ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
میزورم کے بشمول تین شمالی ریاستوں میں کانگریس کی ہار کے باوجود اگر پانچ اسمبلیوں یعنی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان ، میزورم اور تلنگانہ کے ووٹوں پر نظر ڈالی جائے تو کانگریس پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے 9 لاکھ 44ہزار ووٹ زائد حاصل ہوئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کانگریس پارٹی ووٹوں کے تناسب کے اعتبار سے عوام کی پہلی پسند ہے۔ اگر ان ووٹوں کے تناسب میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو یقینا کانگریس پارٹی لوک سبھا کے چناؤ میں مزید بہتر مظاہرہ کرپائے گی۔ راہول گاندھی کی زیر قیادت بھارت جوڑو یاترا کے بعد کانگریس عوام سے قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ ان پانچ اسمبلیوں کے چناؤ میں کانگریس پارٹی کو 4کروڑ 90 لاکھ 77 ہزار 907 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ وہیں پر بی جے پی کو 4 کروڑ 81 لاکھ 33ہزار 463 ووٹ ملے۔ یہ بات پوری طرح ثابت ہوگئی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے پرانے کمیونل ایجنڈے کو بروئے کار لاکر عوام کو مذہبی خطوط پر بانٹ دیا۔ یہ ایک ایسا مذموم عمل ہے جو ملک کو بدترین اندھیرے میں ڈھکیل دے گا۔ اب بھی وقت نہیں بگڑا بھارتیہ جنتا پارٹی کو چاہئے کہ وہ معاشی مسئلوں پر رائے دہندوں کے سامنے آئے اور اپنے فلاحی پروگراموں کی بنیاد پر عوام سے خط اعتماد حاصل کرے۔ فرقہ پرستی کی یہ نہج نہ صرف ملک کو بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی شدید سیاسی نقصان پہنچائے گی۔ گلی کے لیڈر سے لے کر دلی کے لیڈر نریندر مودی نے فرقہ پرستانہ انداز کو اپنا کر الیکشن تو جیت لیا لیکن نفرت کے بیجوں کی مزید آبیاری کردی ۔ کانگریس پارٹی میں اس مظاہرہ کے بعد ایک نئی حرارت آگئی ہے اور وہ اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لئے متحرک بھی ہوگئی ہے تاکہ مستقبل کے چناوی میدان میں اپنے مخالفین سے ڈٹ کر مقابلہ کیا جاسکے اور کامیابیاں حاصل کی جاسکے۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس ‘بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نیا لائحہ عمل تیار کررہی ہے تاکہ ملک کو ان زہریلے خیالات سے نجات دلائی جاسکے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں نے متفقہ ووٹوں سے گریز کیا جس کے نتیجہ میں مسلم امیدوار خاص طورپر کہنہ مشق ریاستی لیڈر محمد علی شبیر کو نظام آباد میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ وہیں بودھن میںبی آر ایس کے رکن اسمبلی بھی مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے چناو ہار گئے۔ محمد علی شبیر کے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی کہ مسلمان دو خانوں میں بٹ گئے ۔ ان کے مخالفین خاص طورپر کے کویتا نے مسلمانوں کے ذریعہ ہی شبیر کو ہرانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ انہوں نے اکثریتی علاقوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور صرف مسلمانوں کو ہی اپنا ہمنوا بنایا اور لا شعوری میں مسلمان محمد علی شبیر کو ہرانے کی غلطی کر بیٹھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک جٹ ہوکر ان کمزوریوں پر غور کریں اور مستقبل کے تمام چناؤوں میں مضبوط سیکولر پارٹی کو اپنا ووٹ دیں تاکہ ان کی ترقی کی ضمانت مل سکے۔ قومی سطح پر بار بار یہ بات دہرائی گئی کہ مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے روکا جائے ورنہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 7؍ڈسمبرکو جب ریونت ریڈی کے ساتھ ان کی کابینہ نے حلف لیا تو مسلمانوں نے دیکھا کہ ریاست آندھراپردیش کی تشکیل کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم نمائندگی کابینہ میں ندارد تھی۔ بہت سے بزرگوں نے اس امر پر صدمے کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کو یہ دن دیکھ کر بڑا افسوس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کس کا گلا کیا جائے ہونٹ بھی اپنے ہیں اور دانت بھی اپنے ۔ اگر کوئی مسلم نمائندہ جیت کر اسمبلی میں آیا ہوتا تو ضرور وہ وزیر بنتا۔ اس کے ذمہ دار پارٹی کے قائدین کے علاوہ مسلمان بھی ہیں۔ جب بھی چناؤ آتے ہیں مسلمان ایک جٹ ہو نہیں پاتے کچھ نام نہاد مسلم تنظیموں نے کانگریس کا ساتھ دیا تو کچھ بی آر ایس کے ساتھ گئے۔ یہ پارٹیاں کیوں بٹی اس پر راز کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ تحقیقاتی صحافی اس پر ضرور روشنی ڈال سکیں گے۔ بہرحال پارلیمنٹ کے چناؤ مئی میں ہونے والے یہ کوئی عام چناؤ نہیں ہوں گے بلکہ اس چناؤ کے ذریعہ ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ سیکولر جماعتوں کویہ چناؤ ہر حال میں جیتنا ہوگا تاکہ اقلیتوں کے بشمول کمزور طبقات کو چین و امن کی زندگی دستیاب ہوسکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور خاص طورپر مودی کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگاتے تھے لیکن اس بار جنوبی ہند ‘ بی جے پی مکت کا حصہ بن رہا ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس سے مسلم قیادت ابھاری جاتی ہے تو اس کا فائدہ لوک سبھا کے چناؤ میں حاصل ہوگا۔ اسمبلی کے 47 حلقے ایسے ہیں جہاں پر مسلمانوں کو فیصلہ کن موقف حاصل ہے۔ وقت گنوائے بغیر کانگریس کو چاہئے کہ وہ کابینہ کی جلد از جلد توسیع کرے اور اس میں مسلمانوں کو وسیع نمائندگی دی جائے۔ یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ درجِ فہرست طبقات ، قبائل اور پسماندہ گروپ کو کابینہ میں اچھی نمائندگی دی گئی ہے۔اب جبکہ راہول گاندھی اور خاص طورپر I-N-D-I-A پسماندہ طبقات کی مردم شماری کی بات کررہے ہیں تو اس سے مسلمانوں کے بشمول تمام کمزور طبقات کو فائدہ پہنچے گا اور یہ چناؤ میں انڈیا بلاک کا بہت بڑا ہتھیار ہوگا۔ شمال کی تینوں ریاستوں میں یہی کارڈ بی جے پی نے کھیلا ہے یعنی اس نے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے اپنے ارکان پارلیمان کو اسمبلی چناؤ میں اتارا تاکہ انہیں یہ پیغام دیا جاسکے کہ ان ہی میں سے ایک ان ریاستوں کا چیف منسٹر ہوگا۔ اس کا وہاں پر اچھا اثر پڑا جس کے باعث پارٹی کو جیت ملی۔ اس دوران پتہ چلا ہے کہ راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا دوم کا آغاز کریں گے تاکہ نفرت پر محبت کی سیاست کو غالب کیا جاسکے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے جانہ ہوگا کہ ہندو بھائیوں کے جتنے بھی تہوار ہوتے ہیں وہ بدی پر نیکی کی فتح کہلاتے ہیں۔ آپ اگر اپنے فرقہ کی یا اپنے طبقہ کی خدمت کرتے ہیں تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن آپ جب دوسرے مذہب سے اور فرقہ سے نفرت کرتے ہیں تو یاد رکھئے کہ آپ اپنے مذہب کے خلاف کام کررہے ہیں کیوں کہ کسی بھی مذہب میں دوسروں کو نقصان پہنچانے کی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ راہول گاندھی کی یاترا یقینا لوگوں کے دلوں کو چھو ئے گی اور سارے ملک کو پیار محبت اور بھائی چارہ کا پیغام دے گی۔ انڈیا بلاک میں اختلافات کی بات افواہوں کے سیوا کچھ بھی نہیں۔ کجریوال ، ممتا بنرجی ، اکھلیش یادو کے علاوہ راہول گاندھی خود نے بھی یہ کہا کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہرانے کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ جب قربانی کا جذبہ عام ہوجاتا ہے تو یقینا جیت قربانی دینے والوں کے حصہ ہی میں آتی ہے۔ اس پس منظر میں مجروح سلطانپوری نے کیا خوب کہا ہے کہ ؎
روک سکتا ہمیں زنداں بلا کیامجروح ؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
۰۰۰٭٭٭۰۰۰