طنز و مزاحمضامین

چمگاڈر سے ایک ملاقات

ڈاکٹر سید عباس متقی

ایک رات کی بات ہے۔ ہم رات دیر گئے کسی مشاعرے سے لوٹ رہے تھے۔مشاعرے کے معتمد نے دغا بازی فرماتے ہوئے ہمیں مطلوب مشاہر ہ نہ دیا تھا جس کے سبب ہم قدرے مایوس و ملول تھے۔پھر ہم نے اپنے دل کو یوں دلاسہ دے لیا تھا کہ وہ غزل ویسے ہماری تھی بھی کہاں!کسی کہنہ مشق نامعلوم شاعر کی غزل تھی جس کی ردیف بدل کر ہم نے اپنا تخلص پیوست کردیا تھا۔چوری کی غزل پر جو ملا غنیمت تھا۔ہم خود کلامی میں چلے جارہے تھے کہ یکایک جنگل میں دور ایک درخت پر ایک سائے کو الٹا لٹکتے دیکھ کر ہماری گھگھی بند ھ گئی۔اچانک اپنے سر پر ایک بوجھ سامحسوس کرنے لگے جو ایسے وقت شریف طبائع کے ساتھ نا گزیر ہو تا ہے۔ڈرتے ڈرتے جب ہم قریب پہنچے تو معلوم ہو ا کہ وہ ایک چمگاڈر ہے اور پتا نہیں کیوں روایت کے خلاف نیچے کی ڈال پر لٹک رہاہے۔چمگاڈر نے اپنے پروں کو قدرے سرکا کر اپنی بڑی بڑی ڈراونی آنکھیں نکال کر ایک کریہہ قہقہ لگایا۔اس کے قہقہے کی آواز جنگل میں گونج اٹھی اور ہم لرز گئے۔چمگاڈر بھی عجیب بلکہ عجیب و غریب پرندہ ہو تا ہے۔سیاہ چہرہ دو بڑے بڑے اونچے کان، پیچ میں سے پھٹے ہوئے دونوں ہونٹ اور ان پھٹے ہوئے ہونٹوں میں دو نکیلے خطرناک دانت۔بھیانک آواز،پنجوں میں پانچ اور ہاتھو ں میں صرف ایک انگلی اور اس ایک انگلی میں ایک عدد کا ر کر د ناخن۔چمگاڈر کی اس ہیت کو دیکھ کر ہم قدرے خوف زدہ ہو گئے اور گریز پا ہی تھے کہ چمگاڈر کہنے لگا یار آدمی ہو کرچمگاڈر سے ڈرتے ہو۔کیا تم نے نہیں سنا کہ ڈر کے آگے جیت ہے۔ہم نے کہا جب ہم ڈرتے ہیں تو ہمارے آگے جیت نہیں ہو تی،ہار ہو تی ہے کہنے لگا تم بھی اکیلے ہو میں بھی اکیلا ہو ں۔رات تاریک ہے اور تنہائی ہے آؤ کچھ دیر گپ شپ ہو جائے۔چمگاڈر جب آدمی کی آواز میں بولنے لگا توہم پسیچ گئے اور ٹہر کر اس سے بات کرنے لگے۔کہا تو یہ گیا ہے کہ جب کوئی جانور آدمی کی آواز میں بولتا ہے توآدمی کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔آدمی نے اسے آدمی کو دھوکہ دینے کے لیے آدمی کی آواز سکھائی ہے۔لیکن ہم اس فلسفے میں پڑھنا نہیں چاہتے تھے اس لئے گفت و شنید شروع کر دی۔ویسے ہم جب بھی چمگاڈر کو دیکھتے ہیں تو اس کی بد ہیتی و بد صورتی پر عش عش کر نے لگتے ہیں کہ چمگاڈر نے بھی بد صورتی کی کیا معراج پائی ہے۔ہم یہ ضرور سوچتے ہیں کہ خدانے بد صورتی کو کیوں پیدا فرمایاہے جب کہ وہ خود خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند فرماتاہے۔چونکہ اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں اس لیے خدا نے بد صورتی کو پیدا فرمایا ہے تاکہ آدمی حسن و جمال کا عرفان حاصل کرسکے۔بھوک ہی نہ ہو تو رزق کی قدر کیوں کر ہو گی۔بیماری نہ ہو تو صحت چہ معنی دارد،موت زندگی کی پہچان ہو تی ہے۔ہم حسن و جمال کے رسیاہیں لیکن قبیح اشیاء کو دیکھ کر بھی خدا کو یاد کر تے ہیں۔کتنی تعجب خیز بات ہے کہ دن کے پرندوں اور جانوروں کو خدا نے خوب صورت او رلائق دید بنایا ہے جب کہ رات کے پرندے اور جانور بدہیت و بد صورت ہو تے ہیں۔