مضامین

یہ بھی کیا نمرود کی خدائی ہے؟

رشید پروین

ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ چنواتے ہیں معمار کو دیوار کے ساتھ
اسرائیلی حق میں جلسے جلوس اور ان کے ساتھ یکجہتی نہ تو کوئی انہونی ہے اور نہ ہی کوئی اچنبھے کی بات ہے، کیوں کہ ہر حال میں ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز“ایک آفاقی حقیقت ہے۔۔ یہاں ظالم اور مظلوم کی بنیادوں پر کہیں بھی اور کسی بھی جگہ ہم آہنگی نہ تو برتی جاتی ہے اور نہ ہی اب مظلوم کے ساتھ کوئی طاقت کھڑی ہوجاتی ہے بلکہ اب یہ محض نظریات کی بات رہ گئی ہے اور اسرائیل اور آر ایس ایس کے خدو خال بالکل ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت بھی رکھتے ہیں،بالکل ایک دوسرے کی ہی پرچاچھائیاں کہلائی جاسکتی ہیں، دونوں میں نظریات کے لحاظ سے بھی کمال کی مشابہتیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مظلوم اور بے بس و بے کس اسرائیلیوں کے حق میں بی جے پی ریلیاں شروع ہوچکی ہیں اور کیوں نہ ہوں جب کہ ہمیں معلوم ہے کشمیر میں ایک عرصے سے اسرائیلی ذہن سازی سے ہی بہت سارے منصوبے تشکیل پا کر ان پر عمل بھی ہوچکا ہے۔
میرا موضوع حماس اور اسرائیلی جنگ نہیں کیوں کہ صرف کچھ دنوں میں ہی واضح ہوجائے گا کہ، پتھر اور کارپیٹ بموں کے تصادم کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا؟
سنگھ پریوار جو کچھ بھی کہہ رہا ہے اور جو بھی عمل ان سے سرزد ہورہا ہے، وہ ان کا نہ صرف ما فی الضمیر ہے بلکہ ان کا ایجنڈا اور پروگرام رہا ہے، بلکہ زیادہ مناسب یہ کہنا ہوگا کہ یہ فسطائی تنظیمیں انہی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جس کا اظہار نریندر مودی کے دور میں یہاں کھل کے ہورہا ہے اور اس میں کسی قسم کی پردہ داری کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی ہے اور نہ یہ سارے مذموم اور گھناونے عمل پردوں میں چھپا کے کیے جارہے ہیں ۔
۱۹۳۰ ء میں ہندوتوا کا فتنہ انگیز نظریہ سب سے پہلے ہندو مہا سبھائی لیڈرو نائیک دامورساورکر نے پیش کیا تھا،اس نظریہ کی حمایت میں کئی تنظیمیں وجود میں آئیں جو مسلم کش اور اقلیتوں کو ختم کرنے کے نقطے پر متفق تھیں۔ اس دور میں چونکہ آزادی کی جنگ بھی جاری تھی، اس لیے ان فرقہ پرست تنظیموں کو کوئی خاص پزیرائی نہیں ملی، لیکن مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد ان تنظیموں نے کھل کر اپنے نظریات اور آئیڈیالوجی کے حق میں محاذ کھڑے کیے۔ اگرچہ ایک لمبے عرصے تک بھارت پر سیکولر اورجمہوری طرز نظام حاوی رہا اور حکومت بھی انہی قوتوں کو حاصل ہوتی رہی، لیکن دھرم اور چھوت چھات کی جڑیں بھارت میں ہزاروں سال گہری اور مضبوط ہیں۔ اس لیے اس لحاظ سے آرمی، پولیس نیم فوجی اور دوسرے تمام اہم اورلا اینڈ آرڈر مینٹین کرنے والے اداروں میں ہندوتوا کے حامی بڑی تعداد میں جگہ پاتے رہے بلکہ یہی لوگ ان اداروں میں اوپر سے نیچے تک بھرتی ہوتے رہے، اقلیتیں اور مسلم ان کلیدی اداروں سے کافی دور رکھے گئے۔
