سوشیل میڈیا

کانپور میں "I Love Muhammad ﷺ” کا بینر، پولیس نے ہنگامہ کرنے والوں کو چھوڑ کر 25 مسلم نوجوانوں پر مقدمہ درج کرلیا

سوشل میڈیا پر یہ پیغام زور پکڑ رہا ہے: اگر محبت کا اظہار جرم ہے تو ہم یہ جرم لاکھوں بار کریں گے، کیونکہ محبت ہی انسانیت اور سچائی کا راستہ ہے۔ یہ تنازعہ اب محض ایک بینر تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک بڑے سوال میں بدل چکا ہے کہ کیا ہندوستان میں مذہبی آزادی محفوظ ہے یا پھر نبی کریم ﷺ سے محبت کے اظہار کو بھی جرم بنا دیا جائے گا؟

کانپور: اتر پردیش کے شہر کانپور کے سید نگر علاقے میں عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر لگایا گیا ایک بینر بڑے تنازعے میں بدل گیا۔ چار ستمبر کو میلاد جلوس کی سجاوٹ کے طور پر مسلم نوجوانوں نے "I Love Muhammad ﷺ” کا ایک بینر عوامی سڑک پر نصب کیا۔ یہ وہی راستہ ہے جہاں سے رام نومی کے جلوس گزرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مقامی ہندوتوا تنظیموں نے اس پر شدید اعتراض جتایا۔

متعلقہ خبریں
لفٹ میں پھنسے نوجوان نے ایسا ردعمل دیا کہ لوگ حیران رہ گئے (ویڈیو)
بی جے پی کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت
سوشل میڈیا کی تباہ کاریوں سے خودکو اوراپنی نسل کو بچائیں: محمد رضی الدین رحمت حسامی
25پروازوں میں بم کی اطلاع
شکیب الحسن نئی مصیبت میں پھنس گئے

عینی شاہدین کے مطابق ہندوتوا کارکنوں نے بینر توڑ پھوڑ دیا اور مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس ہنگامہ کی قیادت بدنام زمانہ ہندوتوا لیڈر موہت باجپائی نے کی، جسے مقامی لوگ پہلے سے فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینے والا شخص قرار دیتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ توڑ پھوڑ اور اشتعال پھیلانے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ کانپور پولیس نے 9 ستمبر کو 25 مسلم نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی۔

یہ مقدمہ بھارتیہ نیائے سنہیتا (BNS) کے تحت درج کیا گیا، جس میں نامزد ملزمین شرافت حسین، سبنور عالم، بابو علی اور دیگر شامل ہیں، جبکہ 15 افراد کی شناخت اب تک نہیں ہو پائی۔ ان پر سیکشن 196 (مذہبی نفرت پھیلانے) اور سیکشن 299 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے) جیسے ناقابل ضمانت الزامات لگائے گئے ہیں۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ عوامی سڑکوں پر نئی روایتیں قائم نہیں ہونے دی جائیں گی اور یہ اقدام امن قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پولیس کارروائی کے بعد معاملہ ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل گیا۔

16 ستمبر سے #ILoveMuhammad ﷺ دنیا بھر میں ٹرینڈ کرنے لگا۔ لاکھوں صارفین نے اپنے اپنے انداز میں نبی کریم ﷺ سے محبت کا اظہار کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو برادری کے افراد بھی اس مہم میں شامل ہو گئے۔ ایک "سناتنی” ہندو لڑکی کی ویڈیو نے تہلکہ مچایا، جس میں وہ کہتی ہے: ہم ہندو ہیں اور فخر سے کہتے ہیں I Love Muhammad ﷺ، چاہے ہمیں گرفتار کرلیا جائے۔ ایم آئی ایم صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے علامہ اقبالؒ کے اشعار شیئر کرتے ہوئے اس مقدمے کی سخت مذمت کی۔ شہر قاضی کانپور مفتی محمد یونس رضا نے پولیس اقدام کو ناانصافی قرار دیا۔

ورلڈ صوفی فورم کے صدر حضرت سید محمد اشرف کچھوچھوی نے اس کو نفرت پر مبنی سازش کہا۔ جماعت رضاِ مصطفیٰ کے نیشنل جنرل سیکریٹری فرمان میاں نے کہا کہ یہ آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے اور مقدمہ فوراً واپس لیا جانا چاہیے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایف آئی آر آئین ہند کے آرٹیکل 25 کی کھلی خلاف ورزی ہے، جو ہر شہری کو مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے کے اظہار کا حق دیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ پیغام زور پکڑ رہا ہے: اگر محبت کا اظہار جرم ہے تو ہم یہ جرم لاکھوں بار کریں گے، کیونکہ محبت ہی انسانیت اور سچائی کا راستہ ہے۔ یہ تنازعہ اب محض ایک بینر تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک بڑے سوال میں بدل چکا ہے کہ کیا ہندوستان میں مذہبی آزادی محفوظ ہے یا پھر نبی کریم ﷺ سے محبت کے اظہار کو بھی جرم بنا دیا جائے گا؟