مضامین

ہر محاذ پر ناکام

ڈاکٹر محمد صفوان صفوی

بی جے پی کو حکومت کرتے ہوئے ۹ سال ہوگئے۔ آئندہ سال اس کی دوسری میعاد ختم ہونے والی ہے اور ملک ایک بار پھر انتخابات کے عمل سے گزرنے کو ہے۔ موقع آگیا ہے کہ تجزیہ کیا جائے کہ گزشتہ نو برسوں میں بی جے پی نے کیا کیا کیا۔ کن کن محاذوں پر کامیاب ہوئی اور کن محاذوں پر ناکام۔ ملک کی زمامِ اقتدار ایک بار پھر اس کے ہاتھوں میں دینا صحیح فیصلہ ہوگا یا غلط۔ یوں تو مودی جی کے بھکتوں کا دعویٰ ہے کہ ترقی کی کوئی بات نہ مودی جی سے پہلے کبھی ہوئی تھی اور نہ مودی کے بعد آسانی سے ممکن ہے، لیکن ظاہر ہے یہ ان کا ذاتی اعتقاد ہے جس سے حقیقت کا زیادہ واسطہ نہیں۔ بھکتوں کی بات تو آستھا میں ڈوبی ہوتی ہے جس کے لیے ایمان بالغیب ہی کافی ہے، وہ باتیں سچ بھی ہوں یہ ضروری نہیں۔ بعض بھکتوں کو تو یہاں تک کہتے سْناگیا ہے کہ آزادی کے پچھتر سالوں میں ایسا کوئی جامع الجہات اور ہردلعزیز وزیر اعظم ہوا ہی نہیں جیسے موجودہ وزیر اعظم ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کی قباتو بس ان کے ہی بدن کو زیب دیتی ہے کیوں کہ یہ ان کے لیے ہی بنی ہے، لیکن جذبات سے حقائق کافیصلہ ممکن نہیں۔ آئیے جذبات سے عاری ہوکر حقائق سے آنکھیں چار کی جائیں اور دیکھا جائے کہ مودی جی عمل کے اعتبار سے نوری ہیں یا ناری۔ ان کو بھکتوں سے جو خطاب عطا ہوا ہے یا بھکتوں کو مودی جی سے جو اعتقاد ہے وہ اس کے مستحق بھی ہیں یا نہیں۔ یا صرف مذہب کے نام پر معصوم عوام کے جذبات سے کھیل کر سنگھاسن پر ناجائز قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ہندو مسلم اور مسجد مندر کر رہے ہیں۔ ان کی حصولیابیاں کیاکیا ہیں۔ اگر ایک سرسری نظر سے بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ حکومت نے بے روزگاری، مہنگائی بھوک اور غربت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہاں امبانی اڈانی رام دیو جیسے چند سرمایہ داروں کی ضرور ترقی ہوئی۔ انھیں قوم کے خزانے پر بار ڈال کے خصوصی مراعات دی گئیں۔ لہٰذا انھوں نے خوب ترقیاں کیں۔ ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہوا، لیکن غریب اور غریب تر ہوتے چلے گئے۔ کمر توڑ مہنگائی نے انھیں نانِ شبینہ سے بھی محروم کردیا۔ بے روزگاری کا تو یہ عالم ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ ایم اے پی ایچ ڈی لوگ آٹو رکشہ یا الیکٹرونک رکشہ چلا رہے ہیں۔ ملک کی اعلیٰ سے اعلیٰ ترین ڈگری کی بھی کوئی وقعت نہیں رہی۔ سرکاری صنعتوں اور اداروں کو پرائیوٹ کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ ان کی نِجکاری کردی گئی۔ رسوئی گیس۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں سو سے دو سو فیصد تک بڑھادی گئی، ان کو ایک بار چڑھ کے پھر اترنا نصیب نہیں ہوا۔ انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ بِدیسوں سے کالادھن واپس لایا جائے گا،وہ اتنی بڑی رقم ہوگی کہ ہر غریب آدمی کے اکاؤنٹ میں فی کس پندرہ لاکھ روپے کریڈٹ ہوں گے، لیکن لوگ انتظار کرتے رہ گئے پندرہ نئے پیسے نہیں آئے۔ بِدیس کے بینکوں سے کالادھن لانے کی بات تو دور رہی یہاں کے بنکوں سے پیسے لے کر لوگ بِدیس بھاگ گئے۔ کالے دھن کو ختم کرنے کے نام پر نوٹ بندی کی گئی اور کہا گیا کہ کالادھن جمع کرنے والوں کو روپوں کی ٹال میں آگ لگانی پڑے گی لیکن ہوا کیا۔ سرمایہ داروں کا کالادھن راتوں رات وہائٹ ہوگیا اور عوام الناس کو کئی برس تک اپنے پس انداز کئے ہوئے پیسوں سے بھی محروم رہنا پڑا۔ ان کے کاروباربند ہوگئے۔ ان کی شادیاں رک گئیں۔ میں نے تو نہیں سنا کہ نوٹ بندی سے کسی سرمایہ دار کی پیشانی پر پسینہ بھی آیا ہو۔ یا کسی سرمایہ دار نے اپنے کالادھن کے ذخیرے کو نذرِ آتش کیا ہو۔ ہوسکتا ہے کسی اندھ بھکت نے پھوس کی ٹال میں آگ لگا کر مشہور کردیا ہو کہ فْلاں جگہ روپیوں کے ڈھیر میں آگ لگائی گئی۔ میں نے ابتدا ہی میں لکھ دیا تھا کہ بھکتوں کا حال بعینہ مریدوں جیسا ہے۔پیراں نمی پرند مْریداں می پرانند۔ پیروں میں کوئی اہلیت نہیں ہوتی مْرید گْن گان کرکے انھیں صاحبِ کرامت بنادیتے ہیں۔ بھکت بھی ان کے ہرعمل کا جواز تلاش کرتے رہتے ہیں اور جب کچھ نظر نہیں آتا تو جواز پیدا کر لیتے ہیں۔ بھکتوں میں صرف جاہل ہی نہیں ہیں، پڑھے لکھے ڈاکٹر پروفیسر حتیٰ کہ چانسلر،وائس چانسلر اور دانشور بھی ہیں۔ ان کے تعلیمیافتہ ہونے میں شبہ نہیں، لیکن ان کے تعصب نے ان کی آنکھوں پر پٹیاں ڈال دی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے زمانے میں محنت مزدوری کرنے والوں کو دو برس تک فاقے کڑاکے سہنے پڑے۔کوئی ان کا پُرسانِ حال نہ رہا۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں اپنوں نے بھی آنکھیں پھیرلیں۔ بڑے تاجروں کا بھی نقصان ہوا لیکن ان کے پاس سرمائے کی کمی نہیں تھی ٹٹ پونجیوں کا تو کاروبار ہی ٹھپ ہوگیا، آج تک ان کی باز آبادکاری نہیں ہوسکی۔ وہ اب تک اس کی مار سہہ رہے ہیں۔ حکومت کو ریلیف کے پہنچانے کے لیے اربوں کھربوں روپے ملے۔ سب کا سب ویکسینیشن کے نام ہر خورد برد کردیا گیا حالانکہ آج تک ویکسینیشن کی افادیت بھی مشکوک ہے۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سے بھارت کی جنتا کو نادرو نفیس تحائف دیئے جائیں گے مگر آج تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ گویا وعدے نہیں تھے سیمیا کی نمود تھی۔ بھوکے آدمی کو روٹی کے ٹکڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، نادرو نفیس تحائف کی نہیں۔ جان بچی تو لاکھوں پائے۔ زندہ رہیں گے تبھی دوسری چیزیں کام آئیں گی۔ تعلیم اتنی مہنگی کردی گئی کہ غریب کا بچہ اگر کچھ پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کی محنت اور جفاکشی کا کمال ہے۔ تعلیم کا معیار اس قدر گِرادیا گیا کہ ملک کی ایک بھی یونی ورسٹی عالمی درجے کی رینکِنگ میں ایک سو یونی ورسٹی میں نہیں شمار کی گئی۔ کہنے کو ہماری تہذیب دنیا کی گِنی چْنی چند قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ہم پرانے متمدن لوگ ہیں۔ ازمنہ قدیم میں بھی پوری دنیا سے لوگ حصولِ تعلیم کی غرض سے یہاں آیا کرتے تھے۔ نالندہ یونی ورسٹی کی تاریخ گواہ ہے لیکن آج ہمارے طلبہ استعداد اور استناد کے لیے بیرونِ ملک کا سفر کرتے ہیں، کیوں کہ ہماری یونی ورسیٹیاں اب کارگاہِ مہ و انجم نہیں رہیں۔ اتنے وسیع وعریض ملک میں گِنی چُنی چند مرکزی یونی ورسیٹیاں ہیں، ان میں بھی آج تک تعلیم و تحقیق کا صحیح ماحول پیدا نہیں کیا جاسکا۔ آج بھی نالندہ ہی پر فخر ہے۔ البتہ بی جے پی کا اگر کوئی کارنامہ ہے تو وہ مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کا۔ اسے یہاں کی بڑی اقلیت اور اس کے مذہب سے سخت نفرت ہے۔ دراصل اس کا وجود ہی اس نفرت پر قائم ہے۔ لہٰذا وہ ہمیشہ اس قسم کے شوشے چھوڑتی رہتی ہے تاکہ اس کا ووٹ بینک منتشر نہ ہو۔ اگر ملک کے لوگ سیکولر ہوگئے تو پھر اس کا کیا بنے گا۔ وہ اپنے ووٹرس کی خوشنودی کے لیے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے بھوئی پٹکے چھوڑتی رہتی ہے۔ اگرچہ ان بھوئی پٹکوں سے اسلام کی عمارت متزلزل نہیں ہو سکتی، البتہ اس کا کام وقتی طور نکل ہی جاتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ہندوستان کے لوگ اپنی ضعیف الاعتقادی میں پوری دنیا میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔ مذہب ان کے لیے مثل افیون کے ہے۔ اعتقاد میں عقل کو راہ نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ بجرنگ بلی اور شری رام کے نعرے لگواکر ان کی بُدّھی ہر لیتے ہیں۔ پھر انھیں انسانیت کا کوئی پیغام یاد نہیں رہتا۔ حالانکہ مودی جی ایک سیاسی رہنما ہیں کوئی دھرم گْرو نہیں لیکن مذہب کے دیوانے اور ہندو دھرم کے پروانے انھیں دھرم گْرو سمجھتے ہیں بلکہ آخری نجات دہندہ۔ اس لیے ان کااعتماد جیتنے کے لیے مودی جی کو بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتاہے۔ انھوں نے ہی کشمیریوں کی خودارادیت کا خاتمہ کیا۔ انھوں نے ہی عدالت کے ذریعے بابری مسجد کا فیصلہ کرایا۔ انھوں نے ہی اس کی تعمیر کے لیے رقم فراہم کی۔ وہی ملک کے اہم مسائل سے نظر بچاکر حجاب اور طلاق جیسے قومی نوعیت کے مسائل اٹھاتے رہتے ہیں۔ دوسرے لوگ مثلاً مدھیہ پردیس اور آسام کے وزیر اعلیٰ تو محض ان کے متبع ہیں۔ اگر مودی جی ہمت نہ کرتے تو ان کی زبان بھی نہ کْھلتی۔ الناس علیٰ دینِ مْلوکھم اب تو ملک کا بچہ بچہ اسی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت انھوں نے ہی بنوائی۔ انھوں نے ہی اشلوکوں سے اس کا افتتاح کیا انھوں نے ہی سنگول نصب کیا اور اس کی عجیب وغریب خودساختہ تاریخ بتائی۔ ہندوراشٹر کا خواب انھوں نے ہی دکھایا اور اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کا اقدام بھی انھوں نے ہی کیا۔ ہندو راشٹر کی تعمیر کے لئے انھیں ہندوستان کی مدوَّن تاریخ پر اطمینان نہیں تھا۔ اس کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کے لیے حذف وترمیم سے کام لیا گیا۔ انھوں نے ہی اردو اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے مقامات کے ناموں کو بدلنے کی مہم شروع کی۔ مغل سرائے جنکشن کو دین دیال اُپا دھیائے جنکشن، مغل گارڈن کو امرت اُدیان، فیض آباد کو ایودھیا اور ابھی کوششیں ختم نہیں ہوئیں۔ اورنگ آباد۔ نظام آباد۔ حیدرآباد وغیرہ زد پر ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ مٹانے والے خود مٹ جائیں گے مگر ہندوستان سے مسلمانوں کے آثار نہیں مٹائے جاسکتے کیوں کہ ان کے نقوش تو ذرے ذرے پر ثبت ہیں۔این آرسی کے ظالمانہ قانون کے پسِ پردہ بھی مسلم دشمنی ہی کام کر رہی تھی۔ اب کچھ دنوں سے تاریخ کو بدلنے کی مہم شدو مد سے چل رہی ہے۔ مغلوں کے بعض اسباق نکال دیے گئے۔ گاندھی جی کے بعض نظریات سے چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ ان کی جگہ ساورکر کے نظریات کو داخل کیا گیا۔ اب علامہ اقبال کو جو تقسیم سے تقریباً گیارہ سال قبل ہی دنیاے فانی سے رِحلت کرگئے تھے بٹوارے کے نظریات کی بنیاد فراہم کرنے والا قرار دے کر ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ اسکولوں میں ان کے لکھے ہوئے ترانے اور دعا پڑھنے پر سزائیں دی جارہی ہیں۔ وہاں تو صرف سرحد تقسیم ہوئی تھی، ان لوگوں نے تو ایک دیس کے رہنے والوں کو ذات اور مذہب کے نام پر آپس میں نہ جانے کتنے خانوں میں تقسیم کردیا ہے اور نفرت کے ایسے بیج بو دیے کہ صدیوں تک اس کے پودے لہلہاتے رہیں گے۔ دیکھنا یہ کہ گوتم اور گاندھی کے دیس کے رہنے والے کی انکھوں پر تعصب کی پٹی کب تک بندھی رہتی ہے اور کب تک خود غرض رہنماؤں کے ہاتھوں ان کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