تعلیم و روزگار

ٹمریز اداروں سے اقلیتی عملہ کو ہی برخاست کرنے ایک مخصوص لابی سرگرم

ٹمریز میں اس کی تاسیس سے حکومت کی تبدیلی تک بڑے پیمانہ پر بدعنوانیاں ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے کروڑ ہا روپے کا تغلب بھی ہوا ہے۔ جامع تحققیات کے نتیجہ میں کہیں بدعنوانیاں بے نقاب نہ ہوجائیں اس لئے عہدیداروں کا ایک مخصوص گروپ‘ ارباب اعلیٰ کی توجہ ہٹانے کے لئے مہم شروع کررکھا ہے۔

حیدرآباد: تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی (ٹمریز) کے تحت کام کرنے والے اقامتی اسکولوں اور کالجوں میں اقلیتی برادری خاص کر مسلم عملہ بہت ہی کم ہے اور جو کچھ بھی ہے ان میں زیادہ تر اوٹ سورس کی اساس پر ہیں مگر ان اداروں میں روسٹر سسٹم کے باعث ریگولر پوسٹس پر غلبہ رکھنے والے اکثریتی طبقہ کے ملازمین‘ اقلیتوں کے لئے قائم اس ادارہ سے اقلیتوں کو ہی برخاست کرنے کے درپے ہیں۔

متعلقہ خبریں
ای سیٹ کی درخواستوں کے ادخال کی تاریخ میں توسیع
رضا احمد خان کوجواہر لال نہرو یونیورسٹی کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری
ریسڈنشیل اسکولس میں تقررات، اگست میں تحریری امتحانات متوقع
سرکاری اسکولس میں چہرہ کی شناخت کانظام متعارف کرانے کا منصوبہ
ٹمریز میں داخلے، آن لائن درخواستوں کیلئے اعلامیہ جاری

ٹمریز میں اس کی تاسیس سے حکومت کی تبدیلی تک بڑے پیمانہ پر بدعنوانیاں ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے کروڑ ہا روپے کا تغلب بھی ہوا ہے۔ جامع تحققیات کے نتیجہ میں کہیں بدعنوانیاں بے نقاب نہ ہوجائیں اس لئے عہدیداروں کا ایک مخصوص گروپ‘ ارباب اعلیٰ کی توجہ ہٹانے کے لئے مہم شروع کررکھا ہے۔

 ٹمریز میں گزشتہ 9 برسوں سے جاری بڑے پیمانہ پر بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے اور قصور وار عہدیداروں کو قرار واقعی سزائیں دلانے کے لئے چھوٹے موٹے اقدامات کافی نہیں ہوں گے بلکہ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل ناگزیر ہے۔

 ریاست میں اقتدار کی تبدیلی اور اس کے ساتھ ہی اس ادارہ کے سربراہ کی تبدیلی کے بعد اب تک جو کچھ اقدامات کئے گئے ہیں اس سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں اور نہ ہی ہوسکتے ہیں بلکہ تاخیر اورسطحی اقدامات سے خاطیوں کو اپنے خلاف موجود شواہد و ثبوت کو مٹانے کے مواقع حاصل ہوجائیں گے۔

 بدلتے حالات میں کچھ مفاد پرست عناصر تبدیلی کے نام پر ان اداروں پر اپنی گرفت مضبوط بنالینے کے جتن کرنے لگے ہیں۔ یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ ریاست کی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے دعویٰ کے ساتھ ٹیمریز قائم کیا گیا تھا۔

 مگر بعدازاں یہ اسکیم بنائی گئی کہ ان تعلمیی اداروں میں 62فیصد مسلم‘ 9فیصد عیسائی اور سکھ‘ جین‘ بدھسٹ اور پارسی برادریوں کے ایک ایک فیصد طلباء کو داخلہ دیا جائے گا اور مابقی 25فیصد نشستیں 12فیصد پسماندہ طبقات‘ 6فیصد درج فہرست اقوام‘ 5فیصد درج فہرست قبائل اور 2فیصد دیگر طبقات/معاشی طور پر پسماندہ سے پر کئے جائیں گے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 2016-17 سے اب تک کبھی بھی مذکورہ تناسب کو برقرار نہیں رکھا گیا۔

 اس کے برخلاف ان اداروں میں مستقل ملازمتوں پرتقریباً 95فیصد غیر اقلیتی عہدیدار اور عملہ کام کررہا ہے۔ٹمریز اداروں میں جو کچھ بھی اقلیتی برادری کا عملہ نظر آتا ہے ان میں 95 فیصد یا تو آوٹ سورسنگ پر کام کررہا ہے یا پھر ان کی خدمات عارضی بنیادوں پر حاصل کردہ ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر درجہ چہارم اور درجہ سوم کے ملازمین ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ ادارہ چونکہ اقلیتوں کیلئے قائم کیا گیا ہے اس لئے ان اداروں میں تقررات کیلئے روسٹر رولز سے استثنیٰ دیا جانا چاہئے تھا مگر سابق میں کام کرنے والے عہدیداروں نے ارباب اقتدار کے سامنے یہ تجویز اس لئے نہیں رکھی کہ کہیں ان پر فرقہ پرست ہونے کا ٹھپہ نہ لگ جائے۔

