دہلی
ٹرینڈنگ

وقف ایکٹ میں تبدیلی ہرگز قابل قبول نہیں ہوگی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف ایکٹ 2013، میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت و نوعیت بدل جائے یا اس کو ہڑپ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف ایکٹ 2013، میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت و نوعیت بدل جائے یا اس کو ہڑپ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔

متعلقہ خبریں
مسلمان فلسطین اور ملک کے پارلیمانی الیکشن کے لئے دعا کا اہتمام کریں : صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ
وسطی افریقہ کے ایک سرسبزو شاداب ملک زامبیا میں چند دن
وقف ترمیمی بل، مرکزی حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں: جعفر پاشاہ
’’تلنگانہ وقف املاک کا تحفظ، وقف بورڈ کو عدالتی اختیارات کی فراہمی اور وقف کمشنریٹ کے قیام‘‘ کے موضوع پر گول میز کانفرنس
وقف ترمیمی بل چور دروازے سے اوقافی جائیدادوں کو غصب کرنے کی سازش: مشتاق ملک

اسی طرح وقف بورڈس کے اختیارات کو کم یا محدود کرنے کو بھی قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ ان پر قبضہ کرنا اور انہیں ہڑپ لینا آسان ہوجائے۔

اطلاعات کے مطابق اس نوعیت کا بل اگلے ہفتہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں جنہیں مذہبی اور خیراتی کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے۔

حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔انہوں نے آگے کہا کہ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستورہند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک حکومت نے مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات کئے ہیں اس میں ان سے کچھ چھینا ہی ہے، دیا کچھ نہیں، چاہے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا بند کیا جانا ہو یا اقلیتی اسکالرشپ کی منسوخی یا پھر تین طلاق سے متعلق قانون ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گا۔ وقف جائیدادوں پر تیشہ چلانے کے بعد اندیشہ ہے کہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوں کے اوقافی جائیدادوں اور پھرہندوؤں کے مٹھوں اور دیگر مذہبی جائیدادوں پر بھی آسکتا ہے۔ ڈاکٹر الیاس نے واضح کیا کہ مسلمان وقف ایکٹ میں کوئی ایسی ترمیم ہرگز ہرگز قبول نہیں کرے گا جو اس کی حیثیت کو بدل کر رکھ دے۔

اسی طرح وقف بورڈس کی قانونی اور عدالتی حیثیت اور اختیارات میں مداخلت کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان نے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں اور دیگر اپوزیشن سیاسی پارٹیوں سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ ہر ایسی تجویز و ترمیم کو پوری طرح مسترد کردیں اور اسے ہرگز ہرگز پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔

ڈاکٹر الیاس نے آگے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانان ہند اور ان کی دینی و ملی جماعتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے اس اقدام کے خلاف متحد ہوکر پیش قدمی کریں۔ بورڈ بھی اس اقدام کو ناکام بنانے کے لئے ہر طرح کے قانونی اور جمہوری راستے اختیار کرے گا۔

a3w
a3w