ہرن کو دیکھیے تو بس دیکھتے رہیے۔جب کہ لکڑ بگھے کو دیکھنا طبیعت نہیں چاہتی۔بلبل اور سرخاب کو دیکھ کر آدمی ٹہر جاتا ہے اور الو کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہو تاہے۔یہ سارے انتظامات حضرت انسان کے لیے ہیں۔چونکہ انسان دن کا آدمی ہے، اس لیے اس کے حس جمال کو بروئے کار لانے کے لیے خدائے واحد نے دن کے جانوروں کو خوبصورت بنایاہے تا کہ انسان انہیں دیکھے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرے اور حتی المقدور ان سے اپنے مطلب کے کام لے۔بھیانک راتوں سے انسان کا کوئی تعلق نہیں ہو تا،اس لیے خدا نے رات کے پرندوں اور جانوروں کو بد ہیت و بد صورت بنایا ہے،لیکن صاحب نظر انہیں دیکھ کر عبرت ضرور لیا کر تے ہیں۔چمگاڈر نے پوچھا تم کون ہو۔ہم نے کہا ہم ایک انسان ہیں اور ننگ انسانیت ہیں۔حسن و جمال کے رسیا ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تمہیں دیکھ کر انسانوں کے حسن و جمال سے آج ہی آگاہی ہو ئی ہے۔ہم نے کہا کچھ اپنے بارے میں کہو۔کہنے لگا آدمی کی ایک ہی پرجاتی ہو تی ہے لیکن ہماری تین سو سے کچھ زیادہ ہے۔ایک چمگاڈر آدمی کے انگوٹھے کے برابر ہوتا ہے اور ایک خود آدمی کے برابر۔ہم سے زیادہ کوئی شریف جانور نہیں،ہم وہاں اپنا ڈیرا ڈالتے ہیں جہاں انسانوں کی آبادی نہیں ہو تی لیکن پھر بھی انسان ہم سے ڈرتاہے اور ہمیں منحوس سمجھ کرہم سے دور بھاگتاہے۔ جب کہ آسمان سے آواز آرہی ہے کہ کوئی چیز منحوس نہیں ہو تی۔بے وقوف آدمی دنوں میں منگل کو منحوس اور مہینوں میں صفر کو منحوس سمجھتاہے۔بلی راستہ کاٹ لے تو راستہ بدل لیتاہے۔کوئی چھینک دے تو کام کو روک دیتاہے۔ہاں بعض کاموں کو چھینک آنے پر بھی نہیں روکتا،روکتاکیاروک نہیں سکتا۔
باتیں کرتے کرتے ہم نے چمگاڈر سے پوچھا کہ اے شب تاریک کے رسیا کیا بات ہے کہ ایک عالم شاہ ِ عالم تاب کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔مشرق و مغرب،شمال و جنوب میں ا س کی فیض رسانی کے چرچے ہیں۔وہ شاہِ مشرق جب سمت مشرق سے اپنی صورت نکالتا ہے تودنیا میں کام کاج کی صورت نکل آتی ہے۔آدمی،حیوان،چرند پرندسب اپنے اپنے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔دنیا کا وہ چرخا جو رات میں تاریکی کے سبب رک سا گیا تھا صبح ہو تے ہی پھر چلنے لگتاہے۔سرما میں تولوگوں کو سورج کا اس شدت سے انتظار رہتا ہے کہ نجد کے صحرا میں مجنوں کو لیلہ کا اتنا انتطار نہ رہا ہو گا۔ شاہِ خاورمیں اتنی خوبیاں ہو نے کے با وجود تم اس کی برائی کر تے ہو،کیا تم نے کبھی سورج کی روشنی کو دیکھا ہے۔سورج کے وجود سے تمہیں کیو ں نفرت ہے؟کہنے لگا انسان کی آنکھ جس طرح آفتاب کو دیکھنے سے قاصر ہے بعینہ میں نور آفتاب کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے سورج کے نام سے چڑھ ہے،اگر میں تمہاری طرح کوئی تک بند شاعر ہو تا تو ضرور آفتاب کی ہجو لکھتا اورتاریک گوشوں میں اپنے سیاہ رو یاروں میں ترنم کے ساتھ سناتا اور داد ِ تحسین پاتا۔
