مکاندار اور کرایہ دار میں اختلاف
مکان کو کرایہ پر دینے اور لینے کا مسئلہ شرعاً معاہدہ ہے ، اورمعاہدات کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اصولی بات فرمادی گئی ہے کہ معاہدات کو پورے کیا کرو

سوال:- میں چار سال سے ایک مکان میں مقیم ہوں ، مکان لیتے وقت طے پایا تھا کہ کرایہ میں ہر دوسال پر ۵۰/ روپے کا اضافہ ہوگا ، مگر موصوف نے دوسال ہونے پر ایک سو پچاس روپے کا اضافہ کردیا ، اب ڈیڑھ سال کے بعد پانچ سو روپے اضافہ کرنا چاہتے ہیں ، کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟ عام طور پر مالکانِ مکان کا رویہ کرایہ داروں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا ، اس سلسلہ میں شرعی ہدایات کیا ہیں؟ (محمد ارشد ، سیتاپور)
جواب:- مکان کو کرایہ پر دینے اور لینے کا مسئلہ شرعاً معاہدہ ہے ، اورمعاہدات کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اصولی بات فرمادی گئی ہے کہ معاہدات کو پورے کیا کرو : أَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ (المائدۃ : ۱)
اس لئے اگر شروع میں یہ بات طے پائی ہو کہ آپ طویل عرصہ تک اس مکان میں رہیں گے ، جب تک مالک مکان کی طرف سے انکار نہ ہوجائے یا کرایہ دار خود مکان چھوڑنانہ چاہیں ، اس وقت تک کرایہ داری باقی رہے گی،
اس صورت میں دو سال پر حسب معاہدہ ۵۰/ روپے کا اضافہ کرنے کا مالک کو حق ہوگا ؛ سوائے اس کے کہ اس سے زیادہ پر دونوں راضی ہوجائیں ،اور اگر مدتِ کرایہ داری دو سال طے ہو ،
اس کے بعد از سر نو کرایہ داری کی تجدید کی بات طے پائی ہو تو ہر دوسال پر فریقین کی باہمی رضامندی سے کرایہ میں اضافہ ہوگا اور مالک مکان نے بطور وعدہ و ارادہ کے کہا ہو کہ اس وقت میں پچاس روپے اضافہ کیا کروںگاتوچوںکہ اس کی حیثیت ایک طرف وعدہ کی ہے نہ کہ دو طرفہ عقد و معاہدہ کی؛ اس لئے اس کی تعمیل واجب نہیں ، کرایہ میں اضافہ کی نئی مقدار فریقین کی رضامندی سے طے پاسکتی ہے ۔
جہاں تک مالک مکان کی زیادتی کی بات ہے تو واقعی یہ ایک اہم مسئلہ ہے اورحقیقت یہ ہے کہ جیسے مالکان مکان کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے ، اکثر اوقات کرایہ داروں کی طرف سے اس سے بڑھ کر زیادتی ہوتی ہے ،
کرایہ دار مکان پر قابض ہوجاتے ہیں ، کرایہ میں اضافہ نہیں کرتے ؛ یہاں تک کہ بعض اوقات خود مالک مکان سے پیسہ وصول کرکے مکان خالی کرتے ہیں اور بعض دفعہ مالک مکان کی طرف سے بھی زیادتی ہوتی ہے ، وہ حسب معاہدہ کرایہ دار کو سہولتیں نہیں پہنچاتے اور پریشان کرتے ہیں ؛
اس لئے صحیح شرعی طریقہ یہ ہے کہ معاملہ طے کرتے وقت ساری جزئیات طے کرلی جائیں ، معاملات میں ابہام نہ رکھا جائے اورتمام امور کو لکھ کر فریقین اپنے اور گواہوں کے دستخط کردیں ،
نیز معاہدہ میں ایک دفعہ یہ بھی ہو کہ اگر ہمارے درمیان کسی بات کے سلسلہ میں نزاع پیدا ہوجائے تو دار القضاء … / شرعی پنچایت …/ فلاں شخصیت حَکم ہوگی، اس سے انشاء اللہ نزاع کا سد باب ہوگا اور عدالتی چارہ جوئی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