منور مرزا
کیا رواں سال، پچھلے سے مختلف ہوگا؟ یہ سوال عالمی قیادت کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اسے اپنے عمل سے اس کا جواب بھی دینا ہوگا۔ نیز، یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ کیا رواں سال ایسی تبدیلیاں رونما ہونے جارہی ہیں، جن کا سامنا کرنے کے لیے خاص قسم کی تیاریاں کرنی پڑیں گی یا پہلے ہی سے کوئی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے؟اگر عالمی قیادت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو گزشتہ برس کچھ زیادہ تبدیلیاں رونما نہیں ہوئیں۔ امریکہ میں حسب ِ سابق صدرجو بائیڈن موجود ہیں، چین میں شی جن پنگ نہ صرف اپنے ملک کی سربراہی کر رہے ہیں، بلکہ کمیونسٹ پارٹی سے تیسری ٹرم کی توثیق بھی حاصل کرچکے ہیں، جو ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔اِسی طرح روس میں صدر پوٹن منظر پر چھائے ہوئے ہیں۔یوروپ اور مغربی دنیا کی قیادت میں بھی کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ فرانس میں صدر میکرون انتخاب جیت کر دوبارہ اقتدار میں آگئے،جرمنی میں تبدیلی تو آئی، لیکن اْس کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ برطانیہ میں رشی سونک وزیرِ اعظم کی کرسی پر براجمان ہیں، جن کا تعلق کنزر ویٹو پارٹی سے ہے، جو گزشتہ بارہ برس سے اقتدار میں ہے۔ برطانیہ ابھی بریگزٹ سے گزرا ہے، لہٰذا وہاں کسی انقلاب کی اْمید نہ رکھی جائے۔ مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں ترقی کے سفر پر گام زن ہے۔ باقی مسلم دنیا روایتی سست روی کا شکار ہے۔
ہندوستان میں نریندر مودی اور ان کی بی جے پی اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ انڈو چائنا میں بھی صْورتِ حال نہیں بدلی۔ دوسرے الفاظ میں ان ممالک کے داخلی معاملات اور دوسروں سے تعلقات میں کوئی بڑی پالیسی تبدیلی نہیں آئے گی۔ہاں اگر کووِڈ۔19 یا یوکرین جنگ جیسا کوئی نیا چیلنج سامنے آجائے، تب الگ بات ہے۔پاکستان میں عمران خان کی جگہ شہباز شریف وزیرِ اعظم بنے، تاہم یہاں معاشی اور سیاسی مسائل اِس قدر زیادہ ہیں کہ وہ اِن سے نکلے گا، تو ہی کسی علاقائی یا عالمی کردار سے متعلق سوچ سکے گا۔عالمی لیڈرشپ کے سامنے گزشتہ برس کے دونوں بڑے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ایک تو یہ کہ یوکرین جنگ ابھی تک جاری ہے، جس کے سبب پوری دنیا توانائی کی قلت اور مہنگائی کی گرفت میں ہے۔جب کہ دوسری طرف کورونا بھی دوبارہ سر اْٹھا رہا ہے۔ چین میں اس کا زور بڑھ گیا ہے اور اس کے پھیلاؤ سے دنیا پریشان ہے۔ چین نے کورونا کیسز بڑھنے کے باوجود لاک ڈاؤن جیسی سختیاں نرم کردی ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر میں چین سے آنے والوں کو مختلف قسم کے ٹیسٹس سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ یاد رہے، 2019 ء میں چین ہی سے کورونا کا آغاز ہوا تھا، جب کہ یوکرین کی جنگ گزشتہ سال فروری میں صدر پوٹن کے حملے سے شروع ہوئی تھی۔
گزشتہ سال نہ صرف یوروپ، جو صدر پوٹن کا اصل ہدف تھا، بلکہ پوری دنیا جنگ کے منفی اثرات کی لپیٹ میں رہی اور ایک کے بعد دوسرے ملک کی معیشت شدید ترین دباؤ میں آتی رہی۔ درحقیقت، صدر پوٹن، سوویت یونین کی بحالی کے خواہش مند ہیں اوراس کے لیے وہ موقع کی تاک میں تھے۔ اْنہوں نے اپنی یہ خواہش کبھی نہیں چھپائی۔ عالمی قیادت، بالخصوص مغربی دنیا کبھی نہیں چاہے گی کہ چین سے اٹھنے والا کورونا دوبارہ ان کے لیے مشکلات کا باعث بنے۔
