آپ کی زندگی کی قسم یا نبی: مولانا ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدر پاشاہ قادری
لیکن جب رب کائنات کسی شئے کی قسم کھاتا ہے تو اس کا مقصدکچھ اور ہوتاہے کیونکہ یہاں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹ کی نسبت کرنے کے بارے میں جرا ء ت کرنا تو درکنار سونچ بھی نہیں سکتا۔
بندے جب قسم کھاتے ہیں تو اپنی بات کو سچااور حق ثابت کرنے کے ارادے سے ایسا کرتے ہیں کیونکہ بندوں کی باتوں کو سچایا جھوٹا کہا جاسکتا ہے لیکن جب رب کائنات کسی شئے کی قسم کھاتا ہے تو اس کا مقصدکچھ اور ہوتاہے کیونکہ یہاں جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی جھوٹ کی نسبت کرنے کے بارے میں جرا ء ت کرنا تو درکنار سونچ بھی نہیں سکتا۔
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات سچ ہے جیسا کہ ارشاد رب تعالیٰ ہے : ومن اصد ق من اللہ قیلاً ترجمہ : اور اللہ سے زیادہ سچا کس کا قول ہے۔(النساء :۱۲۲)۔پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی قسم کیوں کھاتا ہے؟ اس کاجواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف چیزوں کا نام لے لے کر قسمیں کھانے کے پیچھے کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں تاہم ان میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے اُن کی اہمیت اور قدر ومنزلت کو اُجاگر کیا جائے تاکہ انسان اُنھیں ہلکا اور بے وقعت سمجھ کر نظر انداز نہ کرے بلکہ اُن کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے منشائے رب العٰلمین کے مطابق اُن سے بھر پور استفادہ کرے۔
چنانچہ خالق کونین نے اپنے کلام قرآن مجید میں خود قرآن ہی کی قسم تین مقامات پر کھائی ہے (۱)یٰسن والقران الحکیم (۲) صٓ والقراٰن ذی الذکر (۳) قٓ والقراٰن المجید ‘ کبھی ’والعصر‘کہہ کر زمانہ کی قسم کھائی تو کبھی ’والفجر‘ کہہ کروقت صبح کی قسم کھائی ‘ کبھی ’والشمس‘ کہہ کر سورج کی قسم کھائی تو کبھی ’والقمر‘ کہہ کر چاند کی قسم کھائی‘ کبھی ’والنہار‘ کہہ کر دن کی قسم کھائی‘ تو ’والیل‘کہہ کر رات کی قسم کھائی‘ ’والسماء‘کہہ کر آسمان کی قسم کھائی تو کبھی’ والارض‘ کہہ کر زمین کی قسم کھائی ‘ کبھی ’’ولیال عشر‘‘ کہہ کر دس مقدس راتوں کی قسم تو کبھی ’والشفع والوتر‘ کہہ کر طاق اور جفت کی قسم کھائی‘کبھی ’والضحٰی‘ کہہ کر وقت چاشت کی قسم کھائی تو ’والتین والزیتون‘کہہ کر انجیر و زیتوں کی قسم کھائی تو کبھی ’وطورِسینین ‘ کہکرطور پہاڑ کی قسم کھائی ‘ کبھی ’’وھذاالبلد الامین‘‘ یا’’ لا اقسم بھذا البلد‘‘کہہ کر شہر مکہ کی قسم کھائی تو کبھی’’ووالد وما ولد‘‘ کہہ کر باپ اور اسکی اولاد کی قسم کھائی ‘ کبھی ’والقلم ‘کہہ کر قلم کی قسم کھائی تو کبھی ’والنجم‘ کہہ کر ستارہ کی قسم کھائی کبھی ’والعٰدیٰت‘ کہہ کر میدان جنگ و جہاد میں تیز دوڑنے والے گھوڑو ں کی قسم کھائی تو کبھی والمرسلٰت کہہ کر پے در پے چلنے والی نرم خو شگوار ہوائوں کی قسم کھائی تو کبھی والنٰزعٰت والنٰشطت والسٰبحٰت فالسٰبقٰت فالمدبرت کہہ کر مختلف خدمات انجام دینے والے فرشتوں کی قسم کھائی۔
الغرض الگ الگ مقاصد کے تحت الگ الگ اشیاء کی قسم کھاکر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ آشکار فرمایا کہ وہ خالق ومالک ہے وہ رب ہے وہ صاحب اقتدار و اختیار ہے جس کی چاہے قسم کھائے تاہم ایک بات جو قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید میں متعدد پیغمبروں کا ذکر فرمایا نبیوں اور رسولوں کے حالات بیان فرمائے لیکن کسی نبی یا رسول کی قسم نہیں کھائی ۔ واتخذاللہ ابراھیم خلیلاً۔ترجمہ : اور اللہ نے ابراھیم کو دوست بنالیا(النساء : ۱۲۵ ) ‘وکلم اللہ موسیٰ تکلیماً۔ ترجمہ : اوراللہ نے موسیٰ سے کلام فرمایا۔(النساء:۱۶۴ )‘واٰتینا داود زبوراً۔ترجمہ:اور ہم نے دائود کو زبور عطا کی ۔(الاسراء:۵۵)کہا اگر کسی نبی ورسول کو قسم کے ساتھ یاد کیا تو وہ صرف اور صرف حضور خاتم النبیین ‘رحمۃللعلمین ‘ شفیع المذنبین ‘ سید الاولین والآخرین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے کہ حق تعالیٰ نے آپ کی شان میں ’’لعمرک ‘‘ ترجمہ:تیری زندگی کی قسم (الحجر:۷۲) فرما کر ساری مخلوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو امتیازی ونمایاں شرف عطا فرمایا ہے کہ اس میں کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سہیم و شریک نہیں اس سے صاف طور پر واضح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو مرتبہ ‘آپ کا مقام رفیع‘ آپ کا رتبہ اعلیٰ ‘ آپکی عظمت ورفعت‘ مخلوقات میں سب سے منفرد ‘ سب سے اونچی اور سب سے انو کھی ونرالی ہے جو بلا قید زمان ومکان اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمائی ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماضی میں بھی متصف رہے زمانہ حال میں بھی آپ کی وہ شان امتیازی آپ کی انفرادیت نمایاں ہے اور مستقبل میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ہمسر نہیں ہوگا ؎
