مضامین

’کمبخت بوڑھا مرتا بھی نہیں!‘

اپنی ماں کی حسب خواہش راشد نے اپنی پھوپی زاد بہن بتول سے شادی کرلی جو زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھی لیکن بڑی سمجھدار اور خدمت گذار لڑکی تھی، شادی کے بعد بتول نے راشد اور اس کے والدین کی اتنی خدمت اور فرمانبرادری کی کہ انہیں اپنا گھر جنت لگنے لگا۔

  شہانہ اقبال

راشد اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا جو اُن کے ساتھ ان کے آبائی مکان میں رہتا تھا، راشد کے والد نے بڑی مشکل سے اُسے گریجویشن تک پڑھایا تھا، تعلیم کی تکمیل کے بعد اس نے ایک خانگی کمپنی میں ملازمت کرلی تھی، جہاں اُسے گذارے لائق تنخواہ ملتی تھی، اُن تینوں نے کبھی اونچے اونچے خواب نہیں دیکھے تھے، اس لئے اپنے حال سے خوش اور مطمئن تھے۔

اپنی ماں کی حسب خواہش راشد نے اپنی پھوپی زاد بہن بتول سے شادی کرلی جو زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھی لیکن بڑی سمجھدار اور خدمت گذار لڑکی تھی، شادی کے بعد بتول نے راشد اور اس کے والدین کی اتنی خدمت اور فرمانبرادری کی کہ انہیں اپنا گھر جنت لگنے لگا

 اس جنت میں چار چاند اس وقت لگ گئے جب بتول کی گود میں ایک ساتھ دو دو جڑواں بیٹیوں نے آنکھیں کھولیں، دادا نے بڑی محبت اور شفقت سے ان کے نام مہوش اور پری وِش رکھے، جنہیں دیکھ دیکھ کر دادا اور دادی کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ جاتی، ماں باپ کا سر خدا کے حضور شکر گذاری سے جھک جاتا۔

بتول تو دن بھر گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی‘ جبکہ اس کی دونو ںبیٹیاں دادا دادی کی بصارت کو اور منور کرتیں اور وہ دونوں ہر پل اُن کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے۔

مہوش اور پری وش دو سال کی ہوئیں تو بتول کے ہاں پھر سے نئے مہمان کے آنے کی نوید ملی جس کو سن کر گھر کے سارے افراد اس بار بیٹے کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگے۔

’’یا اللہ! میرے بیٹے کو بیٹا دے جس سے ہمارے خاندان کا نام چلتا رہے۔‘‘ داداہر نماز میں دعاء کرتے۔

’’میرے مولا! میرے بیٹے کو چاند سا بیٹا دے جو میرے راشد کا خاندان مکمل کردے، دادی دن میں دس بار دامن پھیلا پھیلا کر دعاء کرتیں۔

’’میرے پاک پروردگار! راشد کو قدم قدم پر ساتھ دینے والا نیک اور خوش قسمت بیٹا دے۔‘‘بتول سجدے میں سر رکھ کر صدق دل سے دعاء مانگتی۔

’’میرے مالک! میرے بعد میری بیٹیوں کو تحفظ اور پیار و محبت دینے والا بھائی عطا کرتاکہ ہم سکون سے مرسکیں۔‘‘ راشد کے لبوں پر ہر دم یہ دعاء ہوتی۔

سب نے اپنے اپنے انداز میں دعاء مانگی، لیکن بتول کے پاس اس بار بھی بیٹی ہی ہوئی، جسے سب نے بڑے صبرو شکر سے قبول کیا، کیونکہ ان کا یقین تھا کہ جو چیز ہمارے لئے بہتر ہے‘ اللہ ہمیں وہی عطا کرتا ہے۔

بیٹیوں کو دیکھ دیکھ کر راشد خوشی سے پھولے نہیں سماتا، لیکن ان سے وابستہ ذمہ داریوں کے خیال سے وہ فکرمند ہوجاتا، اپنی محدود آمدنی میں وہ ان کی پرورش، تعلیم و تربیت اور شادیو ںکا انتظام کیسے کرپائے گا جبکہ بیٹیوں کے مناسب رشتوں کے لئے والدین کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

