مضامین

2024ء کے لوک سبھا انتخابات کی تیاری!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

بھاریہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) کے قائدین نے اپنی پارٹی کی دوروزہ قومی عاملہ کے اجلاس میں ملک میں اس سال ہونے والے نو ریاستی اسمبلی انتخابات میں کا میابی کے علاوہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں اپنی کا میابی کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ تیسری مرتبہ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔وزیر اعظم نریندرمودی تقریباً ©ایک کلومیٹر کے روڈ شو کے بعد اجلاس کے مقام پر پہنچے۔ یہ دو روزہ اہم اجلاس پیر اور منگل ( 16 اور 17 جنوری ) کو نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کی میٹنگ میں شرکت سے پہلے دہلی کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کر نے کے لئے روڈ شو کا اہتمام کیا جس میں حکومت کے کارناموں کو نمایاں انداز میں پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستان نے گزشتہ نو سال کے دوران کئی شعبوں میں ترقی کی ہے اور آئندہ پھر ایک مر تبہ عوام کا اعتماد پارٹی کو حاصل ہوگاتو عالمی سطح پر ہندوستان کا نام اور روشن ہوگا۔ قومی عاملہ میں شریک تمام ہی قائدین کا ماننا تھا کہ بی جے پی اس سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے گی، کیوں کہ 2023کے اسمبلی انتخابات 2024کے نقیب ثابت ہوں گے۔ اس طرح بی جے پی نے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات میں کا میابی کے لیے اپنی حکمت عملی بنالی ہے۔ واضح رہے کہ اس سال جن نو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہو نے والے ہیں، ان میں تری پورہ، ناگا لینڈ، میگھالیہ کے انتخابات پہلے ہوں گے۔ ان ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تواریخ کا بھی اعلان کر دیا گیا۔اس کے بعد کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، میزورام اسمبلی کے الیکشن ہوں گے۔ سال کے آخر میں تلنگانہ اسمبلی کے انتخابات کا مرحلہ آ ئے گا۔ اول الذکر تین ریاستیں ملکی سیاست میں زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہیں لیکن ان کا شمار حساّس ریاستوں میں ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کرناٹک، راجستھان ، چھتیں گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اپوزیشن پارٹیوں سے بی جے پی کا سخت مقابلہ ہوگا۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے، آنے والے اسمبلی الیکشن میں وہاں کے عوام بی جے پی کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت جس فرقہ وارانہ سیاست کو ہتھیار بناکر پوری ریاست کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھلسا رہی ہے، اس سے ریاست کی ترقی ٹھپ ہو گئی ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعہ بی جے پی نے اقتدار حاصل کیا تھا اور ان پانچ سالوں کے دوران وہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ریاست کے عوام کی ہمدردیاںکانگریس سے وابستہ ہو تی جا رہی ہیں۔ تلنگانہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات پر بی جے پی کی خاص نظر ہے۔ باور کیا جا تا ہے کہ قومی عاملہ کے اجلاس میں تلنگانہ کے تعلق سے خصوصی طور پر غور کیا گیا اور اس بات کا تہیہ کیا گیا کہ کسی بھی طرح کے سی آر کو بیدخل کرکے تلنگانہ میں بی جے پی حکومت بنائی جائے گی۔ کے۔ چندر شیکھر راو¿ نے حالیہ دنوں میں اپنی ٹی آر ایس پارٹی کو قومی شکل دیتے ہوئے بی آر ایس میں تبدیل کر دیا ہے۔ کے سی آر کے اس اقدام سے بی جے پی قائدین کافی بے چین ہیں۔ اسی لیے بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ اس سال ہونے والے تلنگانہ اسمبلی الیکشن میں بی آرا یس کو شکست دی جائے،لیکن کے سی آر کو اقتدار پر تیسری مرتبہ آنے سے روکنا بی جے پی کے لیے موجودہ حالات میں اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ریاستی حکومت کو ریاست کے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔
تلنگانہ اسٹیٹ کے چیف منسٹر اور بھارت راشٹرا سمیتی ( بی آر ایس ) کے سربراہ کے۔ چندر شیکھر راو¿ بھی ایک گھاگ سیاست دان ہیں۔ بی جے پی کے تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے دو دن پہلے چہارشنبہ 18 جنوری کو تلنگانہ کے شہر کھمم میں ایک بڑے جلسہ کا اہتمام بھی کردیا۔ اس میں دہلی کے چیف منسٹر اور عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال، کیرالا کے چیف منسٹر پنارائی وجین، اترپردیش کے سابق چیف منسٹر اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو، اور پنجاب کے چیف منسٹر بھگونت مان کے علاوہ سی پی آئی کے قائدین نے شر کت کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیرالا کے چیف منسٹر نے کہا کہ کھمم کے اجلاس سے بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے دور میں دستور خطرے میں آ گیا ہے اور ملک کی سا لمیت ، اتحاد اور سیکولرازم داو¿ پر لگ گیا ہے۔دیگر قائدین نے بھی ریالی سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ اس زعفرانی حکومت کو گھر کا راستہ بتا دیاجائے۔ سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے وزیراعظم کے اس تبصرہ پر جس میں انہوں نے پارٹی کی قومی عاملہ کے اجلاس سے دوران یہ کہا تھا کہ 2024 کے عام انتخابات کے لیے صرف 400 دن رہ گئے ہیں، لیکن اکھلیش نے اس پر کہا کہ 399 دن کے بعد بی جے پی کا اقتدار ختم ہوجائے گا اور 400 دنوں کے بعد مرکز میں ایک نئی حکومت آ ئے گی۔ اس طرح بی آر ایس سربراہ اور تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے کھمم سے ملک کو نیا پیام دیا ہے۔سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی۔ راجہ نے ریالی سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ تمام سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو متحدہ طور پربی جے پی کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک کو فرقہ پرستی سے بچاناہوگا۔سیکولر پارٹیوں کی اس کوشش کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بی جے پی کے لیے میدان صاف نہیں ہے، لیکن ان سارے دعوو¿ں میں رنگ بھرنے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی قائدین مسلسل جنوبی ہند کا دورہ کر رہے ہیں اور اپنے متنازعہ بیانات کے ذریعہ ماحول کو بگاڑنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ جنوب میں صرف کرناٹک میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہے اور اب وہاں بھی الیکشن ہوگا تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ دوبارہ بی جے پی اقتدار پر آسکتی ہے۔ تامل ناڈو اور کیرالا میںاس کو اقتدارملنا ناممکنات میں سے ہے۔ تامل ناڈو میں ہندی کو تھوپنے کی کوشش کے نتیجہ میں بی جے پی وہاں عوامی اعتماد حاصل نہ کر سکے گی۔ کیرالا کے عوام سیاسی شعور رکھتے ہیں، وہ فرقہ وارانہ سیاست کا شکار نہیں ہوں گے۔ آندھرا پردیش میں بھی اس بات کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ وہاں بی جے پی حکومت بناسکے۔ جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس اور چندرا بابو نائیڈو کی تلگو دیشم کے علاوہ فلم اسٹار پون کلیان بھی سیاسی عزائم رکھتے ہیں ۔ ان تینوں کے ہوتے ہوئے بی جے پی آندھرا پردیش میں اپنی الگ شناخت نہیں بنا سکے گی۔ یہ ہو سکتا ہے ان تنیوں میں سے کوئی ایک یا دو کو بی جے پی اپنے قریب کرلے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کا کچھ اثر ہے، لیکن یہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ بی جے پی کو اقتدار دلاسکے۔ گریٹر حیدرآباد کے مونسپل الیکشن میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے سے بی جے پی قائدین یہ سمجھ رہے ہیں کہ پورے تلنگانہ میں ان کا سکّہ چلا جائے گا۔ گزشتہ دنوں منگوڈ ضمنی اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے ساری طاقت جھونک دی لیکن کا میابی نہیں مل سکی۔ سیاسی محاذ پر ناکامی کے بعد بی جے پی قائدین تلنگانہ میں بھی عوام کوغیر ضروری مسائل میں الجھانے میں مصروف ہیں ۔ جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے کاحق ہے اور خاص طور پر حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جنوبی ہند کی ریاستوں میں بی جے پی کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں۔ یہاں کی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے علاقوں میں مضبوط ہیں۔
