مضامین

ہندوستان میں سائنسی پیش رفت

جب ملک کوآزادی ملی اس وقت بھی کم وبیش سائنس کا یہ تصور عام ذہنوں میں موجود تھا۔ لیکن ہمارے ملک کا قائد یعنی وزیراعظم ایک ایسا انسان منتخب کیا گیا جونہ صرف ایک صاف ذہن کامالک تھا بلکہ سماج میں سائنسی رویہ اور رجحان کازبردست وکیل بھی تھا۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

1920ء کے بعد ہندوستان میں انگریزی سامراج نے سائنس اورٹیکنالوجی کی جانب توجہ ضرورکی لیکن ایسا کرنے کا ان کا مقصد ہندوستانی عوام کو سائنس سے روشناس کرانا نہ تھا بلکہ سائنس کی مدد سے اس ملک پر اپنے تسلط کی میعاد بڑھانا تھا۔

چنانچہ اس دور میں عام ہندوستانی سائنس کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا تھا۔ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی تھی جو سائنس کے تذکرہ کو غیر مذہبی عمل ہی نہیں بلکہ مذہب دشمنی تصور کرتے تھے۔ 1947ء میں جب ملک کوآزادی ملی اس وقت بھی کم وبیش سائنس کا یہ تصور عام ذہنوں میں موجود تھا۔ لیکن ہمارے ملک کا قائد یعنی وزیراعظم ایک ایسا انسان منتخب کیا گیا جونہ صرف ایک صاف ذہن کامالک تھا بلکہ سماج میں سائنسی رویہ اور رجحان کازبردست وکیل بھی تھا۔

آزادی ملنے کے بعد جب 1947ء میں پوری منسٹری  وجود میں آئی تو اس وقت غالباً دنیامیں پہلی بار Scientific Research and Natural Resources کا شعبہ قائم ہوا۔ 1947ء میں  کاؤنسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی نئے سرے سے تشکیل کی گئی۔ متعدد نئی تجربہ گاہیں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم کی گئیں۔ آزاد ہندوستان میں اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار تیز ترکرنے کے لئے سائنٹفک پلاننگ ہونی چاہئے۔

لہٰذا 1950ء میں پلاننگ کمیشن وجود میں آیا۔ لوک سبھا میں 4؍مارچ 1958ء کو نیشنل سائنٹفک ریزولیوشن پیش کیا گیا۔ اس ریزولیوشن کے ذریعہ ملک میں سائنس اور ٹیکنا لوجی کی ترقی کے لئے ایک نئی سمت عطا کی گئی۔ اس سے قبل 1947ء میں Scientific Manpower Committee  قائم کی جاچکی تھی ۔ 1954ء میں Department of Atomic Energy قائم کیاگیا- آج اس شعبہ سے متعلق اداروں کی سائنسی کامیابیاں ملک کے لئے باعث افتخار سمجھی جاتی ہیں۔

 آزادی حاصل کرنے کے بعد ہی زراعت میں نئے سائنسی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا گیا۔ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اناج میں خود کفیل ہے اور سبز انقلاب سے ہمکنار ہے۔ ملک میں کئی Indian Institute of Technology قائم کئے گئے جہاں کے انجینئروں نے ملک میں صنعتی انقلاب لانے میں بڑی مدد کی ۔

ہندوستانیوں نے ہمیشہ ہی  سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب، ویدک دور اور بعد کے ادوار میں سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہندوستانیوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ جدید دور میں بہت سے ہندوستانی سائنس دانوں اور ریاضی دانوں نے غیر معمولی کام کیا ہے اور ان میں سے کچھ نے ٹیکنالوجی میں سائنس میں ان کی شراکت کے لیے نوبل انعام جیسے اعزازات بھی حاصل کیے ہیں۔

ہندوستان ان ممالک کے منتخب گروپ میں شامل ہے جنہوں نےخود ہی  ایٹمی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔ ہندوستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں بیلسٹک میزائل تیار کیے گٗئے ہیں۔ خلائی سائنس کے میدان میں ہندوستان کے پاس جی ایس ایل وی کے ذریعہ سیٹلائٹ لانچ کرنے کی صلاحیت ہے۔

مختصر یہ کہ  ہندوستانی سائنسدانوں نے ہندوستان کی ترقی میں حیران کن طور پر حصہ لیا ہے۔ انہوں نے اپنی سائنسی کامیابیوں سے ہندوستان کی حیثیت کو بڑھایا ہے اور بہت سے ہندوستانی سائنسدانوں کو کچھ باوقار بین الاقوامی اعزازات بھی ملے ہیں۔  ہندوستانی سائنسدانوں کی دریافتوں کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان نے کئی عظیم سائنسی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہندوستانی سائنسدانوں نے عالمی سطح پر اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کو دنیا کے سائنسی مراکز میں سے ایک بنا دیا ہے۔ اے پی جے عبدالکلام،  ہومی بھابھا، سالم علی، چندر شیکھر، بیربل ساہنی،  شیوا نند پائی، ستندر ناتھ بوس، سی وی رمن، اور بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے سائنسی میدان میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔

ہندوستان آج بہت بڑے پیمانے پر ایلوپیتھک دوائیں تیار کر رہا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کے مختلف ممالک کو سستی، موثر ادویات اور ویکسین فراہم کر رہا ہے ۔ حکومت نے 1954 میں ہندوستان اینٹی بائیوٹکس لمیٹڈ قائم کی۔ اس کے بعد انڈین ڈرگس اینڈ فارماسیوٹیکل لمیٹڈ قائم ہوئی۔ 

شعبہ دفاع میں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) (1958) نے پڑوس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک طاقتور دفاعی نظام بنانے میں ہندوستان کی مدد کی ہے۔ ہم نے ہوائی جہاز، اسلحہ، ٹینک، ای ڈبلیو سسٹم، میزائل سسٹم وغیرہ بنائے ہیں۔ 1974 میں پوکھران میں پہلا کامیاب ایٹمی تجربہ کرنے کے بعد بھارت بھی ایٹمی طاقت بن گیا۔

خلا کا سفر وکرم سارا بھائی نے 1969 میں انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) کے قیام میں مدد کرتے ہوئے شروع کیا جو کہ خلائی تحقیق میں ہماری پیشرفت کا سنگ بنیاد ہے۔ ہمارا پہلا سٹیلائٹ، آریہ بھٹ 1975 میں سوویت یونین کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دو کامیاب خلائی مشن، چندریان (2008) چاند اور منگل یان (2014) مریخ کے مدار میں بھیجے گئے۔ منگل یان نے بھارت کو پہلی کوشش میں مریخ کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا پہلا ملک بنا دیا۔

آئی ٹی انڈسٹری آزادی کے بعد ڈیٹا پروسیسنگ انڈسٹری پر IBM اور ICL کا غلبہ تھا۔ سرکاری شعبے، مسلح صنعت اور تحقیقی ادارے ان فرموں کی ڈیٹا پروسیسنگ مشینوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بھاری کرایہ وصول کیا۔ 1970 میں، ای سی آئی ایل اور سی ایم سی جیسی پبلک سیکٹر کمپنیوں کے ساتھ الیکٹرانکس کا شعبہ قائم کیا گیا، جس نے اجارہ داری کو توڑا۔ آج، ہندوستان آئی ٹی خدمات کا سب سے بڑا ملک مانا جاتا ہے۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سرویسز (TCS) دنیا کی ٹاپ 10 آئی ٹی کمپنیوں میں شمار ہوتی ہے۔ بہرحال ہندوستان جدید دور کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے علمبرداروں میں سے ایک ہے۔ ہندوستانی سائنسدانوں کی  قابلیت کی بنا پر ملک کا مستقبل بھی روشن ہے۔

چند معروف ہندوستانی سائنسداں

اے پی جے عبدالکلام:  1997 میں بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز، بھارت رتن سے نوازا گیا۔ انہوں نے سٹیلائٹ لانچ وہیکل (SLV 3) تیار کی، جس نے سیٹلائٹ روہنی کو مدار میں پہنچادیا۔ انہیں ہندوستان کا میزائل مین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اگنی میزائلس کی تیاری میں اے پی جے عبدالکلام کا ہی سب سے بڑا رول تھا۔

چندر شیکھر: 1983 میں فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔

سا لم علی: پہلے ہندوستانیوں میں سے تھے جنہوں نے پورے ہندوستان میں پرندوں کا منظم سروے کیا اور ان کی پرندوں کی کتابوں نے برصغیر میں آرنیتھولوجی کو فروغ دینے میں مدد کی۔ وہ ماہر طیورات تھے۔

بیربل ساہنی: ایک ہندوستانی ماہر حیاتیات تھے جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کے فوسلز کا مطالعہ کیا۔ وہ ماہر ارضیات بھی تھے جنہوں نے آثار قدیمہ میں دلچسپی لی۔

ہومی جہانگیر بھابھا: ہندوستانی جوہری طبیعات دان، بانی ڈائریکٹر اور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ میں فزکس کے پروفیسر تھے۔

ایم ایس سوامی ناتھن: جنہیں ‘فادر آف گرین ریویولیوشن کہا جاتا ہے۔ سوامی ناتھن نے گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام (HYV) تیار کیں اور بعد میں، پائیدار ترقی کو فروغ دیا جسے انہوں نے ’سدا بہار‘ انقلاب کہا۔

ہر گوبند کھرانہ: ہندوستانی امریکی بایو کیمسٹ تھے۔ یونیورسٹی آف وسکونسن – میڈیسن کی فیکلٹی میں رہتے ہوئے انہوں نے مارشل ڈبلیو نی کے ساتھ 1968 کا نوبل انعام برائے فزیالوجی حاصل کیا۔

سید ظہور قاسم: ہندوستانی سمندری حیاتیات کے ماہر قاسم نے 1981 سے 1988 تک ہندوستان کی انٹارکٹیکا کی تلاش میں رہنمائی کی اور دیگر سات مہمات کی رہنمائی کی۔

گیتی حسن:  ایک ہندوستانی سائنسدان ہیں جو مالیکیولر بائیولوجی، جینیات، نیورو سائنس اور سیل سگنلنگ کے شعبوں میں تحقیق کرتی ہیں۔ حسن، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی کی فیلو ہیں، جو ہندوستانی سائنسدانوں اور تکنیکی ماہرین کی اعلیٰ تنظیم ہے۔

a3w
a3w