بہت سوچ بِچار کے بعد راشد نے رختِ سفر باندھا اور پردیس کا رخ کیا تاکہ اپنے متعلقین کی زندگی میں خوشحالی لاسکے۔

دوبئی پہنچ کر راشد نے ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت حاصل کرلی، والدین اور بیوی کے ایثار نے اس کی معاشی استحکام کی راہیں استوار کردیں، راشد بہت مطمئن اور خوش تھا، پہلی بار جب انڈیا آیا تو اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو گلی کے نکڑ والے اسکول سے نکال کر متوسط و معیاری اسکول میں داخل کروادیا، جس کی تعلیم میڈل کلاس خاندانوں کے لئے قابل قبول تھی۔

دوسری بار وطن عزیز آیا تو والد کے لئے اسکوٹر خریدی، ماں اور بیگم کے لئے سونے کی کنگن بنوائے۔

بیٹیوں کے سن بلوغ کو پہنچتے پہنچتے راشد نے بتول سے کوسوں دور رہ کر والدین کے قدیم گھر کو نئی رہائش گاہ میں تبدیل کرالیا، تین سوگز زمین پر اُس نے چار فلیٹس بنوالئے، یہ سوچ کر والدین خوش او رمطمئن تھے، بیٹیوں کی شادی کے بعد وہ ان کے لئے ترکہ میں ایک ایک فلیٹ چھوڑ جائیں گے

چوتھے فلیٹ کے لئے وصیت کریںگے کہ اس فلیٹ کی حقدار وہ بیٹی ہوگی جو تنہاء رہ جانے والے ماں یا باپ کی آخری وقت تک خدمت اور دیکھ بھال کرے گی، جب تک دونوں کی جوڑی سلامت رہے گی وہ ایک فلیٹ میں رہتے ہوئے تینوں فلیٹ کے کرایہ سے اپنی گذر بسر کا انتظام کرتے رہیں گے۔

راشد بہت حقیقت پسند انسان تھا، اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو انٹر میڈیٹ کے بعد اعلیٰ تعلیم دلانے کے بجائے ٹیچر ٹریننگ میں داخلہ دلوایا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کے لئے تعلیمی محکمہ میں ملازمت کا حصول ہی عزت و احترام کا باعث ہوتا ہے۔

دونوں جڑواں بیٹیوں کی ٹریننگ مکمل ہوتے ہوتے محکمہ تعلیمات سے جائیداد کے خواہشمند امیدواروں کے لئے امتحان کے انعقاد کا اعلان آگیا، خوش بختی نے ساتھ دیا اور دونوں بہنوں نے یہ امتحان اعزاز سے پاس کرلیا اور سرکاری عہدے پر فائز ہوگئیں۔

اپنی بیٹیوں کی خوش قسمتی اور کامیابی پر والدین جی بھر کے خوشیاں منا رہے تھے کہ محکمہ تعلیمات میں بر سر روزگار دو لڑکوں کے رشتے آگئے، راشد نے کہا: ’’ابھی ہمارے پاس شادی کے انتظامات کے لئے مناسب بجٹ نہیں ہے، اس لئے ابھی ہمارا بیٹیوں کی شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔‘‘

لڑکوں کے سمجھدار والدین نے کہا: ’’آپ کی بیٹیاں خود اپنا بجٹ اپنے ساتھ لئے پھرتی ہیں، سادگی سے مسجد میں نکاح کر کے رخصتی کردیجئے، ہماری کوئی مانگ نہیں ہے، بس ہمارے بیٹوں کو اپنی فرزندگی میں قبول کرلیجئے، یہی ہمارے لئے خوشی کا باعث ہوگا۔‘‘

بیٹیوں کی پیدائش، ان کی پرورش کی ذمہ داریو ںاور شادی کے بھاری اخراجات سے ڈرانے والے افراد انگشت بہ دنداں رہ گئے جب مہوش اور پری وش بڑی آسانی اور سہولت سے وداع ہوکر سسرال پہنچ گئیں۔

