گیان واپی مسجد کا تنازعہ۔ ہندو راشٹر کی جانب ایک اورقدم

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
اترپردیش کے شہر وارانسی کی تاریخی گیان واپی مسجد کا تنازعہ اب ایک خطرناک موڑ اختیار کر چکا ہے۔ 12 ستمبر 2022کو وارانسی کی عدالت نے ہندو خواتین کی اُس درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرلیا جس میں انہوں نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ انہیں گیان واپی کامپلکس میں پوجا کی اجازت دی جائے۔ ان خواتین کا دعویٰ ہے کہ اس کامپلکس کے اندر ہندو دیوی دیوتاو¿ں کی مورتیاں موجود ہیں۔ عدالت نے انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی کی درخواست کو خارج کر دیا۔ مذکورہ کمیٹی نے گیان واپی مسجد کے احاطہ میں پوجا کرنے کا حق مانگنے والی پانچ ہندو خواتین کی طرف سے دائر مقدمے کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے قابلِ سماعت ہونے پر سوال اٹھایا تھا۔ مسجد کمیٹی کا استدال تھا کہ اس مقدمہ کی سماعت پارلیمنٹ کی جانب سے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے 1991قانون کے مغائر ہے۔ اس قانون کے تحت یہ واضح کردیا گیا کہ 15 اگست 1947کو جو مذہبی مقام جس حالت میں موجود تھا ،وہ ویسے ہی رہے گا۔ اس قانون کے تحت ایودھیا میں واقع بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یعنی آزادی کے وقت جس مذہبی عبادتگاہ کی جو شکل رہی، اب آزادی کے بعد اس کی ہیت کو بدلا نہیں جا ئے گا۔ مسجد تھی تو مسجد رہے گی اسے مندر میں تبدیل نہیں کیا جائے گا اور اگر مندر تھا تو اسے مسجد ، گردوارے یا چرچ میں نہیں بدلا جا ئے گا۔ بابری مسجد کے فیصلے کے وقت بھی سپریم کورٹ نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ اس نوعیت کی مثال دیگر مقدمات میں نہیں دی جا سکتی، لیکن افسوس کہ بابری مسجد کو چھیننے کے زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہوئے کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد کو نشانہ بنایا جارہاہے۔حکو مت کے ساتھ عدالتیں بھی ہندو فرقہ پرستوں کو ان کے مذموم ارادوں میں کا میاب ہونے کا موقع دے رہی ہیں۔ جس وقت بابری مسجد۔ رام جنم بھومی کا تنازعہ عدالت میں زیر دوراں تھا، اس وقت بھی مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہوئے معزز جج صاحبان نے آستھا کی بنیاد پر ہندوو¿ں کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے خدا کے گھر کو بتکدہ میں تبدیل کردیا اور اب گیان واپی مسجد کے متعلق شر پسندوں کے غیر واجبی مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے وارانسی کی عدالت نے فرقہ پرست طاقتوں کو ملک میں مذہبی منافرت کو پھیلانے کا ایک بہترین موقع دے دیا۔ یہ سلسلہ اگر دراز ہوتا چلا جائے تو پھر ملک میں ہزاروں مساجد کے تعلق سے دعوے کیے جائیں گے کہ یہ سابق میں مندر تھے۔ گزشتہ سال ا گست میں جب گیان واپی مسجد کے احاطہ میں شرنگار گوری مندر ہونے کا ادعا کرتے ہوئے پانچ ہندو خواتین نے اس میں پوجا کی اجازت دینے کا مطالبہ کر تے ہوئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ اسی وقت سے اندیشہ ہوگیا تھا کہ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے جو گیان واپی مسجد کو با بری مسجد کی طرح مندر میں بدلنے کے لیے ہندو فرقہ پرستوں نے تیار کی ہے۔ ہندو خواتین کی اس درخواست پر پہلے ہی بحث ہو چکی تھی اور عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ دیا تھا۔ گز شتہ پیر کو عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ وارانسی عدالت کے اس فیصلہ سے مسلمانوں کے ہاتھ پھر مایوسی ہی آئی۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ عدالت پانچ ہندو عورتوں کی درخواست کو مسترد کردے گی اور اس کی اگلی سماعت نہیں ہو گی، لیکن عدالت نے اگلی تاریخ سماعت 22 ستمبر 2022مقرر کردی۔ وارانسی عدالت نے جہاں ان ہندو عورتوں کی درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرلیا وہیں مسلمانوںکی درخواست کو یکلخت مسترد کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھلی نا انصافی کی۔