دوسری اہم وجہ یہ بھی رہی کہ کانگریس بھی آہستہ آہستہ اپنی کمزوریوں اور کرپشن کے اسیکنڈلوں کی وجہ سے ان طاقتوں کی یر غمال بنی، بابری مسجد کے ڈھائے جانے سے سنگھ پریوارایک سونامی کے روپ میں سیکولر اور جمہوری طرز نظام کو بہاکر لے گیا اور عام، خام ہندو کے ذہن میں یہ بات نقش ہوگئی کہ شدھ دھرم یہی ہے کہ اس دیش میں صرف ہندو رہے اور ہندوتوا ہی قائم رہے اور ہندوتوا کے علمبردار یا ہندودھرم کے ٹھیکیدار بھی صرف یہی پریوار ہے۔پچھلے الیکشنوں میں سنگھ پریوار نے جس طرح پر فارم کیا وہ ایک حیرت انگیز اور منصوبہ بند طریق کار تھاجس کی پشت پر تما م برہمن، سادھو سنت، ہندو دھرم کے ٹھیکیدار، بھارت کے تمام سر مایہ دار اور سب سے بڑی سریع الاثر چیز الیکٹرانک میڈیا ایک وحدت بن کے کھڑی ر ہی، جس کے نتیجے میں نریندر مودی جو آر آر ایس کے متحرک کارکن ہیں اور جس کی پہچان ہی گجرات میں مسلم قتل عام ہے،اتنے بڑے دیش کے وزیر اعظم بن گئے۔اس سارے پس منظر میں اگر سنگھ پریوار جنون کی حد تک جا پہنچا ہے تو کوئی انہونی نہیں،بھارت کو اکھنڈ تا، ہندوتوا اور شدھ کرنے کا ایجنڈا ان کے لیے کوئی نیا نہیں، بلکہ پہلے ہی سے موجود ہے،عدم برداشت،فرقہ پرستی، زندہ انسانوں بچوں بوڈھوں،عورتوں اور نحیفوں کو آگ کی نذر کردینا ان کے لیے پنیہ کا کاریہ ہے، اس لیے اب یہ سارے کام کھل کے بغیر کسی جھجک کے اور بغیر کسی تاویل کے انجام دیے جارہے ہیں اور ان شرمناک، انسانیت سوز اور ننگ انسانیت کارناموں پر کسی قسم کی کوئی ندامت یا شرمساری محسوس نہیں کی جارہی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ معصوم جانوں کو زندہ جلانے اور بے رحمی سے قتل کرنے پر سنگھ پریوار صاف اور واضح الفاظ میں نہ صرف خوشی کا اظہار کر رہا ہے بلکہ ان ایوانوں میں گھی کے چراغ بھی جلائے جا رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ نت نئی تاویلات اور تشریحات سے ان سیاہ اور ننگ انسانیت کارناموں کو جوازیت بخشی جارہی ہے، اس طرح سے تمام اقلیتوں کو اور خاص طور پرمسلم اقلیت کو ایک واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ اس دیس میں اب ان کے لیے بحیثیت مسلم کوئی جگہ نہیں،یہاں تک کہ اب مسلم بچوں کو انتہا پسند ہندو ٹیچربر ملا پٹوانے میں اپنی تسکین محسوس کرنے لگے ہیں، اور یہ ایک ترقی پذیر ملک اور سماج کے لیے کس قدر شرمناک اور ذلالت کی بات ہے۔ اس پر ذلالت کے تاج میں کئی پرو ں کا اضافہ اس وقت ہوا،اور ہوتا ہے جب گاؤ کشی کے بہانے یہی شدت پسند اور عقل کے اندھے‘ مسلمانوں کا بے رحمی اور سفاکی سے سر راہ قتل کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں بی جے پی کی پر اسرار خاموشی اور لا قانونیت سے شہہ پاکر سارا ملک ہی نمرودی دور میں داخل ہوچکا ہے ۔
اس حکومت کی اگر چہ عام لوگوں کو کچھ باتیں عجیب اور ناقابل فہم لگتی ہیں لیکن ماضی پر نظر رکھنے والوں اور تاریخ کے آئینوں میں جھا نکنے والوں کے لیے اس میں کوئی نئی اور انوکھی بات نظر نہیں آتی، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آر ایس ایس اپنے اوائل اور شروعات سے ہی دلتوں، مسلموں اور دوسری اقلیتوں سے کھار کھائے بیٹھی ہے، لوگ بدل گئے،زمانے بدل گئے، وقت نے ساری دنیا کو اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑا کیا، ترقی یا فتہ ممالک چاند ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور بھارت خود چاند پر اتر چکا ہے، لیکن بہت بڑا جمہوری ملک نئے سرے سے اپنے اس ماضی کی طرف لوٹ رہا ہے جسے ترقی یافتہ اقوام اور انسان (ڈارک ایجز) تاریک دور کے نام سے موسوم کرتے ہیں، جب اونچ نیچ، چھوت چھات، غلامی اور عدم برداشت نے معاشروں اور سماجوں کو دیمک کی طرح چاٹ رکھا تھا، اس سب کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم کا رویہ عجیب تر ہی نہیں بلکہ عجیب ترین ہے، وہ شاید اپنے آپ کو بھارت کا وزیر اعظم سمجھنے کے بجائے آر ایس ایس کا کما نڈر تصور کرتے ہیں جن کے ہاتھ میں تمام اقلیتوں کا خون بہانے کے لیے سرکاری تلوار دی گئی ہے۔