نورین خوبصورت قد و خال والی دلکش لڑکی تھی جو انٹر کے دوسرے سال میں تعلیم حاصل کر رہی تھی، بہنوں کی شادی میں عورتو ں کی توجہ کی مرکز بن گئی اور اس کے لئے رشتے آنے شروع ہوگئے، راشد اور بتول نے ٹال مٹول سے کام لیا تو خواتین کا اصرار اور بڑھ گیا، راشد نے صاف صاف انکار کردیا کہ جب تک نورین تعلیم مکمل کرکے اپنی بہنوں کی طرح خود کفیل نہیں ہوجاتی اس کی شادی کے بارے میں ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔

راشد کے دوست نعیم نے سمجھایا کہ جب رشتہ بھیجنے والا لڑکا خود بہت اونچی پوسٹ پر ہے، بہت ساری سہولتیں کمپنی سے اُسے حاصل ہیں تو پھر تمہاری بیٹی کو ملازمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خوش نصیب ہے کہ اُسے آرام اور آسائش کی زندگی میسر ہوگی اور اُسے اپنی بہنوں کی طرح ملازمت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

راشد کو اپنی دلیل سے قائل ہوتا دیکھ کر نعیم نے بہت زور دیا کہ اس کے بھانجے ناظم کا رشتہ قبول کرلو جو ایک مالدار گھرانے کا اکلوتا چشم و چراغ ہے، جس کا اپنا کاروبار ہے اور دیکھنے میں بھی خوبرو ہے، بہن بھائیوں کی بھی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، پھر لین دین کی بھی کوئی شرط نہیں۔

راشد نے اپنے رشتہ داروں اور دوست احباب سے مشورہ کیا، سب کی متفقہ رائے کا احترام کرتے ہوئے اس نے رشتہ قبول کرلیا اور شادی کی تاریخ طے کردی، شادی کے بعد ناظم‘ نورین کو لیکر ہنی مون کے لئے شملہ اور کشمیر کے لئے نکل گیا، پروگرام تو ایک ماہ کا تھا‘ لیکن ناظم کی عیش پسند طبیعت نے مزید ایک ماہ کے قیام کا ارادہ کرلیا اور وہیں رُک گیا۔

بیٹیوں کی شادیوں سے فارغ ہوکر راشد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وطن عزیز واپس آگیا، زندگی کی تھکا دینے والی گردش سے اُسے نجات تو مل گئی، لیکن اس دوران اُس کے والدین کو حوادثِ زمانہ نے چھین لیا تھا، جن کے بغیر اب اُسے اپنے دن رات کاٹنے دوبھر لگ رہے تھے، وہ تو شکر ہے جو اللہ نے اُسے اپنی بیگم کے ساتھ رہنے کا موقع دیا تھا۔

پچھلے بیس سال انہوں نے اپنی بیٹیوں کو خوشحال مستقبل دینے کے لئے ایک دوسرے سے دوری کا دُکھ جھیلا تھا، خاندان بھر میں اُن کے ایثار اور قربانی کی مثال دی جاتی تھی۔

ناظم اور نورین ہنی مون سے واپس آئے، ناظم نے وہاں جی بھر کر فضول خرچی کی تھی، کئی لاکھ روپئے خریداری پر خرچ کردئے تھے، اس کی غیرموجودگی میں کاروبار ٹھپ ہوگیا تھا، اس کے والد دل کے مریض تھے، خرابیٔ صحت کے باعث آفس نہیں جاسکے، والدہ بے چاری تو تین سال پہلے ہی گذر چکی تھیں۔

ناظم کی فطرت میں مستقل مزاجی کا فقدان تھا، پلک جھپکتے میں آسمان پر پہنچنے کے خواب دیکھنا اس کا وطیرہ تھا، شادی کے تین سالوں میں نورین کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا جنم ہوا، جن کی شاہانہ پرورش کے لئے ناظم نے بے دریغ روپیہ خرچ کیا، بچوں کے کمرے کی سجاوٹ پر اس نے ہزاروں کا بِل ادا کیا تھا، اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک گورنس کا انتظام کیاتھا۔