شمالی ہند میں بی جے پی گزشتہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کا میاب ہوئی ہے۔ لیکن اب صورت حال بدلی ہوئی ہے۔ شمال کی بہت ساری ریاستوں میں اب اس کا جادو چلنے کے امکانات کم ہو تے جا رہے ہیں۔ حالیہ عر صہ میں گجرات میں ساتویں مرتبہ بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس نے وہاں کا میابی کے اپنے سابق ریکارڈ بھی توڑ دیے لیکن گجرات میں بی جے پی کی یہ کا میابی کسی مثبت ایجنڈہ کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔ فرقہ وارانہ بیانات کا سہارا لے کر کامیابی کویقینی بنایا گیا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان ، جہاں اسمبلی انتخابات ہو نے والے ہیںبی جے پی وہاں بھی فرقہ پرستی کے سارے حربے اختیار کرتے ہوئے اپنی سیاسی دکان چمکائے گی۔ حالات کے اس تناظر میں بی جے پی 2024 کی بھی بازی مارلینے کی بات کر رہی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ دیگر ریاستوں میں جہاں لوک سبھا الیکشن سے پہلے ریاستی اسمبلی کے الیکشن نہیں ہیں وہاں بی جے پی اپنا کیا اثر دکھا سکے گی۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال بھی شامل ہیں۔یوپی میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن کیا پارلیمانی الیکشن میں وہ اسی طرح کامیاب ہو سکے گی۔ بہار میں جے ڈی یو سے بی جے پی کا اتحاد ختم ہو چکا ہے۔ نتیش کمار نے آر جے ڈی سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔ یہ دونوں پارٹیوں کے اطراف بہار کی سیاست گھومتی ہے۔ بی جے پی کس طرح بہار میں زیادہ سیٹیں لے سکے گی؟ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت ہے ۔ ممتا بنرجی نے سابق میں کھل کر بی جے پی کی مخالفت کی ہے۔ ان دنوں باور کیا جا رہا ہے کہ مرکز کی جانب سے مسلسل دباو¿ کی وجہ سے ممتا بنرجی کے لہجہ میں وزیراعظم کے تئیں نرمی آگئی ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں کرنے کی وجہ سے بھی بہت سارے سیات دان گھبرائے ہوئے ہیں۔ لیکن الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی ہر ایک کو اپنا ساتھی تلاش کرنا ہو گا۔ بی جے پی نے اپنا سیاسی بگل بجا دیا ہے۔ ملک کی دیگر پارٹیوں کے لیے سال 2023 اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ ان نو ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہو نے والے اگر بی جے پی کا میابی حاصل کرلیتی ہے تو پھر 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کی کا میابی یقینی ہوجائے گی۔ اس لیے ملک کی سیکولر پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ ایک متحدہ حکمت عملی کے ساتھ آنے والے اسمبلی انتخابات میں آ گے بڑھیں۔ خاص طور پر کرناٹک، راجستھان اور مدھیہ پردیش اسمبلی الیکشن میں سیکولر ووٹ تقسیم نہ ہوں تو امید جا سکتی ہے کہ آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی الیکشن کے بعد ملک میں تیسری مرتبہ بی جے پی کو حکومت بنانے کا موقع نہ ملے گا۔ اب جب کہ الیکشن کمیشن آف انڈیانے ناگا لینڈ، میگھالیہ اور تریپورہ اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا ہے، ملک میں سیاسی گرما گرمی شروع ہو جائے گی۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار ، الیکشن کمشنر انوپم چندرپانڈے اور رون گوئل نے18 جنوری چہارشنبہ کو نئی دہلی میںایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ تری پورہ میں 16 فروری کو اور ناگالینڈ اور میگھا لیہ میں 27 فروری کو ایک ساتھ پولنگ ہوگی۔ تینوں ریاستوں کے نتائج کا اعلان 2 مارچ کو کیا جائے گا۔ 2023 میں ہونے والے 9اسمبلیوں کے الیکشن کے نتائج ہی آنے والے سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن کی سمت طے کریں گے۔ اس لیے کانگریس کو بھی ریاستی اسمبلی انتخابات میں اپنا اثر بتانا ہوگا۔ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کا احیاءعمل میں آ رہا ہے، لیکن اس کو ووٹوں میں کیسے بدلاجائے، اس پر کانگریس قیادت کو غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کی مفاہمت بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر سکتی ہے، لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ سیکولر پارٹیاں متحد ہوجائیں گی؟٭٭

a3w
a3w