ہم نے پوچھا کیا کسی چیز کو دیکھے بغیربھی کسی کے دل میں اس چیز سے جذبہ نفرت پیدا ہو سکتا ہے۔یہ سن کر چمگاڈر نے ایک خطرنا ک آواز میں قہقہہ لگایا اور کہنے لگا،تم نے ساحر لدھیانوی کا نام تو سنا ہوگا۔انہوں نے بھی کبھی تاج محل کو نہیں دیکھا لیکن جس طرح مجھے آفتاب سے نفرت ہے بعینہ انہیں بھی تاج محل سے چڑھ تھی اور بلا وجہ ان کے دل میں تاج محل کے بانی شاہ جہاں سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ان کا خیال تھا کہ دولت کا سہارا لے کر اعلیٰ حضرت شہنشاہ ہندوستان شہاب الدین شاہ جہاں نے غریبوں کو جلانے اور ان غریبوں کی محبت کا مذاق اڑانے کے لیے تاج محل بنوا یاہے۔شاہ جہاں حسن و جمال کے رسیا تھے اور حسن و جمال کے رسیا کا دل ان چھچھوری باتوں سے خالی ہو تا ہے۔ انہیں اتنی فرصت ہی کہاں تھی کہ ان احمقانہ باتوں کی سمت دھیان بھی دے این خیال است و محال است و جنوں۔ساحر نے اپنے بے ہودہ خیالات کو لے کر ایک نظم بہ عنوان ”تاج محل“لکھ ماری اور احمقوں نے دل کھول کر داد تحسین سے انہیں نوازا۔ہر وہ تحریر جو معنی خیز ہو لائق تحسین بھی ہو یہ ضروری نہیں۔پھر ایک قہقہ لگا کر کہنے لگا کہ آفتاب کا دشمن ایک چمگاڈر ہی ہو تا ہے اور تاج محل کاساری دنیا میں ایک ہی دشمن ہے ساحر لدھیانوی۔صحیح بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کسی نے اس عجوبہ دوراں کو دیکھ کر زہر نہ اگلا ہو گا۔تاج محل کو دیکھ کر غیظ و غضب میں زہر اگلنے کا شرف صرف ہندوستان کے ایک شاعر کو حاصل ہے۔ یاد آرہا ہے کہ جب امریکہ کے سابقہ صدر بل کلنٹن نے تاج محل کودیکھا تو فرط مسرت سے کہا تھا کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے تاج محل کو دیکھا ہے اور دوسرے وہ جنہوں نے تاج محل کو نہیں دیکھا آج میں ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہوں جنہوں نے تاج محل کو چشم سر سے دیکھا ہے۔ہر پرندہ سورج کی پہلی کرن پر منھ کھول کر خدا کی تعریف و توصیف کر تا ہے اور چمگاڈر سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی منھ کھول کر سورج کی ہجو کرتا ہے اور اپنا منھ اپنے پروں میں چھپا لیتا ہے۔تم جیسے ہی کسی شاعر نے کیا خوب کہاتھا
تلاش عیب ہی رہتی ہے نکتہ چینوں کو ٭ ہنر کہاں نظر آتے ہیں عیب بینوں کو
شعر پڑھ کرکہنے لگالیکن میں پوچھتا ہو ں کہ مجھ جیسے ایک آ دھ بے عقل جانور سورج پر طعن زنی کر تا ہے تو لوگ پرواہ نہیں کر تے اسی طرح تمہیں بھی کسی چمگاڈر کے تاج محل پر طنزیہ اشعار کہنے پر چیں بہ جبیں ہو نے کی ضرورت نہیں۔دنیا میں دشمنی کا علاج محض گریز کے علاوہ کچھ نہیں۔الٹا لٹکتے اور جھومتے ہوئی چمگاڈر نے انگڑائی لینے کے لیے اپنے پروں کو دور تک پھیلا دیا اور کہنے لگا عقل کے اندھوں کو اس آفتاب سے بھی نفر ت ہو تی ہے جسے خالق کونین نے تمغہ رحمت سے نواز کر اس دنیا میں بھیجا ہے تاکہ ان کے وجود سے دنیاکی تقدیر سنورجائے۔