مدارس کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
ہم خادمین ملت ریاست اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے دینی مدارس کی حیثیت و شناخت کو ختم کرنے، انھیں بند کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
نئی دہلی: ہم خادمین ملت ریاست اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستوں میں مختلف حیلوں اور بہانوں سے دینی مدارس کی حیثیت و شناخت کو ختم کرنے، انھیں بند کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
ہم یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کی طرف سے دینی مدارس کے تعلق سے ریاستی حکومتوں کو دی جانے والی ہدایت سراسر غلط،غیرقانونی اور کمیشن کے حدود اور دائرہ کار سے متجاوز ہے۔
اس پر ریاست اترپرد یش کے چیف سکریٹری کی طرف سے مدارس کا سروے کرکے ضلعی حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ غیر منظور شدہ مدارس کے طلبہ کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کردیا جائے۔
8449 غیرمنظورشدہ مدارس کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے جس میں دارلعلوم دیو بند، دارالعلوم ندوۃ العلماء، مظاہر علوم سہارنپور، جامعہ سلفیہ، بنارس، جامعہ اشرفیہ مبارکپور، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ جیسے بڑے اور قدیم مدارس شامل بھی ہیں۔ ضلع مجسٹریٹوں کی طرف سے دباو ڈالا جارہا ہے کہ ان میں زیرتعلیم بچوں کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کردیا جائے۔
چیف سکریٹری کا یہ سرکلر اور ضلعی حکام کا دباو غلط اور غیر قانونی ہے۔ضلعی انتظامیہ نے ان مدارس میں زیرتعلیم غیر مسلم طلباء کو نکال کر سرکاری اسکولوں میں منتقل کردیا ہے، یہ بھی غلط اور ان کے ذاتی اختیار کے حق پر حملہ ہے۔ اب مسلم طلباء پر بھی دباو? بنایا جارہا ہے کہ وہ آرٹی ای ایکٹ کے مطابق بیسک تعلیم حاصل کریں۔
مدارس کی منتظمہ کو دھمکی دی جارہی ہے کہ ایسا نہ کرنے پر ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش حکومت ایک قدم آگے بڑھ کر مدارس کے بچوں کو روزآنہ ہاتھ جوڑ کر سرسوتی وندنا پڑھنے پر مجبور کررہی ہے۔ہم مسلمانوں کے دینی و ملی جماعتوں اور دینی مدارس و جامعات کے ذمہ داران یہ واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور کی دفعہ 30(1) کے تحت اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام و انصرام کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے، اسی طرح آر ٹی ای ایکٹ نے بھی وضاحت کے ساتھ مدارس کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔
مدارس عربیہ کروڑوں بچوں کو کھانے اور رہنے کی سہولتوں کے ساتھ مفت معیاری تعلیم دیتے ہیں اور برسوں سے تعلیمی طور پر پسماندہ سمجھے جانے والے مسلم معاشرے میں تعلیم کے فروغ کی خاموش اور کامیاب کوشش کررہے ہیں ان مدارس نے اور ان کے فارغین نے ملک کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر وترقی میں بھی اہم رول ادا کررہے ہیں۔
چیف سکریٹری کا یہ اچانک اور یک طرفہ اقدام مدارس کے اس قدیم اور مستحکم نظام میں انتشار پیدا کرنے کی ناروا کوشش ہے جس سے لاکھوں بچوں کا تعلیمی نقصان ہوگا اور ان پر نامناسب ذہنی ونفسیاتی دباو پڑے گا۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاستی انتظامیہ اپنی ان غیر قانونی، غیر اخلاقی اور ظالمانہ کوششوں سے باز آئے اور بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ نہ کرے۔ ریاستی حکومتوں کی اس اقلیت دشمن پالیسی کو تبدیل کرانے کے لئے تمام ممکنہ قانونی اور جمہوری راستے اختیار کئے جائیں گے