ناظم کے والد کو کینسر جیسے موذی مرض نے آ گھیرا، دیڑھ سال کئے گئے بھاری علاج نے بھی ان کی جان نہیں بچائی اور وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، ناظم پر دن بہ دن قرض کا بوجھ بڑھتا گیا، قرضۂ حسنہ ملنا بند ہوگیا، تو نوبت سودی قرض تک آپہنچی، اسی چکر میں موروثی گھر بھی فروخت کرنا پڑا، کاروبار بھی آہستہ آہستہ ختم ہوگیا، تھک ہار کر ایک خانگی فرم میں ملازمت کرلی، مزاج مالکانہ تھا اس لئے وہاں کی سخت سست باتیں برداشت نہ کرسکا اور ملازمت چھوڑ دی۔

زندگی کا ہر دور خوشیوں اور پریشانیوں سے عبارت ہوتا ہے، راشد کی دونوں بیٹیاں خود کفیل تھیں، شوہر بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے والے تھے، خدا نے اولاد کی دولت سے بھی سرفراز کیا تھا جو بیاہتا زندگی کا سب سے بڑا سکھ ہوتا ہے۔

والدین کو اپنے خوشحال بچوں کی خوشی کا احساس کم ہوتا ہے جبکہ پریشان حال بچوں کا دُکھ زیادہ پریشان کرتا ہے، راشد اور بتول‘ نورین کی وجہ سے بہت فکرمند تھے، اس کے دونوں بچے اسکول جانے کے قابل ہوچکے تھے، لیکن ناظم نے ان کا داخلہ نہیں کروایا تھا، نورین چاہتی تھی کہ دونوں کو کم فیس والے اسکول میں داخل کروادے ، لیکن ناظم اس کے لئے راضی نہیں ہوتا، دونوں کے خیالات میں تضاد تھا، جس کی وجہ سے گھر کی فضاء ہمیشہ مکدّر رہتی، نورین اور اس کے دونوں بچے اکثر نانا کے پاس رہتے۔

راشد اور بتول ہمیشہ اپنے آپ پر لعنت و ملامت کرتے رہتے کہ انہوں نے اپنے دوست کی باتوں میں آکر نورین کی شادی کیوں کردی؟ جبکہ وہ نورین کو خود کفیل بننے کے بعد بیاہنا چاہتے تھے، دونوں کا خیال تھا کہ بیٹیوں کے بیاہ کے بعد تینوں فلیٹس کے کرایوں سے ان کا گذر بسر آسانی سے ہوجائے گا

لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی، کیونکہ ان کے اخراجات میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہو رہا تھا، آئے دن دامادوں کی ضیافت کا اہتمام ، ناتی نواسوں کے تقاریب میں تحائف کا سلسلہ، سمدھاوے کے گھر ہوتے بیٹا، بیٹی کی شادیو ںمیں سلامی کا انتظام، انہیں چین لینے نہیں دیتا تھا، اس کے علاوہ دونوں کی بڑھتی عمر کے مسائل اور بیماریوں کا علاج، ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں اور دوائیوں پر اُٹھ جانے والی رقم نے انہیں پریشان کر رکھا تھا، ان کے پاس جتنی بھی جمع پونجی تھی سب کی سب ختم ہوچکی تھی۔

راشد اور بتول ایک دن جب ڈاکٹر کی کلینک سے گھر واپس لوٹے تو دروازے پر ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے، اندر سے ناظم او ر نورین کی اونچی اونچی آوازیں آ رہی تھیں، دونوں تذبذب میں تھے کہ ڈور بیل بجائیں کہ نہیں، اندر سے آتی آوازوں نے انہیں حیران کردیا۔

’’پھر وہی گھر چلنے کی ضد! تمہارے اور بچو ںکے خرچ کہاں سے پورے کروں؟ جبکہ میرے اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے؟ قرض دار الگ تنگ کر رہے ہیں، تم تو سکون سے ماں کے گھر بیٹھی ہو۔‘‘ ناظم کہہ رہا تھا، ’’میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کیا کروں؟‘‘