 اقلیتی برادریوں کیلئے قائم ادارہ پر اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والا عملہ غالب آجانے سے وہ اپنی مخصوص ثقافت تھوپنے کی کوشش کررہا ہے جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ ان اداروں کے لئے دن بھر کے شیڈول میں عبادات کیلئے وقت کا تعین نہیں کیا گیا مگر یوگا کیلئے 45 منٹ دئیے گئے ہیں۔

 یہاں یہ ذکر کرنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ چند جگہوں پر اقلیتی برادری کے آوٹ سورسنگ اساس پر خدمات انجام دینے والوں کو پرنسپل بھی بنایا گیا ہے مگر ریگولر پرنسپالس کو یہ برداشت نہیں ہورہا ہے اور انہوں نے اس خصوص میں گزشتہ ہفتہ ایک مکتوب سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود کو روانہ کرتے ہوئے یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ ٹمریز کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق ایک پرنسپال کا تقرر پبلک سرویس کمیشن کے ذریعہ ہونا چاہئے اور جہاں کہیں جائیداد خالی ہو وہاں پر سینئر پی جی ٹی کو پرنسپال کی مکمل اضافی ذمہ داری سونپی جانی چاہئے۔

 یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے کہ عارضی طور پر جو خدمات انجام دے رہے ہیں ان کو برخاست کردیا جائے تاکہ اس ادارہ پر ایک مخصوص گروہ کا راج برقرار رہے۔ تلگو اخبارات میں اس خصوص میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ آوٹ سورسنگ اساس پر کام کرنے والے کچھ ملازمین کو بعض عہدیدار اپنے ذاتی کاموں کے لئے مامور کئے ہوئے ہیں۔

 تلگو اخبارات میں شائع ان اطلاعات کی بنیاد پر سکریٹری ٹمریز نے تمام تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف چار برسوں میں ہی پی جی ٹیز کو ترقی دیتے ہوئے پرنسپلس بنادیا گیا ہے جس کیلئے لاکھوں روپے کی رشوت لئے جانے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا‘ اس لئے اس خصوص میں بھی ایک جامع تحقیق کی جانی چاہئے۔

بہت سے پرنسپلس جو پبلک سرویس کمیشن کے توسط سے تقرر پائے ہیں ان میں بیشتر اس عہدہ کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ایک مخصوص گروہ ٹاسک فورس کی برخاستگی کے لئے کوشاں ہے چونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ان پر نظر رکھی جائے اور ان کی بدعنوانیوں پر روک لگائی جائے۔

گزشتہ دنوں ٹاسک فورس نے بہادرپورہ گرلز II کے معائنہ کے بعد ایک رپورٹ داخل کی تھی جس کے مطابق اس ادارہ کی پرنسپل کی جانب سے مقیم بچوں کی تعداد میں 50 بچوں کے اضافہ کی نشان دہی کی گئی تھی‘ جس کے نتیجہ میں ماہانہ کم از کم ایک لاکھ روپے کا گھٹالہ کیا جارہا تھا

مگر معلوم ہوا ہے کہ اس رپورٹ پر کارروائی نہ کرنے کے لئے اعلیٰ عہدیداروں کے ذریعہ دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ٹاسک فورس ٹیموں کو ان اداروں کے اچانک معائنہ کے لئے جو گاڑیاں فراہم کی جاتی تھیں وہ مسدود کردی گئی ہیں۔

 ٹاسک فورس کو برخاست کرنے کیلئے اس طرز پر کام کرنے والے دیگر اداروں میں ٹاسک فورس ٹیموں کی موجودگی کے بارے میں جانکاری حاصل کی جارہی ہے تاکہ اس کو بنیاد بناکر ان ٹیموں کو برخاست کردیا جائے۔

اگر دیگر طبقات کیلئے قائم اقامتی اداروں کے طور طریق کو اختیار کرنا ہے تو پھر اقلیتوں کو ان اداروں میں داخلہ کروانے میں تامل ہوگا چونکہ دیگر اقوام میں صنف نازک کیلئے پردہ کا اہتمام نہیں ہوتا اور دیگر طبقات کے اداروں کی طرح اختلاط کی اجازت دی جائے تو بہت سے مسلمان اپنے بچوں کو ان اداروں سے نکال لیں گے۔

a3w
a3w