بینک احاطہ میں برقع، اسکااف پہنناممنوع۔ بینک آف انڈیا عطاپور شاخ میں شرانگیز نوٹس
فرقہ پرستی جب دل و دماغ پر چھاجاتی ہے تو مہذب ملازمتیں حاصل ہونے کے باوجود بھی انسان نفرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرانگیزی کرنے سے گریز نہیں کرتا۔
حیدرآباد: فرقہ پرستی جب دل و دماغ پر چھاجاتی ہے تو مہذب ملازمتیں حاصل ہونے کے باوجود بھی انسان نفرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرانگیزی کرنے سے گریز نہیں کرتا۔
شائد ایسا ہی ایک افسر بینک آف انڈیا کی عطا پور شاخ میں پایا جاتا ہے جس کی مسلمانوں اور مسلم خواتین کے برقع استعمال کرنے سے اس قدر نفرت ہے کہ اس نے بینک کے اندر ایک نوٹس لگا رکھی تھی ”تعزیرات ہند کی دفعہ 332 اور 353 کے تحت شاخ کے احاطہ کے اندر اسکارف‘ہیلمٹ‘ برقع ممنوع ہے۔
یہ نوٹس گزشتہ دو دنوں سے بینک میں چسپاں رہیں اور آج ہی اس کو نکال دیا گیا ہے۔
کوئی پاگل یا ٹھگ ہی ہوسکتا ہے جو بینک کے اندر ہیلمٹ پہن کر پہنچے‘ ہاں البتہ کئی مسلم و غیر مسلم لڑکیاں اور خواتین اسکارف استعمال کرتی ہیں جب کہ مسلم لڑکیاں اور خواتین اسکارف اور برقع دونوں کا استعمال کرتی ہیں اور ابھی تک کسی بھی بینکر نے برقع یا اسکارف استعمال کرنے والی خواتین کو بینک میں داخل ہونے سے منع نہیں کیامگر یہاں کے بینکرکو نہ جانے برقع اور اسکارف سے بیر کیوں ہے؟۔
ملک کا کوئی قانون کسی بھی بینک میں اسکارف اور برقع پہن کر داخل ہونے سے منع نہیں کرتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نوٹس میں یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ منسوخ شدہ تعزیرات ہند کی رو سے بینک میں ہیلمٹ‘ اسکارف اور برقع پہن کر داخل ہونا قانوناً جرم ہے جب کہ جن دفعات کا ذکر کیا گیا وہ دفعات کسی سرکاری ملازم کو اس کے فرائض کی انجام دہی پر ضرر یا نقصان پہنچانے یا اس پر حملہ کرنے سے متعلق ہیں۔
اگرچہ اب یہ نوٹس نکال دی گئی ہیں مگر جس کسی افسر نے یہ حرکت کی ہے اس کے خلاف اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے اور فرقہ پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرامن ماحول کو بگاڑنے کے لئے تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