مضامین

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ پہلی خاتون ڈین فیکلٹی آف آرٹس، عثمانیہ یونیورسٹی

حیدرآباد کی خواتین جو اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کی وجہہ سے ہندوستان گیر شہرت رکھتی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جامعہ عثمانیہ کی ان دختران میں ہیں جو اپنی ہمہ جہت شخصیت کے لئے شہرت رکھتی ہیں۔

مرزا قاسم بیگ

حیدرآباد کی خواتین جو اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کی وجہہ سے ہندوستان گیر شہرت رکھتی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جامعہ عثمانیہ کی ان دختران میں ہیں جو اپنی ہمہ جہت شخصیت کے لئے شہرت رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ان خوش نصیبوں میں سے بھی ایک ہیں جنھیں ڈاکٹر محی الدین قادری زور ؔ کی اہم اور پسندیدہ شاگردوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جو ہمہ جہت شخصیت تھیں۔ انھیں اپنی مادری زبان کے علاوہ فارسی اور انگریزی ادب سے بھی خاصی دلچسپی تھی اور وہ ان دونوں زبانوں کے ادب کا ذوق بھی رکھتی تھیں۔ جناب حفیظ قتیل ؔکے مطابق ”وہ ۱۴/ستمبر ۱۹۲۵؁ء کو اورنگ آباد کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔

ان کے والد سردار مرزا اورنگ آباد میں تحصیلدار تھے۔ ان کے دادا سلطان مرزا لکھنو میں مہتمم پولیس تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم اورنگ آباد میں ہوئی جہاں سے انھوں نے ۱۹۴۰؁ء میں میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اعلٰی تعلیم کے لئے حیدرآباد آئیں اور ویمنس کالج سے ۱۹۴۲؁ء میں انٹر میڈیٹ، جامعہ عثمانیہ سے ۱۹۴۴؁ء میں بی۔اے اور ۱۹۴۶؁ء میں ایم۔اے اردو امتیازی حیثیت سے کامیاب کیا۔ ایم۔اے کے لئے انھوں نے اپنا مقالہ ”اردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصّہ“ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ کی نگرانی میں لکھا۔ تب تک ان کی تدریسی خدمات شروع ہوچکی تھیں۔ محبوبیہ گرلز اسکول سے تدریسی خدمات کی ابتداء کی ۱۹۴۷ء؁ میں ویمنس کالج کوٹھی میں بحیثیت لیکچرار ان کا تقرر عمل میں آیا۔

عثمانیہ یونیورسٹی سے ہی پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ حیدرآباد کی پہلی خاتون محققین میں سے ہیں جنھوں نے دکنی ادب کو پی۔ایچ۔ڈی کے مقالے کے لئے موضوع بنایا ”اردو نثر کا آغاز و ارتقاء“ ان کے مقالے کا موضوع رہا پی۔ایچ۔ڈی کی تکمیل کے بعد وہ عثمانیہ یونیورسٹی شعبہ اردو کی پہلی خاتون پی۔ایچ۔ڈی کہلائیں اور وہ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردو سے جڑ گئیں اور شرف اولیت کے کئی اعزازات حاصل کرتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی شعبہ اردو کی پہلی خاتون صدر رہیں اور خاتون کی حیثیت سے پہلی ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے جلیل القدر منصب پر بھی جائز رہیں۔

