پرندے :قدرت کا انمول تحفہ، ان کی خریدوفروخت اورپالنا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بے پناہ خصوصیات نوازا ہے ۔نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی بلکہ اپنی توانائیوں کو درست سمت میں لگانے کی ، غلط صحیح کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنے تجربات سے سیکھنے کی خصوصیت عطا فرمائی ہے جو اسے باقی تخلیق کردہ مخلوق حتی کہ پرندوں اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
مولانامحمد طارق نعمان گڑنگی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بے پناہ خصوصیات نوازا ہے ۔نہ صرف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی بلکہ اپنی توانائیوں کو درست سمت میں لگانے کی ، غلط صحیح کی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنے تجربات سے سیکھنے کی خصوصیت عطا فرمائی ہے جو اسے باقی تخلیق کردہ مخلوق حتی کہ پرندوں اور جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔
یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس کی ہدایت کے لئے بے شمارانبیاء اور پیغمبر بھیجے تاکہ وہ اس کی رہنمائی کر سکیں، پھر قرآن پاک اتارا تاکہ وہ اپنے مسائل کو قرآن و احادیث کی روشنی میں حل کر سکے اور گمراہ ہونے سے بچ سکے۔ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ وہ قرآن اور اس کی تعلیمات سے دور بھاگتا ہے ۔
اسلام ایک پرامن اور خوبصورت دین ہے جو ہر ایک کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ہمیں اخلاقیات ، رواداری، اخوت ، باہمی بھائی چارے، مساوات ، پیار و محبت اور امن کا مذہب و عقیدے سے بالاتر ہو کر درس دیتا ہے۔اسلام ہمیں نہ صرف انسانوں سے محبت کا درس بلکہ خلق خدا سے ایثار اور حسن سلوک کی بھی ترغیب دیتا ہے جن میں جانور ، پرندے، درخت ، پودے یعنی ہر چیز جو اللہ تعالی نے اس کائنات میں پیدا کی ہے ، شامل ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہمارے لئے نمونہ ہے۔ وہ نہ صرف ظلم و زیادتی کرنے والوں کو بھی دعا دیتے بلکہ بے زبان جانوروں کا بھی خاص خیال رکھتے اور صلہ رحمی کی ترغیب دیتے تھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ چونکہ جانور بھی اللہ تعالی کی تخلیق کردہ مخلوق ہیں لہٰذا ان کے ساتھ شفقت ، مہربانی، رحم دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے کسی جانور یا پرندے کو بلاسبب نقصان پہنچائی یا مارا وہ جانور قیامت کے روز خدا سے شکایت کرے گا اور اس کا قاتل خدا کے سامنے جوابدہ ہو گا ۔
اسی طرح ذبح کیے جانے والے جانوروں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایاکہ تیز دھار چھری سے جانور کو ذبح کیا کرو۔۔! تاکہ فوراً اس کی جان نکل جائے اور وہ جان کنی کی اذیت میں مبتلا نہ ہو اور مزید یہ کہ ان کے سامنے چھریاں تیز نہ کیا کرو ۔
ایک روایت ہے کہ کچھ لوگ کسی سفر پر جا رہے تھے ، راستے میں انہوں نے ایک پرندے کے گھونسلے سے اس کے ننھے منے دو بچے اٹھا لیے جس کی وجہ سے اس کی ماں قافلے کے اوپر بے قراری سے چکر لگانے لگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت برہم ہوئے اور پرندے کے بچوں کو ان کی جگہ واپس چھوڑنے کی ہدایت کی۔
ایک اور روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا جانوروں سے نرمی کا سلوک کرنے پر بھی خدا کی طرف سے کوئی صلہ ملے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی بھی زندہ جانور سے مہربانی کا سلوک کرنا انسان کو اللہ کے انعام کا حق دار بنا دیتا ہے۔
زہریلے یا موذی جانوروں کو مارنے کا حکم ہے لیکن ان کو بھی ایسے مارا جائے کہ تکلیف کم سے کم دی جائے۔جس طرح موسم ہم انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بالکل اسی طرح گرمی ، سردی، بارش ، ہوا، بھوک اور پیاس جانوروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمیں با اختیار اور افضل مخلوق ہونے کے ناتے ان بے زبان چرند پرند کے دانے ، کھانے پینے کا خیال رکھنا چاہیے۔ جیسے ہی گرمی کا موسم شروع ہو تو ہمیں چاہیے کہ ان کے لئے صاف اور تازہ پانی اور خوراک کا بندوبست کریں تاکہ وہ بھوک و پیاس سے نڈھال نہ ہوں۔
جانوروں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں ان کو پیٹ بھر کر کھانا دیں کیونکہ وہ منہ سے بول نہیں سکتے اپنی تکلیف کا بتا نہیں سکتے لہذا یہ ہم پر فرض ہے کہ ان کے آرام کا خیال رکھ کر اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیں۔
درحقیقت اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے اس دنیا کو سنوارا ہے ، حیوانات اور چرند پرند پیدا کیے ہیں جو اس کی عبادت بھی کرتے ہیں اور انسانوں کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ لہذا ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم ان کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آئیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام جانوروں(پالتو اور غیر پالتو)کا خاص خیال کریں۔ باہر کے ممالک میں بلیاں پالی جاتی ہیں یہ جانور انسانوں کے ساتھ جلدی مانوس ہو جاتا ہے سائنسی اعتبار سے بھی اس کے بالوں میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں ، اس پر ہاتھ پھیرنے سے ڈپریشن میں واضح کمی آتی ہے۔ ہمارے ہاں پرندے پالنے کا رواج ہے گھروں میں پنجرے بنا کر انہیںرکھا جاتا ہے ۔گھر کی زینت و خوبصورتی سمجھا جاتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب عند الشرع کیسا ہے نیز ان کی خرید و فروخت کرنا اور اڑانا کیسا ہے؟ قرآن و احادیث کی روشنی میں اس اہم مسئلہ کو آپ کے سامنے رکھا جاتا ہے ۔
پرندوں کو پالنا
پرندوں کو پالنا جائز ہے اس طور پر کہ ان کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جائے ۔ شریعت مطہرہ میں اس کی ممانعت نہیں کی گئی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے یا ابا عمیر ما فعل النغیر نغر کان یلعب بِہ.یعنی اے ابو عمیر!نغیر(ایک پرندہ)کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا(بخاری، الصحیح، 5:2291، رقم: 5850۔مسلم، الصحیح، 3:1692، رقم: 2150)
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت انس ؓکے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ان فی الحدیث دلالۃ علی جوازا مساک الطیر فی القفص ونحوہ، ویجب علی من حبس حیوانا من الحیوانات ا ن یحسن ا لیہ ویطعمہ ما یحتاجہ لقول النبی(صلی اللہ علیہ وسلم)
اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔ (عسقلانی، فتح الباری، 10:584)
پرندوں کو پالنا جائز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان پرندوںکے حقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیونکہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
ان کے حقوق کا خیال نہ رکھنے پر ایک واقعہ احادیث کی روشنی میں یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک عورت جہنم میں گئی ایک بلی کے سبب کہ اسے باندھ رکھا تھا نہ خود کھانا دیا نہ چھوڑا کہ زمین کا گرا پڑا یا جو جانور کو ملتا کھاتی اس وجہ سے اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی(اس کو امام بخاری نے سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا اور جملہ فوجبت یعنی اس عورت کے لئے جہنم واجب ہو گئی (بخاری،کتاب بد ء الخلق)
پرندے پالنے کے متعلق چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے
ان کے کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
ان کی حق تلفی نہ کی جائے۔
اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کو مانوس کیا جائے تاکہ ان کو قید کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اگربالفرض قید کرنا بھی پڑے تو ان کی رہائش کا بہتر سے بہتر بندوبست کیا جائے، تاکہ ان کو تکلیف نہ ہو۔
ان پر کسی قسم کی سختی نہ کی جائے۔بیمار ہونے کی صورت میں مکمل علاج معالجہ کیا جائے۔
پرندوں کی خریدو فروخت
پرندوں کی خرید وفروخت درست ہے اس طور پر کہ ان کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جائے اور آمدنی حلال ہے۔
پرندے کے بدلے پرندے کو فروخت کرنا بھی جائز ہے، خواہ وہ ایک جنس کے ہوں یا الگ الگ جنس کے ہوں، اور خواہ تبادلہ میں ایک طرف سے اضافی پیسے لیے جائیں۔ البتہ پرندہ کو پرندے کے بدلے فروخت کرنے میں دونوں پرندوں کی مجلس میں تعیین ضروری ہے، اگر ایک پرندہ عقد کے وقت موجود ہو اور دوسرا موجود نہ ہو اور اس کی تعیین نہ ہوئی ہو بلکہ وہ ادھار ہو تو یہ جائز نہیں ہوگا۔
(الجرید للقدوری 5 / 2315)
فتاوی ہندیہ میں ہے کہ سانپوں کی تجارت جائز ہے جب ان سے دوائیں بنائی جائیں اگر اسکے لئے مفید نہیں تو بیع جائز نہیں۔ صحیح یہ ہے ہر چیز جس سے نفع اٹھایا جائے اسکی تجارت جائز ہے۔
ہمارے نزدیک سکھائے ہوئے کتے کی بیع جائز ہے یونہی بلی اور وحشی درندوں اور پرندوں کی خرید و فروخت درست ہے سکھائے سدھائے ہوں یا نہ ہوں۔
جس کتے کو سدھایا پڑھایا نہ جائے اگر وہ قابل تعلیم ہے تو اس کا لین دین بھی جائز ہے اگر قابل تعلیم نہیں (پاگل ہے)تو اسکی بیع درست نہیں۔
امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہم شیر کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر قابل تعلیم و تربیت ہے اور اس سے شکار کیا جاتا ہے تو اس کی بیع جائز ہے۔ بھیڑیا اور باز تعلیم ہر حال میں قبول کرتے ہیں لہٰذا ان کی ہر حال میں تجارت بھی جائز ہے۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا چھوٹے بڑے کا ایک ہی حکم ہے ہاتھی کی تجارت جائز ہے بندر کی خرید و فروخت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دو روایتیں ہیں۔
ایک روایت جواز کی ہے اور یہی مختار ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے اور خنزیر کے علاوہ تمام حیوانوں کی خرید و فروخت جائز ہے یہی مذہب مختار ہے۔(الشیخ نظام و اجماع من علماء الہند، الفتاوی الہندی، 3 : 11، دار الفکر)
پرندوں کو اڑانا درست ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے
یا ابا عمیر ما فعل النغیر نغر کان یلعب بِہ. یعنی اے ابو عمیر!نغیر(ایک پرندہ)کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا(بخاری، الصحیح، 5:2291، رقم: 5850۔مسلم، الصحیح، 3:1692، رقم: 2150)
البتہ کبوتر یا دیگر پرندے اڑانے کومشغلہ بنانا،ہر وقت ان ہی کے ساتھ شوقیہ مصروف رہنا جس سے دیگر فرائض واجبات میں کوتاہی ہو تی ہو اور اسی طرح پرندے لڑانا شرعا درست نہیں ہے۔
مشکوۃ شریف کی روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:ایک دن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو کبوتروں کے پیچھے پڑا ہوا تھا، یعنی ان کے ساتھ لہو و لعب کرنے اور ان کو اڑانے میں مشغول تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان ہے اور شیطان کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔ (احمد ، ابوداد ، ابن ماجہ ، بیہقی ،)
جس طرح انسان پر ماتحتوں کے حقو ق ہیں ان کے بارے میں پوچھ ہوگی اسی طرح جو اس نے پرندے گھر میں رکھے ہیں ان کے بارے میں پوچھا جائے گا لہذا ان کے بے زبانو ں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ آخرت میں کہیں ان کی وجہ سے پکڑ نہ ہو جائے ۔اللہ پاک ہمیں مخلوقات کے حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
٭٭٭