومت نیشنل فیملی ہیلت سروے کرواتی ہے۔ پیوسنٹر واشنگٹن میں قائم غیرمنفعت بخش ادارہ ہے جومختلف موضوعات بشمول آبادیات پرریسرچ کرتاہے۔ موجودہ رپورٹ تیارکرنے والی ٹیم چارافراد پر مشتمل تھی۔

ان کے تجزیہ کے مطابق2000 تا2019کے دوران ماں کے پیٹ میں نسوانی جنین کشی کے نتیجہ میں ہندوستان میں کم ازکم 9ملین لڑکیاں لاپتہ (کم) ہوئی ہیں۔ یہ تعداد اترکھنڈکی جملہ آبادی سے کسی قدر کم ہے۔ ہندوستان میں رحم مادرمیں حمل کاپتہ چلانے کو1994کے قانون کے تحت ممنوع قراردیاگیاہے لیکن اس مقصد کیلئے الٹرا ساؤنڈسہولتوں کا چوری چھپے استعمال جاری ہے۔ حمل میں لڑکی کاپتہ چلنے پراسے گرادیا جاتاہے۔

رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی گروپ کی حیثیت سے ہندوؤں کی تعداد جملہ آبادی کا79.8 فیصد حصہ ہے۔ ملک میں لڑکیوں کی پیدائش میں 86.7فیصد کی کمیہوئی ہے۔ ان لڑکیوں کو اس لئے لاپتہ کہاجارہاہے کیونکہ انہیں پیداہوناتھا اورآبادی کاحصہ بننا تھا لیکن جنین کشی یا حمل ساقط کئے جانے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔صرف ہندوؤں میں 7.8ملین لڑکیوں کی پیدائش روک دی گئی ہے۔

ہندوؤں کے بعد سکھوں کا نمبر آتاہے جن کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا1.7 فیصد حصہ ہے۔ اس برادری میں 4.9 فیصد نسوانی جنین کوساقط کردیاگیاتھا(تقریباً 4.4 لاکھ لڑکیوں کورحم مادرمیں ہلاک کیاگیا)۔ مسلمانوں کی آبادی14فیصد ہے اورانہوں نے تقریباً6.6فیصد(5.9لاکھ) لڑکیوں کوماں کے پیٹ میں ہلاک کیاہے۔

عیسائیوں کی آبادی 2.3 فیصد ہے اوراس برادری میں 0.6 فیصد(50ہزار) لڑکیوں کوماں کے پیٹ میں ختم کیاگیاہے۔اس انداز میں جب لڑکیاں لاپتہ ہوتی ہیں یاختم کی جاتی ہیں تو آبادی میں عورتوں اورمردوں کاتناسب بگڑجاتا ہے اورمردوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