یہ دور چنگیزیت اور نادر شاہی دور سے بھی بدتر حالات اور واقعات کو جنم دے رہا ہے۔ اس دور کے خدو خال نمرودی ادوار سے سو فیصد مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ خونچکاں اور المناک واقعات روم کے اس شہنشاہ کی یاد دلاتے ہیں جو روم کی تباہی اور بربادی کے دوران چین سے اپنی مرلی بجاتا رہا، یہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے اور دیکھا جائے تو یہاں بھی اسی طرح کی تاریخ دو ہزار برس بعد رقم کی جارہی ہے۔ جب وزیر اعظم ہند ان سب المناک اور شرمناک واقعات کو نظر انداز کرکے چین اور آرام کے ساتھ مختلف ممالک کے دوروں پر آتے جاتے ہیں، اور بڑی مشکل سے ہی اپنی زباں سے صرف اتنی سی بات کہتے ہیں کہ ان واقعات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ پھر کس شخص کو ان خونین واقعات سے واسطہ ہے؟ کس کی ذمہ داری ہے؟ آخر وزیر اعظم کی ذمہ داریاں پھر کیا ہیں؟ کیا قتل عام ہی ان کے فرائض میں شامل ہیں اورکیا ملک اور ملک کے وسیع تر مفادات پر ان کی نظر ہی نہیں جاتی؟ایسا تو ہو نہیں سکتا لیکن یہ سوچ شاید سنگھ پریوار پر حاوی ہوچکی ہے کہ پہلی بار وہ اکثریت کے ساتھ ہندوتوا کی وجہ سے تخت نشین ہوچکے ہیں، اس لیے یہی راستہ درست بھی ہے اور یہی راستہ انہیں ہمیشہ تخت نشین رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس سوچ کے رد عمل میں بلا خوف و خطر کے نہ صرف اقلیتوں سے نمٹنے اور انہیں ملک بدر کرنے کے سخت بیانات داغے جارہے ہیں بلکہ عملی طور پر انہیں خوف و دہشت میں مبتلا رکھا جارہا ہے۔ ایک چھوٹی سی مدت کے لیے خوف و دہشت کا عالم خاموشی اختیار کرنے اور ظلم سہنے پرآمادہ ضرور کرتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہتھکنڈے دیر پا ثابت نہیں ہوتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو، بے یارو مدد گار، ننگے بھوکے فلسطینی عوام بھی امریکہ، یوروپی یونین اور اسرائیل جیسی سپر پاور کے خلاف، ظلم و جبر اور ستم رانیوں کے باوجود، میزائیلوں کے پیچھے پتھر لے کر دوڑ پڑے ہیں اور ان سپر پاورس کی نیندیں حرام کرچکے ہیں۔
یہ اور اس طرح کے مائنڈ سیٹ اور اپنی طاقت کے غرور اور گھمنڈ میں مغرور ہاتھی یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا مچھر بھی بہت بڑے ہاتھی کے نتھوں میں گھس کر اسے تڑپا تڑپاکر گِدھوں کے لیے شکارمردہ بناکے ہی دم لیتا ہے۔بھارت سرکار نریندر مودی جی کی سر براہی میں ایک بار پھر ہزاروں برس پہلے کے اندھیروں کو قریہ قریہ تلاش کرکے اپنی جھولی میں بھر کر سارے دیش میں یہی اندھیرے بانٹتے پھر رہی ہے، منافرت، فرقہ پرستی،عدم برداشت،تنگ نظری، مذہبی جنونیت یہ سب ظلمت اور نمرودی نشانیاں ہیں اور تاریخ گواہ کے ہر نمرود کے لیے ایک موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے ۔۔۔جس سے نمرودوں کا مکافات عمل شروع ہوتا ہے۔
٭٭٭