گیان واپی مسجد کا تنازعہ جس انداز میں کھڑا کیا گیا، اس کے پس پردہ ان سیاسی مقاصد کو حاصل کرنا ہے جو بابری مسجد کی شہادت سے پہلے رام جنم بھومی تحریک کے ذریعہ حاصل کیے گئے۔ موجودہ حالات میں رام جنم بھومی تحریک کی کوئی معونیت باقی نہیں رہی۔ اس لیے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گیان واپی مسجد کو مندر میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ایک طرف ہندو عورتیں دعویٰ کر تی ہیں کہ مسجد کے احاطہ میں دیوی دیوتا ہیں ، ان کی پوجا کی اجازت دی جائے۔ دوسری طرف اچانک اور بڑے ہی ڈرامائی انداز میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ گیان واپی مسجد کے وضو خانہ کے حوض میں ”شیو لنگ“ پایا گیا ہے۔ جس طرح بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنے کے لیے ہندو جنونی طاقتوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں رام ”پرکٹ“ ہوئے ہیں ، اسی طرح گیان واپی مسجد میں شیولنگ کے پرکٹ ہونے کا ادعا کیا گیا۔ پھر وہی حربے اختیار کیے گئے جو سابق میں بابری مسجد کو ہتھیانے کے لیے استعمال کیے گئے۔ گیان واپی مسجد کے فوارے کو جو کئی صدیوں سے وہاں پایا جا تا ہے، شیو لنگ بتانے کی کوشش کر تے ہوئے شرپسند عناصر نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا۔ اس کے نتیجہ میں مسجد کا سروے کرایا جاتا ہے اور پھر ایڈوکیٹ کمشنرس کی موجودگی میں ویڈیو گرافی بھی کی جا تی ہے۔ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے مقامی عدالت یہ حکم بھی صادر کردیتی ہے کہ جہاں شیو لنگ ہونے کا دعویٰ ہندوو¿ں کی طرف سے کیا جا رہا ہے اس علاقہ کو سِیل کردیا جائے۔ مقامی عدالت کا یہ حکم بادی النظر میں کوئی معقولیت پر مبنی نہیں تھا۔ جس مسجد کے حوض میں برسوں سے پانی کا فوارہ ہو اور مقامی عوام بھی اسے تسلیم کرتے ہوں ، اچانک کسی کی جانب سے اسے شیولنگ کا روپ دے دینا اور پھر اس سارے علاقہ میں جو مسجد کا علاقہ ہے ، وہاں مسلمانوں کو جانے سے منع کر دینا انصاف کے سارے اصول و ضوابط کی نفی کرتا ہے۔ عدالت نے یہ حکم بھی مسلم فریق کے کسی دعویٰ کی سماعت کیے بغیر جاری کر دیا۔ جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے اگر چیکہ مسلمانوں کو گیان واپی مسجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکا لیکن نام نہاد شیو لنگ کے مقام کے تحفظ کا بھی حکم دیا۔ مقامی عدالت میں جو کارروائی چل رہی تھی اس پر بھی سپریم کورٹ نے کوئی روک نہیں لگائی۔ اس لیے اب وارانسی عدالت کو موقع مل گیا کہ وہ ہندو عورتوں کی درخواست کو سماعت کے لیے قبول کرلے۔ مقامی عدالت کے اس حالیہ فیصلے سے اس بات کے قوی امکانات پیدا ہوگئے ہیں، اب یہ مسجد بھی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر آگئی ہے اور بابری مسجد کی طرح برسوں تک اس کا مقدمہ چلے گا اور اگر آئندہ الیکشن میں بی جے پی تیسری مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجا تی ہے تو وارانسی کی یہ مسجد بھی خدا نخواستہ مندر میں تبدیل کردی جائے گی۔ بی جے پی کے پاس اب کوئی سلگتا ہوا موضوع نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ ہندو اکثریت کو متاثر کر سکے۔ اس لیے مساجد کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اسے مشرکانہ معابد میں بدلنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ہر تھوڑے دن بعد کسی نہ کسی مسجدکو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ میں جب یہ قانون منظور ہوچکا ہے کہ 15 اگست 1947کو جو مسجد تھی وہ مسجد ہی رہے گی اور جو مندر تھا، وہ مندر ہی رہے گا، اسی طرح کا معاملہ دیگر عبادت گاہوں کا رہے گا۔ ایسے قوانین کے ہوتے ہوئے مساجد کے متعلق زہریلا پروپیگنڈا کر نا سنگھ پریوار کی جانب سے رچائی گئی ایک سازش ہے۔ Places of Worship Act 1991کے قانون کی کیا افادیت باقی رہے گی اگر کبھی گیان واپی مسجد کا مسئلہ چھیڑا جائے اور کبھی دہلی کی جامع مسجد کو مندر بنانے کی باتیں کی جائیں۔ یہ سارا ڈرامہ دراصل اس لیے بھی رچایا جا رہا ہے کہ ملک کے عوام کو اصل مسائل سے دور رکھا جائے۔ عام آدمی کی زندگی اس وقت کس قدر اجیرن ہو چکی ہے اس سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔
بابری مسجد کو رام مندر میں تبدیل کرنے کے بعد اب گیان واپی مسجد پر ہندوتوا طاقتوں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد متھرا کو موضوع بنایا جائے گا۔ عام انتخابات کے لیے اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ گز شتہ نو سال کے دوران مودی حکومت نے صرف دعوے کیے، لیکن عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا۔ ملک میں مذہبی منافرت کا زہر گھول کر عوام کو اُ لّو بنایا جا تا رہا اور اب عوام کے درمیان جانے کا وقت آگیا تو پھر ایک بار فرقہ وارانہ ایجنڈا کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے عدالتوں کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے۔ عدالتیں ، عوام کے لیے امید کا آ خری سہارا ہو تی ہیں ، اگر وہ بھی حق و انصاف سے کام نہ لیں تو جمہوریت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس وقت ملک کا جو منظر نامہ ہے وہ جمہوری اقدار اور اصولوں سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ پارلیمنٹ میں عددی طاقت کے بل پر حکمران طبقہ پورے ملک کی عوام کو اپنی گرفت میں رکھنا چاہتا ہے۔ جس طبقہ یا گروہ سے اسے اختلاف ہے ، اسے ختم کرنے کے سارے حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں سے سنگھ پریوار کی بیجا دشمنی اظہر من الشمس ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی شریعت، ان کی عبادت گاہیں اور ان کی تہذیب و تمدن ان کی نظروں میں کھٹک رہی ہیں۔ سنگھ پریوار کی ان حرکتوں کے سدباب کے لیے مسلمان اور خاص طور پر ان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی قائدین کیا حکمت عملی اپنارہے ہیں ، یہ بھی موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا سوال ہے۔ مسلمانوں کے قائدین ، علماءاور دانشوروں کے مقام اور مرتبہ کاپورا خیال رکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ ان نازک حالات میں وہ قوم اور ملک کو صحیح راستہ دکھانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ کسی بھی نازک مسئلہ پر ملت کی قیادت کوئی دو ٹوک موقف اختیار کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر مسئلہ پر اگر اور مگر کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آسام میں دینی مدراس کو محض اس الزام پر منہدم کر دیا جا تاہے کہ کسی ایک مدرسہ میں کوئی مدرس مبینہ طور پر دہشت گردوں سے رابطہ رکھتا ہے۔ اس کا کوئی ثبوت آج تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، لیکن تین دینی مدرسے زمین بوس کردیے گئے۔ اس پر کوئی زبردست احتجاج نہیں ہوا، جب کہ آسام میں مسلمانوں کی سیاسی اور دینی قیادت بہت مضبوط ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی کے ارکان اسمبلی و پارلیمنٹ نے کیوں آسام حکومت کی اس فرقہ پرستی کا دندان شکن جواب نہیں دیا۔ اترپردیش میں غیر سرکاری مدارس کے سروے کے نام پر مسلمانوں کے دینی مدارس کو ختم کرنے کی تیاری کرلی گئی۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی مسلم دشمنی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کسی نہ کسی بہانے وہ مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کر رہے ہیں، لیکن حکومت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم مسلم قیادت اٹھانے سے اب بھی گریز کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو ہی مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مدارس کے نظام کو ٹھیک کرلیںتا کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکے۔ یہ مشورہ عام حالات میں مناسب ہے، لیکن حکومت جن مقاصد کو سامنے رکھ کر دینی مدارس پر اپنا شکنجہ کَس رہی ہے اس کے محرکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے ملبے پر جب رام مندر کی بنیاد رکھی جارہی تھی ، اس وقت آر ایس ایس کے سر سنچالک موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آج محض ایک مندر نہیں بنایا جا رہا ہے بلکہ رام مندر کی تعمیر کے لیے جو پہلی اینٹ رکھی جا رہی ہے یہ دراصل اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا اعلان ہے۔ اب گیان واپی مسجد کا قضیہ بھی اسی لیے کھڑا کیا گیا کہ ہندورشٹرا کا خواب پورا ہوسکے۔اس مسجد کو بھی آستھا کے نام پر ہڑپنے کی پوری کوشش کی جائے گی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم قیادت تاریخ کے اس اہم موڑ پر کیا اقدام کر تی ہے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوںنے سزا پائی
٭٭٭