پسماند ہ طبقات کوٹہ‘ تین اہم مسائل کی سماعت کو قطعیت
ان تینوں مسائل میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا اس ترمیم کی وجہ سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور حکومت کو معاشی بنیادوں پر خصوصی گنجائش بشمول تحفظات فراہم کرنے کی گنجائش دی گئی ہے۔
نئی دہلی: چیف جسٹس یویو للت کی زیرقیادت ایک دستوری بنچ نے جمعرات کے روز تین اہم مسائل کو قطعیت دی تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ آیا دستور کی 103 ویں ترمیم جس کے تحت سماج کے معاشی کمزور طبقات (ای ڈبلیوایس) کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10 فیصد تحفظات فراہم کئے جاتے ہیں‘ کی وجہ سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہے۔
ان تینوں مسائل میں یہ بھی شامل ہے کہ آیا اس ترمیم کی وجہ سے دستور کے بنیادی ڈھانچہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور حکومت کو معاشی بنیادوں پر خصوصی گنجائش بشمول تحفظات فراہم کرنے کی گنجائش دی گئی ہے۔
اس امر کا بھی جائزہ لیاجائے گا کہ آیا خانگی غیرامدادی اداروں میں داخلوں کیلئے خصوصی گنجائش فراہم کرنے کی حکومت کو اجازت دینے سے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ بنچ اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ آیا دستوری ترمیم کے ذریعہ ایس ای بی سی/او بی سی/ ایس سی/ایس ٹی کو ای ڈبلیو ایس کوٹہ سے خارج کرنے کے نتیجہ میں بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل آف انڈیا کے کے وینوگوپال نے عدالت کے جائزہ کیلئے تینوں مسائل پر مبنی تجویز پیش کی تھی۔ چیف جسٹس یویوللت نے کہا کہ یہ تینوں قانونی سوالات عدالت کے جائزہ کی بنیاد بنیں گے اور وکلاء بحث کے دوران ان میں توسیع کرسکتے ہیں۔
قانونی اسکالر اور ایڈوکیٹ جی موہن گوپال نے اس کیس کا اے ڈی ایم جبلپور (حبس بیجا) کیس میں ایسے ہی ایک نازک لمحہ سے تقابل کیا ہے۔
اٹارنی جنرل وینوگوپال نے کہا کہ ای ڈبلیوایس کوٹہ میں کریمی لیئر (خوشحال طبقہ) کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا مقصد سماج کے غریب ترین طبقات کو کوٹہ کے فوائد فراہم کرنا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کی جانب سے تجویزکردہ مسائل کی پہلے سماعت کریں گے۔