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا نہ ہے نہ ہوگا
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھا کر آپ کی نہایت تعظیم اور بے حد تکریم فرمائی ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن میں ہے’’ علمائے تفسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے مصطفی علیہ ا طیب التحیتہ و اجمل الثناء کی حیات پاک کی قسم اُٹھائی ہے اور یہ حضور کی عظمت شان اور شرفِ رفیع کی قوی دلیل ہے۔
حضرت ابن عباس ؓنے فرمایا: ما خلق اللہ نفساً اکرم علیہ من محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وما اقسم بحیاتہ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی چیز کو معزز اور مکرم پیدا نہیں کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر (حضور کے سوا ) کسی کی زندگی کی قسم نہیں کھائی ’’علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔
ھذا نھایۃ التعظیم و غایۃ البر و التشریف کہ اللہ تعالیٰ کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی (مبارکہ) کی قسم اُٹھانا تعظیم و تکریم کی انتہا ہے ۔صاحب تبیان القرآن نے لکھا: اللہ تعا لیٰ نے حضرت آد م (علیہ السلام ) کو اپنا صفی بنا کر نوازا حضرت ابراھیم (علیہ السلام ) کو اپنا خلیل بنا کر سرفراز کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کو شرف ہمکلامی عطا کیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا وہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں اور ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنا محبوب بنا یا اور آپ کی زندگی کی قسم کھائی اور یہ وہ فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوا اور نبی اور رسول کو عطا نہیں فرمائی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ’والطور‘ فرماکر طور پہاڑ کی قسم کھائی اور لا اقسم بھذا البلد (البلد :۱)فرما کر شہر مکہ کی قسم کھائی ہے تو اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی حیات کی بھی قسم کھائی تو اس میں آپ کی کیا خصوصیت ہے؟اسکا جواب یہ ہے کہ ہر چیز کا مقابلہ اس کی جنس کے افراد میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ طور کی قسم کھاکر یہ ظاہر فرمایا کہ پہاڑ وں کی جنس میں جو پہاڑ اللہ کو محبوب ہے وہ پہاڑ طور ہے اور شہر مکہ کی قسم کھاکر یہ ظاہرفرمایا کہ شہر تو دنیا میں بہت ہیں لیکن جو شہر اللہ کو پیارا ہے وہ شہر مکہ ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی زندگی کی قسم کھائی تو یہ ظاہر فرمایا کہ زندگیاں تو اور نبیوں اور رسولوں نے بھی گزاری ہیں لیکن جس نبی کی گزاری ہوئی زندگی اللہ کو محبوب ہے اے محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)وہ تمہاری زندگی ہے اور جس رسول کی گزاری ہوئی زندگی پر اللہ کو فخر ہے وہ اے پیارے رسول تمہاری زندگی ہے(تبیان)۔
شہر مکہ کی قسم کھانے میں بھی حضور کی نسبت کا دخل ہے کیونکہ سورۃبلد کی پہلی آیت میں اگر لا اقسم بھذا البلد (ترجمہ :میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں )ہے اوردوسری ہی آیت میں وجہ بھی بیان فرمادی کہ’ وانت حل بھذاالبلد‘۔ترجمہ :اس لئے کہ آپ اس میں تشریف فرماہیں ۔(البلد :۲) ۔گرامر کے اعتبار سے اس کا ایک اور ترجمہ ایسا بھی ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قسم نہیں کھائوں (اے حبیب ) جب آپ اس شہر سے رخصت ہوجائیں گے۔ ؎
جس کی قسمیں میرا رب کھاتا ہے
کتنی دلشکش میرے محبوب کی صورت ہوگی
مولانا ڈاکٹرحافظ سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدر پاشاہ قادری: (معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘ پرنسپل ایس‘ ایم‘ وی کالج حیدرآباد)