ولیم مارکویز
ڈنمارک کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں شمار یونیورسٹی آف ساؤتھ ڈنمارک کے ایک ویران تہہ خانے میں ہزاروں کی تعداد میں سفید بالٹیاں شیلفوں میں قطار در قطار رکھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں بے رنگ گیس فارمل ڈیہائیڈ میں انسانی دماغ رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی کل تعداد 9479 ہے۔سنہ 1980 کی دہائی سے اب تک تقریباً چار دہائیوں کے دوران ملک بھر کے نفسیاتی اداروں میں مرنے والے مریضوں کے دماغوں کو پوسٹ مارٹم کے دوران نکال کر رکھ گیا ہے اور یہ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔بہر حال ان دماغوں کو مریضوں یا ان کے قریبی رشتہ داروں کی پیشگی رضامندی کے بغیر محفوظ کیا گیا جس کی وجہ سے ایک ایسی بحث کی ابتدا ہوئی جو اب طویل عرصے سے جاری ہے اور یہ پوچھا جا رہا ہے کہ انسانی اعضاء کی اتنی مقدار کا کیا کرنا ہے۔ بالآخر سنہ 1990 کی دہائی میں ڈنمارک کی اخلاقیات کی کونسل نے طے کیا کہ ٹشوز کو سائنسی تحقیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد اوڈینسی شہر میں موجود یونیورسٹی دماغی بینک کے طور پر کام کرتی ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران اس ذخیرے نے ڈیمنشیا اور ڈپریشن سمیت کئی بیماریوں کے مطالعہ میں سہولت فراہم کی ہے، لیکن اس کا وجود اس بات کو بھی سامنے لاتا ہے کہ پہلے دماغی بیماری کو کس طرح بدنما داغ سمجھا جاتا تھا گزرے ہوئے زمانے میں مریضوں کے حقوق کی کمی تھی۔اس ذخیرے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 1945 سے اکٹھا کرنا شروع کیا گیا اور ڈنمارک کے مختلف حصوں میں نفسیاتی اداروں میں مرنے والے دماغی طور پر بیمار مریضوں کے دماغ نکالے جانے لگے۔ شروع میں ان انسانی دماغوں کو آرہاؤس کے ریسکوف سائیکاٹرک ہسپتال میں رکھا گیا تھا، جہاں انسٹی ٹیوٹ فار برین پیتھالوجی کام کرتی تھی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹر لاش کو قریبی قبرستانوں میں دفن کرنے سے پہلے اس کا معائنہ کرنے اور تفصیلی نوٹ بنانے کے لیے دماغ نکال لیا کرتے تھے۔ اوڈینسی میں دماغی ذخیرے کے موجودہ ڈائریکٹر اور پیتھالوجسٹ مارٹن وائرنفیلٹ نیلسن نے بتایا کہ ‘ان تمام دماغوں کی بہت اچھی دستاویزی تفصیل تیار کی گئی ہیں۔’ ڈاکٹر نیلسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘ہم جانتے ہیں کہ مریض کون تھے، وہ کہاں پیدا ہوئے، اور وہ کب مرے۔ ہمارے پاس ان کی تشخیص اور نیوروپیتھولوجی (پوسٹ مارٹم) کی رپورٹس بھی ہیں۔’ بہت سے مریضوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ نفسیاتی ہسپتالوں میں گزارا، اس لیے پیتھالوجسٹ کی تفصیلی رپورٹس کے علاوہ، ہمارے پاس تقریباً آدھے مریضوں کی طبی تاریخیں بھی ہیں۔ نیلسن نے کہا کہ ‘درحقیقت ہمارے پاس بہت زیادہ میٹا ڈیٹا ہے۔ ہم ڈاکٹروں کے اس وقت مریض پر کیے جانے والے بہت سے کاموں کو دستاویزی شکل دے سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کا دماغ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔’دماغ کے تحفظ کا کام سنہ 1982 میں اس وقت ختم ہوا جب آرہاؤس یونیورسٹی کو نئے احاطے میں منتقل ہونا تھا اور دماغ کی ذخیرہ اندوزی کے لیے کوئی بجٹ نہیں تھا۔ ایسے میں اس پروگرام کو ترک کرنے کی بھی باتیں ہونے لگیں اور ان تمام حیاتیاتی مواد کو تباہ کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ لیکن پھر اوڈینسی میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ڈنمارک نے نکالے جانے والے دماغوں کو اپنے یہاں رکھنے پر اتفاق کیا جسے ڈاکٹر نیلسن نے ‘ریسکیو آپریشن’ سے تعبیر کیا ہے۔
