مضامین

تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی کو ڈائرکٹر /سکریٹری کی تلاش! چند تجاویز

محمد محبوب

اُردو ہندوستان کی وہ مظلوم زبان ہے جو اولیائے اللہ کی خانقاہوں میں پلی، بادشاہوں کے درباروں میں کھیلی، لیکن اس کو مسلمانوں سے منسوب کرتے ہوئے اُردو کے ساتھ نا انصافی کا آغاز ہوا۔فارسی کے بعد ایک عرصہ تک اُردو سرکاری و دفتری زبان رہی۔ ملک کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کرکے بھی اُردو زبان آزاد ملک میں پرائی ہوگئی۔ایک زمانے کی شہزادی سمجھی جانے والی اُردو زبان ان دنوں فریادی بن گئی۔اُردوزبان کی اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جن اداروں اور شخصیات کو اس مظلوم زبان کی سرپرستی پر مامور کیا گیا، ان ہی اداروں اور شخصیات نے اُردو کے ساتھ سرپرستی کی بجائے شرپرستی کی ہے۔ اُردو کے فروغ کے لیے جو ادارے قائم کیے گئے وہ عملاََ اُردو کی فروخت کے اداروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اُردو کے فروغ کے لیے قومی سطح پر ”قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان“ قائم ہے، جبکہ ریاستی سطح پر اُردو کے فروغ کے لیے ریاستی اُردو اکیڈیمیاں قائم کی گئی ہیں۔ملک کی 28 ریاستوں کے منجملہ چند ریاستوں کی اُردو اکیڈیمیاں ہی کارکرد ہیں، جن میں مغربی بنگال اردو اکیڈیمی، دہلی اردواکیڈیمی، اتر پردیش اردو اکیڈیمی، کرناٹک اُردواکیڈیمی اور تلنگانہ اسٹیٹ اُردو اکیڈیمی قابل ذکر ہیں۔
تلنگانہ ریاستی اُردو اکیڈیمی ملک کی ایک فعال اُردو اکیڈیمی سمجھی جاتی ہے۔ اس اکیڈیمی کے تحت بیس سے زائد ایسی فروغ ِاُردو اسکیمات پر ہر سال عمل آوری ہوتی ہے جو ملک کی دیگر اُردو اکیڈیمیوں میں نہیں ہیں، لیکن تلنگانہ ریاستی اُردو اکیڈیمی کبھی صدرنشین کے عدم تقرر اور کبھی ڈائرکٹر سکریٹری کی عدم دستیابی کے سبب اپنی اختراعی اسکیمات کی عمل آوری میں کوتاہی کا شکار ہوجاتی ہے اور گزشتہ ایک سال سے ایک مرتبہ پھر تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی اپنی اسکیمات پر عمل آوری کے ضمن میں سست روی کا شکار ہے۔ اردو اکیڈیمی کے سابقہ صدر نشین مولانا رحیم الدین انصاری مرحوم کی میعاد کی تکمیل کے بعد بہت عرصہ تک اکیڈیمی کے نئے صدرنشین کو حکومت تلنگانہ کی جانب سے نامزد نہیں کیاگیا اور سابقہ ڈائرکٹر سکریٹری ڈاکٹر محمد غوث کے زیر نگرانی اردو اکیڈیمی کے کام کاج چلتے رہے، لیکن کچھ ناعاقبت لوگوں کی شکایت پر ڈاکٹر محمد غوث صاحب کی دوسالہ ڈائرکٹر سکریٹری کی میعاد کو یہ کہہ کر ختم کرادیا گیا کہ وہ جس اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں، ان کا عہدہ ڈائرکٹر سکریٹری کے مماثل نہیں ہے۔ جب کہ ماہرین کا کہنا تھا کہ اکیڈیمی کے اس ضمن میں کوئی بائی لاز نہیں ہیں اور سابق میں ڈائٹ لیکچرر جناب مسعود بن سالم اورصحافی جناب چندرا سریواستو بھی اُردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد غوث صاحب کے دور میں ڈگری اُردو نصابی کتابوں کی اشاعت، دُروس اُردو کے نام سے اُردو سیکھنے کے کورس کا آغاز‘ اُردو اکیڈیمی کے ترانے کی تیاری‘ بچوں کے لیے ریاستی سطح کے تحریری مقابلوں کا انعقاد‘اردو آن لائن سمینار‘ اردو ریسرچ اسکالر سمینار اور دیگر اسکیمات پر عمل آوری ہوئی تھی۔ جناب رحیم الدین انصاری صاحب کی میعاد کی تکمیل کے کافی عرصے بعد حکومت نے جناب خواجہ مجیب الدین صاحب کو صدرنشین اُردو اکیڈیمی نامزد کیا ہے، جن کا تعلق کاماریڈی سے ہے اور وہ اپنی مختلف سیاسی سرگرمیوں کے سبب بہت کم اُردو اکیڈیمی آتے ہیں،لیکن اپنے وعدے کے مطابق کہ وہ حکومت سے اکیڈیمی کی اسکیمات کے لیے درکار بجٹ منظور کروائیں گے اب تک اُردو مسودات کی اشاعت‘مسودات پر انعام‘ اردو کے چھوٹے اخبارات کو مالی امداد کی منظوری کرواچکے ہیں۔ اردو اداروں کے لیے انفراسٹرکچر کی خریداری کے لیے درخواستوں کو طلب کیا گیا ہے۔ جناب خواجہ مجیب الدین صاحب کے صدرنشین بنائے جانے کے بعد اور ڈاکٹر غوث صاحب کی اپنے محکمے کو واپسی کے بعد حکومت نے ڈائرکٹر سکریٹری کا عہدہ عارضی بنیاد پر جناب شاہنواز قاسم آئی پی ایس کو دیا تھا، جن کی سخت مزاجی سے اہل اردو خاموش تھے اور اسکیمات کی منظوری کا انتظار کر رہے تھے۔ گزشتہ ایام میں حکومت نے شاہنواز قاسم آئی پی ایس کا تبادلہ دوسرے محکمے کو کردیا اور اردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر سکریٹری کا عہدہ ایک مرتبہ پھر مخلوعہ رہ گیا۔ حکومت نے سرکاری کام کاج کی ادائیگی میں رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اپنے جاری اعلامیے کے ذریعے جناب بی شفیع اللہ آئی ایف ایس کو اضافی ذمہ داری کے ساتھ اردو اکیڈیمی کا ڈائرکٹر سکریٹری بھی نامزد کیا ہے لیکن انہوں نے بہت زیادہ ذمہ داریاں نبھانے سے معذرت کا اظہارکیا ہے۔ ڈاکٹر محمد غوث صاحب کے ڈائرکٹر سکریٹری ذمہ داری سے قبل پروفیسر ایس اے شکور نے طویل میعاد تک اضافی ذمہ داری کے طور پر ڈائرکٹر سکریٹری کی ذمہ داری بخوبی نبھائی تھی۔ پروفیسر ایس اے شکور کی اصل ملازمت نظام کالج پر تھی اور وہ اضافی ذمہ داری کے طور پر حج کمیٹی اور اردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر سکریٹری کی ذمہ داری نبھا رہے تھے، تاہم ان کی واپسی اور وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد اب ان کا ڈائرکٹر سکریٹری بننا محال ہے۔ اخبارات کے مختلف گوشوں سے یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ اردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر کے لیے کوئی اُردو داں افسر کیوں نہیں ملتا جس کا عہدہ ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی کے لیے قابل قبول بھی ہو اور جو اردو اکیڈیمی کی تمام اسکیمات پر عمل آوری اور فروغ اُردو کے مزید کام انجام دے سکے۔ اطلاعات ملتی رہیں کہ فلاں صاحب ڈائرکٹر بنائے جائیں گے یا فلاں صاحب، لیکن ابھی تک حکومت اپنی تلاش میں ناکام رہی ہے۔ حکومت اگر چاہے تو اردو اکیڈیمی ڈائرکٹر کے لیے ایک موزوں اور مناسب شخص کا تقرر کرسکتی ہے جو قانونی اعتبار سے بھی اس بات کی طمانیت رکھتے ہیں کہ ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی کا عہدہ قبول کر سکیں۔ گزشتہ اپریل کو تلنگانہ اور ہندوستان کی سطح پر اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے اور اردو تعلیم و تدریس میں نمایاں خدمات انجام دینے کے لیے جانے جانے والے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کو پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج ظہیر آباد کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ جو لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہیں، ان کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کے فروغ اردو کے کارنامے آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر غوث صاحب کے دور میں جتنی بھی اردو سرگرمیاں اردو اکیڈیمی میں ہوئیں جیسے اردو اکیڈیمی کی نئی ویب سائٹ کا آغاز‘ آن لائن اردو سمینار کا انعقاد‘ دروس اردو کی تیاری ان سب اسکیمات کے مشیر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ہی تھے، کیوں کہ ڈاکٹر غوث صاحب کا مضمون سیاسیات تھا اور اُردو کے کاموں کو آگے بڑھانے میں انہوں نے ہمیشہ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب سے تعاون حاصل کیا۔ اُردو اکیڈیمی کا ایک اہم کارنامہ یاد رفتگان کتاب کی اشاعت تھی،جس میں حیدرآباد کی ستر سے زائد شخصیات کے مونوگراف ڈاکٹر مجید بیدار صاحب کی ادارت میں لکھوائے گئے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت کے پیچھے بھی ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی خدمات رہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ان دنوں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں اور اب وہ حکومت تلنگانہ کے گریڈ ون آفیسر ہیں اور ان کا موجودہ عہدہ حکومت کو درکار سکریٹری لیول کا عہدہ ہے۔اگر اُردو اکیڈیمی کے موجودہ صدرنشین جناب خواجہ مجیب الدین صاحب، وزیر اقلیتی بہبود جناب کپولہ ایشور اور وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی صاحب اور وزیر اعلیٰ جناب کے سی آر صاحب سے مشاورت کرکے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صاحب کو ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کے عہدے پر فائز کراتے ہیں تو اردو اکیڈیمی کے لیے ان کی تقرری فال نیک ثابت ہوگی کیوں کہ ریاست میں اُردو زبان کے زبان دوم کے نفاذ، تعلیم کے شعبے میں اُردو نصابی کتابوں کی اشاعت کے مسائل‘ سرکاری ملازمتوں میں اُردو مضمون کی کوچنگ اور کتابوں کی اشاعت اور اُردو کے سمینار‘روشن ستارے کی دوبارہ اشاعت اور دیگر فروغِ اُردو کے مسائل کے حل کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ایک موزوں اور مثالی شخص ہیں۔ وہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردوکے اورینٹل سیکشن میں اردو ریسرچ گائیڈ ہیں، ان کے زیر نگرانی دو طلباء نے پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ہے۔ مزید چار ریسرچ اسکالر اردو میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ جونیر لیکچرر اُردو امتحان کے اعلامیے کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے اُمیدواروں کی رہبری کے لیے مفت میں کتابیں آن لائن فراہم کردی ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے یوٹیوب چینل پرامیدواروں کی رہبری کے ویڈیوز پیش کررہے ہیں۔ ان کے یوٹیوب چینل پر تین سوسے زائد اردو ویڈیوز ہیں جنہیں دیکھنے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی انٹر اور ڈگری طلباء کے لیے رہنما مواد فراہم کرتے ہیں۔ ان کی دس کتابیں شائع ہوچکی ہیں، وہ انٹرمیڈیٹ‘ڈگری‘امبیڈکر یونیورسٹی یوجی اور پی جی کتابوں کی نصابی کتابوں کی تیاری کے رکن ہیں۔ انہوں نے سماجی علوم میں تاریخ اور سیاسیات کے مضامین کے انگریزی سے اردو میں ترجمے کیے ہیں۔ انہوں نے نظام آباد میں قیام کے دوران تین نیشنل سمینار کروائے۔ فون میں اردو گھر گھر میں اردو کے اختراعی پروگرام کے ذریعے اردو رسم الخط کے فروغ کی اسکیم چلائی، جسے دنیا بھر میں پسند کیا گیا۔ ان کے لکھے ہوئے مضامین قومی و بین الاقوامی جرائد کی زینت بنتے ہیں۔ ان کی خاص بات اردو زبان سے لگاؤ اور ہمدردی ہے۔ وہ اردو کے حوالے سے ہمیشہ سب کی مدد کرنے تیار رہتے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اردو اکیڈیمی ترقی کرے تو اس کے لیے ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی شکل میں ایک باصلاحیت ڈائرکٹر سکریٹری عہدیدار مل سکتا ہے۔ یہ وہ شخص ہیں جن کی انگریزی بھی اتنی ہی اچھی ہے جتنی اُردو اور وہ صحافت کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے اپنے بلاگ ہیں۔ ’حج کا سفر‘ کے عنوان سے انہوں نے عازمین حج کی رہبری کے لیے معلوماتی بلاگ تیار کیا ہے، جس کا پندرہ ہزار سے زائد ناظرین نے مشاہدہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ اگر اس طرح کی فعال شخصیت سے اُردو اکیڈیمی استفادہ کرے تو مستقبل میں اُردو اکیڈیمی کے ڈائرکٹر کی عدم دستیابی کے مسئلے پر بخوبی قابو پایا جاسکتا ہے۔ امید ہے ارباب مجاز اس جانب توجہ دے کر ریاست میں اُردو دوستی کا ثبوت دیں گے۔ فورٹ ولیم کالج کی عمر زیادہ طویل نہیں رہی لیکن جتنی بھی رہی ایک عہد ساز رہی۔ اس کے پیچھے ڈاکٹر جان گلکرسٹ جیسا فعال اور حرکیاتی سر براہ تھا۔
تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے جنگی خطوط پر ڈائریکٹر / سکر یٹری کا انتخاب ہونا چاہیے۔ اُردو اکیڈیمی کے چیرمین کا عہدہ ہمیشہ سیاسی تحفہ کی طرح پارٹی کے وفاداروں کو انعام کی شکل میں ملتا رہا، لیکن ڈائریکٹر/سکریٹری کا عہدہ موزوں و قابل ترین شخص کو دیا جانا چاہیے۔اب ہمارے ملک کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہمیشہ نا اہل لوگوں کو اقلیت کے بڑے عہدے دیے جاتے ہیں۔اردو اکیڈیمی میں ان افراد کا تقرر کیا جاتا ہے جو اُردو سے نا آشنا رہتے ہیں۔مسجد کی کمیٹی میں ان کو شامل کیا جاتا ہے جو کبھی نماز نہیں پڑھتے اور درگاہ کی ذمہ داری اسے تفویض کی جاتی ہے جسے فاتحہ کا طریقہ نہیں آتا۔یہ سازش ہے یا پھر ہمارے اعلیٰ عہدیداروں کی معصومیت مجھے نہیں معلوم۔ہاں اس سے اتنا تو کام ہوتا ہے کہ اُردو فروغ کے بجائے فروخت ہوجاتی ہے۔تلنگانہ حکومت چونکہ اقلیتی دوست ہونے اور اقلیتوں کی فلاح و بہبودکے لیے سنجیدہ ہونے کا ہزاروں مرتبہ اعلان کرچکی ہے تو ایک قابل اور موزوں شخص کا اُردو اکیڈیمی کے ڈا ئر یکٹر/ سکریٹری کے طور پر تقرر ہونا چاہیے جو اُردو کے فروغ میں ایک انقلاب لائے۔ ایسا انقلاب کہ جس طرح ناول کی دنیا میں ابن صفی نے انقلاب لایا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ ابن صفی کے ناولوں کو پڑھنے کے لیے ہزاروں لوگوں نے اُردو زبان سیکھی تھی۔ روزانہ اُردو کے نئے قاری پیدا کرنے والاناول نگار بھی اس زمانے کے نقادوں کی نظر میں کھرا نہیں اترا۔