ویسے اب اِس وبا کے خلاف اْن کی تیاری خاصی مضبوط ہے، کیوں کہ ایک تو ویکسینز موجود ہیں اور دوسری طرف اْنہیں وہ طبّی تجربہ حاصل ہوچکا ہے، جس سے کورونا کے خلاف مزاحمت کی جاسکتی ہے۔ تاہم، کم زور انفرا اسٹرکچر کے حامل ممالک کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے کہ اْن کے پاس طبّی سہولتیں ہیں اور نہ ہی بچاؤ کی کوئی تیاری۔ اْنھیں تو ویکسینز بھی امداد میں ملتی ہیں، حالاں کہ صحت کے نظام پر بھرپور توجہ دینے کا یہ ایک اچھا موقع تھا، لیکن سارا وقت کورونا پالیسی کی کام یابی کے ڈھول پیٹنے ہی میں ضائع کردیا گیا۔
اِس وقت یوکرین جنگ دنیا کے لیے ایک بڑا اور کسی قدر اصل چیلنج ہے۔ اِس جنگ نے ایک سال مکمل کرلیا ہے اور جوں جوں یہ طول پکڑتی جا رہی ہے، روس اور باقی دنیا کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ دنیا نے سرد جنگ کی طوالت کے بعد غیرمعمولی تباہی دیکھی، جو ایک بڑی طاقت سوویت یونین کے زوال کا سبب بنی۔ دنیا نے دو عالمی جنگوں سے سبق حاصل کیا، جس میں امریکہ کے علاوہ، باقی تمام ہی طاقتوں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا، چاہے وہ برطانیہ تھا یا فرانس، عثمانی سلطنت تھی یا روس اور جرمنی۔ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد کسی ملک پر قبضہ عالمی طور پر ناقابلِ قبول ہو چکا ہے۔ اب جس قوم میں ذرا سی بھی عقل ہے، وہ اقتصادی ترقی اورمعیارِ زندگی کی بلندی ہی کو انقلاب سمجھتی ہے۔
صدر پوٹن شاید دو وجوہ کی بنا پر اپنی طاقت آزمانا چاہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اْنھیں سات سال قبل کریمیا پر فوجی قبضے میں کامیابی حاصل ہوئی، جس کی بڑی وجہ وہاں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے شام کی جنگ میں ایران کے ساتھ مل کر جس طرح اسد حکومت کی مدد کی اور کام یابیاں حاصل کیں، اس سے بھی اْن کے حوصلے میں اضافہ ہوا۔ ان کے فوجی کمانڈرز یا پالیسی سازوں نے امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ سے واپسی کے اعلان کو حقیقت سمجھ لیا اور افغانستان سے انخلا کو امریکہ کی شکست اورمغرب کی ٹوٹ پھوٹ تصور کیا، لیکن یوکرین پر حملے کے بعد جس طرح یوروپ، ناٹو اور مغربی اتحاد میں مضبوطی آئی، وہ پوٹن کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں۔
وہ سمجھ رہے تھے کہ اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ اپنے چھے سو بلین ڈالرز کے محفوظ ذخائر سے کرلیں گے اور گیس، تیل، گندم اور کوکنگ آئل روک کر یوروپ کو جھکا دیں گے، لیکن یوروپ جس طرح امریکہ کی لیڈرشپ میں متحد ہوا، وہ ان کے لیے حیران کن ہی نہیں، اب تشویش ناک امر بھی بن چکا ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں اتحادی فورسز کا ری پلے ہے۔ یوروپ نے روسی تیل اور گیس کی کمی کے باوجود سردیاں گزار لیں، مہنگائی کی لہر بھی برداشت کر لی اور اس سب کے باوجود اس کا سیاسی نظام متاثر نہیں ہوا، الٹا روس کو یہ نقصان ہوا کہ جو یوروپی ممالک پوٹن کو آئرن مین اور مضبوط حکمراں سمجھتے تھے، وہ ان سے متنفّر ہوگئے۔ یہاں تک کہ جرمنی جیسا دوست ملک بھی صدر پوٹن کے خلاف ہوگیا۔یوروپ مہنگائی اور بلند قیمتوں کے باوجود عدم استحکام کا شکار نہیں ہوا، جب کہ چین اور ہندوستان کو خود روس 30 فی صد سستا تیل بیچ کر سپورٹ کرتا رہا۔ اِس طرح دنیا کی ایک تہائی آبادی یوکرین جنگ کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی۔ اگر چین کی اکانومی میں سست روی آئی ہے، تو اس کی وجہ کورونا لاک ڈاؤنز ہیں۔ ہندوستان کی معیشت تیزی سے بڑھتی رہی، جو ایک طرف روس کا پکّا دوست ہے، تو دوسری طرف امریکہ اور مغرب کا اتحادی۔
جبکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک آئی ایم ایف، عالمی بینک، مغربی ممالک اور عرب دنیا سے امداد کے متمنی ہیں۔ یہ ممالک قرض کے لیے اِدھر اْدھر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ پوٹن نے اپنے پڑوسی، افغانستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا،جس کی وجہ سے وہ ہندوستان اور امریکہ سے امداد لینے پر مجبور ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صدر پوٹن اِن ترقی پزیر ممالک کو جنگ کے اثرات سے بچانے کے لیے امداد فراہم کرتے،لیکن اْنھوں نے ایسا کچھ نہ کیا۔
اسی لیے روس پر اْسی قسم کی لعن طعن ہو رہی ہے، جیسے کبھی برطانیہ اور یوروپی ممالک کے نو آبادیاتی نظام یا پھر امریکہ کے عراق اور افغانستان پر قبضے کے بعد اْن ممالک پر ہوا کرتی تھی۔ روس، سوویت یونین بنے نہ بنے، لیکن ترقی پزیر ممالک ضرور مغربی ممالک اور مالیاتی اداروں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے۔ دو سردیاں گزارنے اور مہنگائی کے جھٹکے برداشت کرنے کے بعد مغربی ممالک اب روس کو سخت جواب دینے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، روس پر پہلے ہی سخت پابندیاں عاید ہیں، جن کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب صدر پوٹن کو اسی سال یوکرین جنگ کے اختتام کی طرف بڑھنا پڑے گا۔ یوروپ مشرقِ وسطیٰ ہے اور نہ ہی یوکرین، شام، جہاں کے بے بس شہریوں پر ایک طرف آمر اسد نے یلغار کر رکھی تھی اور دوسری طرف، روس اور ایران انہیں نشانہ بنا رہے تھے اور دنیا میں ان بے بس و لاچار شہریوں کی پروا کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ وہ بحرِ روم میں غرق ہوتے رہے یا اپنے ہی ملک اور سرحدی علاقوں میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ یوکرین کے ساتھ تو پورا مغرب کھڑا ہے۔ مغرب کا خیال تھا کہ روس، چین کی طرح عالمی نظام کا حصہ بن جائے گا، لیکن صدر پوٹن کے تو اپنے ہی خواب ہیں، جنھیں پورا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اْن کا یہ قول کہ ”اگر روس عالمی طاقت نہیں، تو دنیا رہے، نہ رہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے“ انتہائی خطرناک سوچ کا حامل ہے۔ ماہرین کے مطابق، پوٹن کریمیا اور شام کی طرح یوکرین میں فتح یاب نہیں ہوسکیں گے۔ یوروپ کے لیے روسی تیل اور اْس کی گیس کا متبادل تلاش کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ اْس کے پاس ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی ہے اور سرمایہ بھی۔ وہاں ایٹمی توانائی، سولار انرجی، ونڈ انرجی اور دیگر کئی منصوبوں پر بہت سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔
پھر یہ کہ یوروپ کے عرب دنیا سے بھی اچھے تعلقات ہیں، علاوہ ازیں، امریکہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سرِفہرست آچکا ہے، جس سے یوروپ کو فائدہ ہوگا۔ اگر یوکرین جنگ اِس سال کسی فیس سیونگ کے ذریعے ختم ہوجاتی ہے، تو یہ روس اور دنیا کے لیے نیک شگون ہوگا۔ عالمی لیڈرشپ اس پر کام شرع کرچکی ہے۔صدر بائیڈن اور صدر شی جن پنگ کی حالیہ ملاقات اور ان کے مشرقِ وسطیٰ کے دَورے اِسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔دراصل، عدم استحکام اور معاشی دباؤ کو کوئی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں اور عالمی قیادت یوکرین جنگ کی قیمت سے بخوبی واقف ہے۔