اب یہ اپنی ااپنی تقدیر ہے کوئی وجہ کونین کی تعریف وتوصیف میں سرگرداں رہتاہے تو کوئی نام مبارک تک ادب سے نہیں لیتا۔ہرچمگاڈر کا نصیب لکھدیاگیا ہے،سر پیٹ لینے سے کچھ حاصل نہیں۔کوئی ساحر سے پوچھے کہ حسد ہم مرتبہ اشخاص میں ہو تاہے۔افضل و اسفل کے درمیان نہیں ہو تا۔پھر کہنے لگا واقعی آدمی اپنی حیثیت کو پہچانے بغیر منھ کھول دیا کرتا ہے اور اپنے دہن کریہہ سے ایلوے کی بوئے کثیف کے مرغولوں سے ادب و انشا ء کو مجروح کردیتاہے۔فخر سے سینہ پھلا کر کہنے لگا چمگاڈر لاکھ بد صورت سہی لیکن خدا نے اسے کچھ ایسی انفرادیت بخشی ہے جو کسی اور پرندے کی تقدیر میں نہیں۔ہم نے پوچھا وہ کیا انفرادیت ہے۔کہنے لگا کیا تم نے کبھی سنا ہے کہ پرندے بچے دیتے ہیں۔ہماری مادہ انڈا نہیں دیتی بلکہ بچہ دیتی ہے۔ایک مدت تک دودھ بھی پلاتی ہے اور اسے دود ھ دان بھی ہو تے ہیں لیکن چمگاڈروں کی فیملی میں وہ صرف بچوں کے لیے مختص ہو تے ہیں۔یہ سن کر ہم حیران رہ گئے اور ہماری زبان سے نکلا جسے چاہا جیسا بنا دیا تیری شان جل جلالہٗ۔ہم نے چمگاڈر کی مادہ کو نہیں دیکھا تھا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو چمگاڈر ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ہمیں بہت افسوس ہوا کہ چمگاڈر ہمیں اتنا بد ذوق سمجھتاہے۔ہم نے دلاسہ دیا کہ بھائی ہم اپنی بیوی کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتے تمہاری بیوی کو کیا بری نگاہ سے دیکھیں گے۔یہ سن کرچمگاڈر نے ایک سیٹی جو ماری تو اس کی مادہ کہیں سے اڑتی ہوئی آکر اپنے شوہر نامدار کے بازو ہی لٹکنے لگی۔اس نے اپنے آپ کو اپنے پروں میں سمیٹ رکھا تھا سوائے اس کے بد ہیت و بدصورت چہرے کے ہم کچھ بھی نہیں دیکھ سکے اورہمیں معاً امیتابھ بچن یا دآگئے جنہوں نے اردو ادب کے لالہ زارجناب ِگلزار کی اہلیہ کا گھونگھٹ اٹھا کر گنگنایا تھا
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی باہوں میں
اپنی باہوں میں سمٹنے کا تصور سوائے مادہ چمگاڈر کے کسی اور میں اس درجہ حقیقت پر مبنی نظر نہیں آتا۔سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو ڈھانک رکھا تھا۔ہم نے غور کیا نر کے مقابلے میں مادہ کے چہرے پر اپنی مایہ ناز بدصورتی کے ساتھ ایک نسوانی ملاحت ضرورہویدا تھی۔چمگاڈر یوں تو زندگی بھر منھ لٹکائے رہتا ہے لیکن ضرورت شدید کے موقع پر اپنا منھ اوپر کر لیا کرتا ہے اورخوشی خوشی زمین کی امانتوں کو زمین کے سپرد کردیتاہے۔چمگاڈر میں سونگھنے کی صلاحیت اس بلا کی ہو تی ہے کہ مادہ چمگاڈر لاکھوں بچوں میں سے اپنے بچے کو پہچان لیتی ہے۔ابھی ہم اس سے کچھ اور باتیں کرنا چاہتے تھے کہ اچانک کہنے لگا دیکھو تو ساری دنیا پر تاریکی چھا گئی ہر جانب اندھیرے کا راج ہے اب میرے اُڑنے کا وقت آچلا ہے،پھر کسی تاریک رات یوں ہی سرراہ تم سے ملاقات ہو گی یہ کہتے کہتے وہ بہت اوپر ایک سائے کی طرح بلند ہو گیا اور ہم سوچنے لگے کہ ہر صاحب پرواز چمگاڈر نہ ہو یہ ضروری نہیں۔

a3w
a3w