جب کرسٹینسن ایس آئی این ڈی کے صدر تھے، تو وہ یہ فیصلہ کرنے میں شامل تھے کہ دماغوں کے ساتھ کیا کرنا ہے، یہ ایک متنازع مسئلہ تھا جو بحث کے کئی مراحل سے گزرا۔ بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ دماغوں کو مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی رضامندی کے بغیر جمع کیا گیا تھا، لہٰذا اخلاقی نقطہ نظر سے اسے برقرار رکھنا مناسب نہیں تھا۔ لہٰذا انھوں نے اعضاء کو تباہ کرنے یا یہاں تک کہ انھیں ان مریضوں کے پاس دفن کرنے پر تبادلہ خیال کیا جن سے ان کا تعلق تھا، لیکن ہر ایک کی قبروں کی شناخت کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور یہاں تک کہ تمام دماغوں کو ایک جگہ پر اجتماعی طور پر دفن کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔کئی سالوں کے بعد، ملک کی اخلاقیات کونسل نے فیصلہ کیا کہ خاندانوں کی رضامندی کے بغیر سائنسی تحقیق کے لیے ان کا استعمال کرنا اخلاقی طور پر قابل قبول ہے۔ آخر کار ایس آئی این ڈی اس پر راضی ہوگیا۔ کرسٹینسن نے وضاحت کی کہ ‘اس وقت یہ کہا گیا کہ ‘ٹھیک ہے، ہم نے دماغ جمع کر کے ایک بہت ہی غیر اخلاقی کام کیا، لیکن چونکہ ہمارے پاس اب وہ موجود ہیں، اس لیے یہ بھی غیر اخلاقی ہو گا کہ اس مجموعے کو تباہ کر دیا جائے اور اسے تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔’ انھوں نے مزید کہا: ‘میری بنیادی تشویش یہ تھی کہ ایک بار تحقیقات کی منظوری دے دی جاتی ہے تو پھر اس بات کی ضمانت ہونی چاہیے کہ اس منصوبے کو اخلاقی طریقے سے انجام دیا جائے۔’ دماغ کا ذخیرہ اور اس کی تمام دستاویزات، کچھ پابندیوں کے ساتھ، کسی بھی محقق کو اس کے متعلق پروجیکٹ تیار کرنے کے لیے دستیاب ہیں۔ اس میں بین الاقوامی سائنس دان بھی شامل ہیں، لیکن مارٹن ویرنفیلٹ نیلسن کا کہنا ہے کہ انھیں اپنا پروجیکٹ ایک تشخیصی کمیٹی کے سامنے پیش کرنا ہوگا اور ڈنمارک کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ہر دماغ کو فارمالین کی ایک بالٹی میں محفوظ کیا گیا ہے اور پوسٹ مارٹم کے دوران لیے جانے والے اضافی ٹشو کو پیرافین بلاکس میں لپیٹا گیا ہے۔ اسی طرح ان کے پاس بہت سی اصلی مائکروسکوپی پلیٹیں ہیں جو اس وقت بنائی گئی تھیں۔ ڈاکٹر نیلسن نہ صرف ذخیرہ کرنے کا انتظام کرتے ہیں بلکہ مواد کے بہترین استعمال میں محققین کی رہنمائی بھی کرتے ہیں، دماغ کے ڈی این اے میں ہونے والی تبدیلیوں جیسی چیزوں کی جانچ کرنے کے لیے مالیکیولر بائیولوجی کی نئی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نیلسن نے کہا: ‘یہ ایک لاجواب سائنسی وسیلہ ہے اور اگر آپ ذہنی بیماری کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو یہ ذخیرہ بہت مفید ہے۔’ اس ذخیرے کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ در حقیقت سائنسدانوں کا اتنے سالوں پہلے مریضوں کے دماغ کو محفوظ رکھنے کا فیصلہ محققین کی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ‘زبردست’ قدم تھا۔ ‘ہوسکتا ہے، اب سے کچھ عرصہ بعد، شاید 50 سال یا اس سے زیادہ، کوئی آئے اور دماغ کے بارے میں ہم سے زیادہ جانے۔’
کنود کرسٹینسن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس ذخیرے میں دماغی بیماری کے بارے میں نئی دریافتوں کا امکان ہے۔ کرسٹینسن نے کہا: ‘یہ ایک عظیم اثاثہ ہے۔ یہ دماغ اتنے پرانے ہیں اور انھیں ایسے مریضوں سے نکالا گیا ہے جنھیں اینٹی سائیکوٹک ادویات نہیں دی جاتی تھیں (کیونکہ وہ موجود نہیں تھیں)۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ان پرانے دماغوں کا تازہ دماغوں سے موازنہ کر سکتے ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ ادویات کیا تبدیلیاں لاتی ہیں۔ نیلسن نے زور دے کر کہا کہ ‘اس ذخیرہ کی اہم بات اس کی تعداد ہے۔ یہ انوکھا ہے، کیونکہ مثال کے طور پر اگر ہم شیزوفرینیا جیسی پیچیدہ بیماری کے متعلق تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو ہم صرف ایک دو دماغ تک محدود نہیں ہوں گے۔ اس منصوبے کے لیے ہمارے پاس 100، 500، یہاں تک کہ ایک ہزار دماغ بھی ہوں گے اور ہم اسی پروجیکٹ کے تحت یہ دیکھنے کے قابل ہوں گے مختلف حالتوں میں دماغ کو ہونے والے نقصانات کیا ہیں۔ دوسری صورت میں ہم اس قابل نہیں ہو سکتے تھے۔