در حقیت، جنوب مشرقی ایشیا، جسے انڈو چائنا بھی کہا جاتا ہے، عالمی توجہ کا اصل مرکز بن چکا ہے، اِس لیے رواں برس بھی یہاں بہت سی اہم سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں گی۔اقتصادی طور پر یہ دنیا کا سب سے خوش حال خطہ ہے۔ چین، جاپان اور اب امریکہ جیسے اقتصادی دیو یہاں کی معیشتوں کو سہارا دینے اور ٹیکنالوجی کی فراہمی کے لیے پیش پیش ہیں۔ اسی لیے ہندوستان نے بھی اِس علاقے کے فورمز میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وہ کواڈ فورم میں موجود ہے اور آسیان کا بھی رکن بننے والا ہے۔
دوسری طرف، وہ شنگھائی فورم کا حصہ بن چکا ہے اور برکس بینک کے پانچ ارکان میں بھی شامل ہے، جس کا روحِ رواں چین ہے۔ ہندوستان، امریکہ اور جاپان کا بھی قریبی ساتھی ہے، بلکہ اسے امریکی کیمپ میں لانے کے لیے جاپان کے سابق وزیرِ اعظم، شنزوایبے نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے چین سے مضبوط اقتصادی روابط ہیں اور باہمی تجارت ایک سو بلین ڈالرز سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ خطے کے ایک اور ملک،بنگلہ دیش کی بات کریں، تو وہ صرف پچاس سال میں پچاس بلین ڈالرز کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کا مالک بن چکا ہے۔ یاد رہے، وہاں حسینہ واجد وزیرِ اعظم ہیں، جو شیخ مجیب الرحمان کی صاحب زادی ہیں۔ انہیں حکم ران بننے سے قبل سیاست کی الف بے تک کا پتا نہیں تھا،مگر کام کر کے دِکھایا۔ عالمی لیڈرشپ کا اصل چیلنج اِس خطے میں چین اور امریکہ کے ممکنہ ٹکراؤ کو ایک حد میں رکھنا ہے۔ انہیں ہر صورت فوجی تصادم سے روکنا ہوگا۔ویسے یہ خطہ عالمی جنگ میں جس تباہی سے گزرا اور اْس کے بعد دوبارہ اْٹھا، اِس بنا پر امید کی جاسکتی ہے کہ یہ ممالک ہمیشہ معاشی ترقی اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے ہی پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ ویت نام اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ پچاس سال قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ویت نام کبھی امریکہ کا اہم اتحادی ہوگا۔
جنہوں نے ویت نام کی انقلابی لیڈرشپ دیکھی ہے اور جنہیں ہوچی منہ جیسے رہنماؤں کی جدوجہد یاد ہے، وہ حیران ہیں کہ ویت نام میں یہ تبدیلی کیسے ممکن ہوئی، لیکن جو اقوام واقعی اپنی حالت بدلنا چاہتی ہیں، آزادی کو نعمت اور ترقی کی سیڑھی سمجھتی ہیں،وہ قومی مفادات کی خاطر ایسی جرات مندانہ تبدیلیاں کرتے نہیں جھجکتیں۔ مشکل فیصلوں کا ذکر کرنے کی بجائے مسائل حل کرتی ہیں اور مختصر مدّت کی تکالیف برداشت کر کے پھر طویل عرصے تک اْن کا میٹھا پھل کھاتی ہیں۔
بڑی عالمی قوتیں امریکہ، چین، جاپان اور ہندوستان سب ہی اس ترقی کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ اسی لیے انڈو چائنا کا خطہ نہ صرف ترقی میں آگے ہو گا، بلکہ کسی تصادم سے بھی پرہیز کرے گا۔ چین کی معاشی سست روی اور امریکہ میں کسادبازی کے خطرات دونوں کی لیڈر شپ کو بات چیت پر مجبور کریں گے اور یہی رویہ اِس خطے اور دنیا کے امن کا ضامن بنے گا۔