اس طرح انھوں نے ۱۹۵۵؁ء میں بحیثیت ریڈر اور پھر اس کے بعد ۱۹۵۹؁ء میں پروفیسر شب کی خدمات انجام دیتے ہوئے ۱۹۷۸؁ء تا ۱۹۷۹؁ء تک پروفیسر و صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ رہیں۔ اس کے علاوہ ۱۹۸۲؁ء تا ۱۹۸۴؁ء تک ڈین فیکلٹی آف آرٹس کے عہدے پر فائز رہیں۔ اور بحسن و خوبی اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ اور ۱۹۸۵؁ء میں انھوں نے وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوئیں۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کی تدریس کے متعلق کہا جائے تو ان کا لیکچر عموماً شستہ و سلیس اور عام فہم ہوتا۔ طلباء و طالبات انکے لیکچر کو نہایت ہی عالم محویت میں سنتے تھے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ بھی اپنے استاد ڈاکٹر زور ؔ کی طرح اپنے شاگردوں کی نہایت ہی فراغ دلی سے ہمت افزائی فرماتی تھیں۔ ان کا رویہ ہمیشہ اپنے طالب علموں کے ساتھ مشفقانہ رہا۔ اس بات کی گواہی آج بھی ان کے بقید حیات شاگردوں میں پروفیسر اشرف رفیع اور جناب پروفیسر سلیمان اطہر جاوید دیتے ہیں۔ اور خود کو ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ سے شرف تلمذ حاصل ہونے پر رفخر محسوس کرتے ہیں۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے خمیر میں سچ پوچھئے تو ادبی ذوق اور ساتھ ہی ساتھ مطالعہ کا شوق رچ بس گیا تھا۔ اور یہی وجہہ رہی ہوگی کہ وہ ایک عرصے تک شادی سے دور رہیں۔ اور تحقیق و تدوینی کارناموں کے علاوہ ادبی کارنامے بھی انجام دیتی رہیں۔ بعد میں جناب محمود الحسن سے رشتہ ازداج میں منسلک ہوگئیں۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو تحریر و تصنیف کا ذوق طالب علمی کے زمانے سے ہی رہا۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے، ڈرامے بھی تحریر کئے۔ تحقیق بھی کی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ ان کی پہلی تصنیف ”حیدرآباد“ ہے۔ جو انھوں نے خاص طور پر بچوں کے لئے لکھی ہے۔ یہ کتاب بچوں کے ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر حفیظ قتیل ؔ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنی مختصر تصنیف ”حیدرآباد“ کو ڈاکٹر زور ؔ کے کہنے پر لکھی تھی۔ اکثر تصانیف و تحریروں کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر زور ؔ ہمیشہ اپنے ہونہار طلباء و طالبات کی تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ دیگر خدمات بھی قابل ذکر ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔

٭ صدر جمہوریہ ہند نے انھیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پانچ شعبہ جات جن میں اردو، عربی، فارسی، لسانیات اور فلاسفی کے اکسپرٹ کمیٹی میں صدارتی نمائندہ مقرر کیا تھا۔

٭ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ساہتیہ اکیڈیمی (حکومت ہند) کی ریفری بھی رہ چکی ہیں۔

٭ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کمیٹی (UGC) برائے ایوارڈ و اسکالرشپ کی رکن بھی رہی ہیں۔

٭ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ایک اعلٰی پایہ کی مقرر اور بہترین استاد کے علاوہ محقق، نقاد، اور ڈرامہ نگار کے علاوہ افسانہ نگار بھی تھیں انکی کل تصانیف کی تعداد دس ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ اردو ادب کی ترقی میں خواتین کا حصّہ ۲۔ اردو نثر کا آغاز اور ارتقاء ۳۔ دکنی نثر پارے ۴۔ کلمتہ الحقائق ۵۔ کلیات احسان ۶۔ فن اور فنکار ۷۔ اقبال سخن ۸۔ کچے دھاگے ۹۔ چراغ محفل ۱۰۔ حیدرآباد۔

ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو ان کی بے مثال تدریسی خدمات کے لئے ۱۹۸۴؁ء میں انھیں بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ ۱۹۸۳؁ء میں وظیفہ حسن پر سبکدوش ہوئیں اور ۱۹۹۵؁ء میں اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے ان کی مجموعی خدمات پر انھیں ایوارڈ سے نوازا تھا۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ۸۱ برس کی عمر میں ۲۴/مارچ ۲۰۰۷؁ء سے کوچ کر گئیں۔
٭٭٭٭٭

a3w
a3w