’’کرنا کیا ہے! جو بھی ملازمت مل جائے صبر و شکر سے کرلو، میں یہاں کوئی اپنی خوشی سے نہیں ہوں، مجھے بھی ماں باپ کے گھر بیٹھے ندامت محسوس ہوتی ہے، بچوں کی عمر نکلی جار ہی ہے، انہیں اسکول میں داخل کروانا ہے کہ نہیں؟ ‘‘ نورین نے بھی مورچہ سنبھال لیا۔

’’یہاں دال روٹی کے لالے پڑے ہیں، اور تمہیں بچوں کی پڑھائی کی پڑی ہے؟ اُدھر مالک مکان نے بھی گھر خالی کرنے کی نوٹس دے دی ہے، مجھے ہر وقت ملازمت نہ کرنے کا طعنہ دیتی ہو، تم خود اپنی بہنوں کی طرح نوکری کیوں نہیں کرلیتی؟!‘‘

’’مجھے کون نوکری دے گا؟ میں نے ان کی طرح ٹریننگ تو نہیں کی ہے۔‘‘ نورین نے حیرانی سے پوچھا۔

’’تمہارے والدین نے تمہیں ٹریننگ کیوں نہیں کروائی؟ اب اس کے ازالے کے طور پر چوتھا فلیٹ بھی تمہیں دینا چاہئے، تم کان کھول کر سن لو! جب تک میرے معیار کی ملازمت نہیں ملتی میں کام کرنے والا نہیں۔‘‘ ناظم ہمیشہ کی بولی بول رہا تھا، ناشائستہ الفاظ سے نورین کا دل چھلنی کر رہا تھا۔

تھوڑی دیر خاموش رہ کر وہ دوبارہ بولنے لگا: ’’اپنے ابو سے کہو! جو فلیٹ انہوں نے تمہارے نام کیا ہے وہ اپنی زندگی ہی میں تمہیں دیدیں، اس میں رہ کر ہم کم سے کم مکان کے کرایہ سے تو بچ جائیں گے۔‘‘

’’میں نے بھی ہزار بار تمہیں سمجھایا ہے کہ ہم ان کی زندگی میں ایسی کوئی مانگ نہیں کرسکتے، فلیٹ کی میرے نام رجسٹری ان کی مہربانی ہے، ہمارا حق نہیں، جو ہم ابھی سے اس کا مطالبہ شروع کردیں۔‘‘ نورین نے کہا تو ناظم کا چہرہ غصہ سے تمتمانے لگا، اس کے ہونٹ بھینچ گئے، آنکھیں آگ اُگلنے لگیں۔

’’کمبخت بوڑھا مرتا بھی نہیں!‘‘ ناظم نے پوری شدت سے چلّا کر کہا اور اپنے سامنے رکھی سینٹر ٹیبل کو اس زور سے لات ماری کہ وہ دیوار سے ٹکرائی اور اس کا شیشہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا۔

پاس کھڑی نورین نے کچھ کہا تو نہیں‘ بس ایک حقارت سے بھرپور نگاہ اپنے شوہر پر ڈالی، جیسے کہہ رہی ہو ’’بے غیرت!‘‘ ناظم کی جگہ کوئی غیرت مند مرد ہوتا تو نورین کی اس نگاہ سے شرم سے پانی پانی ہوجاتا، لیکن اس گھر کے داماد پر کوئی اثر نہیں ہوا، شائد اسی لئے کہنے والے مہذب لوگ کسی کو بے غیرت کی گالی دینا ہو تو کہتے ہیں ’’داماد ہے کمبخت جانے دو…!‘‘

کیا کوئی شخص اپنی جائز ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشوں کا گلہ گھونٹ کر اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اس لئے اپنے بچوں کے لئے جائیداد بناتا ہے کہ اس کے متعلقین اس کے شکر گذار ہونے اور قدر کرنے کی بجائے اس کے جلد مرنے کا انتظار کریں اور اپنی زبان سے اِس کا اظہار بھی کریں…

اپنے ہی گھر کے داخلی دروازے کے باہر کھڑے نورین کے والدین کے دل کسی ٹوٹے ہوئے شیشے کی کرچیوں سے زخمی ہوکر لہو لہاں ہوگئے۔

٭٭٭