جمعہ: دعا کی قبولیت، اعمال کی فضیلت اور گناہوں کی معافی کا سنہری دن،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
“ہماری حالت یہ ہے کہ دین ہمیں وراثت میں ملا۔ ہم نے نہ ایمان کی قیمت ادا کی، نہ عقیدے کی گہرائی کو سمجھا، نہ دین کا علم سیکھنے کا شوق رکھا۔ حالانکہ ایمان کی اصل یہ ہے کہ انسان اسے محنت، قربانی، علم اور شعور کے ساتھ اپنائے۔
حیدرآباد: آج جمعتہ المبارک اور 20 جمادی الآخر کے موقع پر حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد میں ایک عظیم الشان اجتماع سے خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری مدظلہ العالی نے اصلاحِ امت کے موضوع پر نہایت مؤثر، درد مندانہ، علمی و تحقیقی خطاب فرمایا۔
“اے مسلمانوں! آج ہم ایک عظیم دن یعنی جمعۃ المبارک کی گھڑیوں میں بیٹھے ہیں۔ ایک ایسا دن جو پوری امت کی تربیت، اجتماعیت اور بیداری کا دن ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اپنی اصل ذمہ داری سے بہت دور ہو چکا ہے۔ اسلام ہمیں وراثت میں مل گیا، مگر ہم نے اس وراثت کی حفاظت، پاسداری اور معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہم میں سے بہت سے لوگ کلمہ طیبہ کا مفہوم بھی نہیں جانتے؛
قرآن کی تلاوت کا صحیح طریقہ نہیں جانتے؛
نماز صحیح نہیں؛
عقائد کی پختگی نہیں؛
اور دین کا شعور بہت کمزور ہے۔
یہ صورتِ حال صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری امت کا اجتماعی مسئلہ بن چکا ہے۔”
مفتی صاحب نے فرمایا:
“ہماری حالت یہ ہے کہ دین ہمیں وراثت میں ملا۔ ہم نے نہ ایمان کی قیمت ادا کی، نہ عقیدے کی گہرائی کو سمجھا، نہ دین کا علم سیکھنے کا شوق رکھا۔ حالانکہ ایمان کی اصل یہ ہے کہ انسان اسے محنت، قربانی، علم اور شعور کے ساتھ اپنائے۔
اگر آج کلمہ پڑھنے والے کو کلمہ کے معنی معلوم نہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دین کا شعور نہیں پایا۔
اگر قرآن کی تلاوت افضل العبادات ہے مگر عوام کی بڑی تعداد صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھ سکتی، تو یہ ہماری روحانی کمزوری کی علامت ہے۔”
مفتی صاحب نے فرمایا:
“آج ہمارے گھروں میں دنیاوی تعلیم کے لیے کتنی محنت ہوتی ہے، لیکن قرآن سیکھنے کے لیے شرم محسوس کی جاتی ہے۔
حالانکہ حدیث میں ہے:
«خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ»
(بخاری)
‘تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔’
لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان قرآن سے دور ہو گئے ہیں، حالانکہ قرآن امت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
قرآن ہی وہ نور ہے جو ظلمتوں کو چیر کر راستہ دکھاتا ہے۔
اگر گھر میں قرآن ہو تو گھر رحمتوں کا مرکز بنتا ہے؛
اگر سینے میں قرآن ہو تو دل نور سے بھر جاتا ہے؛
اگر زندگی میں قرآن ہو تو معاشرہ امن اور عدل سے بھر جاتا ہے۔”
مفتی صاحب نے عصرِ حاضر کی صورتحال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
“جب معاشرہ عمومی بے راہ روی کا شکار ہو جائے
جب فحاشی عام ہو جائے
جب جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی عام ہو جائے
جب اسلام کے بنیادی احکام فراموش کر دیے جائیں
تو پھر شریعت کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔
ایسے وقت میں صرف انفرادی وظائف کافی نہیں رہتے۔
امت کو اجتماعی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
امت کو قرآن کی طرف واپس لانا ہوتا ہے۔
امت کو عقیدے کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف بلانا ہوتا ہے۔”
احادیث سے اجتماعی ذمہ داری پر دلائل
مفتی صاحب نے صحابہ اور محدثین کے اقوال سے واضح کیا:
1— حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول:
“اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے گناہوں پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب برائی اعلانیہ ہو تو سب عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔”
یہ واضح دلیل ہے کہ جب معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جائے تو ہر فرد کی ذمہ داری دوگنی ہو جاتی ہے۔
2— جبریل علیہ السلام والی حدیث
جب ایک بستی میں ایک عبادت گزار کے ہوتے ہوئے عذاب کا حکم آیا تو فرمایا:
“اس شخص کا چہرہ کبھی میری خاطر بُرائی دیکھ کر متغیر نہیں ہوا۔”
یعنی صرف تنہائی کی عبادت کافی نہیں؛
بلکہ معاشرے کی اصلاح ضروری ہے۔
خاموشی فضیلت ہے مگر حق بات ترک کر دینا حرام ہے
مفتی صاحب نے فرمایا:
“اسلام میں خاموشی ایک خوبی ہے، مگر ایسا سکوت جائز نہیں جو نیکی کے راستے کو روک دے۔
جب نیکی کا حکم دینے کا وقت ہو اور انسان خاموش رہے، یہ گناہ بن جاتا ہے۔”
حضور ﷺ نے فرمایا:
“نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا تمہارے خاموش رہنے سے بہتر ہے۔”
(مسند احمد)
اسلام کا پیغام — تعلیم، تربیت اور قرآن
مفتی صاحب نے زور دے کر فرمایا:
“آج امت کی فلاح صرف ذکر و اذکار میں بند نہیں،
بلکہ قرآن سکھانے میں ہے،
نوجوانوں کی اصلاح میں ہے،
بچوں کی تربیت میں ہے،
گھروں کو قرآن کے مراکز بنانے میں ہے،
دعوت و تبلیغ، خطابت، تدریس، تعلیم میں ہے۔
یہ سب آج فرد کی عبادت سے بڑھ کر اجتماعی ضرورت بن چکے ہیں۔”
مفتی صاحب نے فرمایا:
“ 22 جمادی الآخرکو خلیفۂ اوّل امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یومِ وصال بھی ہے۔
اگر امت مضبوط ہے تو آپ کے اخلاص سے؛
اگر اسلام محفوظ ہے تو آپ کی قربانیوں سے؛
اگر دین آج ہم تک پہنچا ہے تو آپ کے فیصلوں کی بدولت۔
آپ نے امت کو ایک لڑی میں پرو دیا،
جھوٹے مدعیانِ نبوت کو ختم کیا،
قرآن کو جمع کر کے امت پر احسان کیا،
فتنوں کا قلع قمع کیا،
اور اسلام کی بنیادوں کو ایسا مضبوط کیا کہ قیامت تک امت ان کے احسان تلے دبی رہے گی۔”
مفتی صاحب نے خطاب کے آخر میں فرمایا:
“آج جمعہ کا دن ہے،
آج قرآن کی طرف لوٹنے کا دن ہے،
آج دین کے شعور کو حاصل کرنے کا دن ہے،
آج اصلاحِ معاشرہ میں کردار ادا کرنے کا دن ہے۔
اپنے گھروں میں قرآن لائیں،
اپنے بچوں کو دین سکھائیں،
نیکی کا حکم دیں،
برائی سے روکیں،
اور امت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سچی سمجھ عطا فرمائے،
قرآن کا نور ہمارے دلوں میں بسائے،
اور ہمیں امتِ محمدیہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔”