اسرائیل کا مغربی کنارے پر سب سے بڑا قبضہ، 3 نئی یہودی بستیاں بسانے کی منظوری
غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی ہٹ دھرمی جاری ہے اور اس نے مقبوضہ مغربی کنارے پر تین نئی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منظوری دے دی ہے۔
رام اللہ: غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی ہٹ دھرمی جاری ہے اور اس نے مقبوضہ مغربی کنارے پر تین نئی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منظوری دے دی ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ یہودی بستیاں 5300 یونٹس پر مشتمل ہوں گی۔
اسرائیل نے مغربی کنارے میں زمین پر قبضے کی منظوری دی ہے جو تین دہائیوں میں اس زمین پر سب سے وسیع قبضہ ہے۔
واضح رہے کہ ڈیڑھ سال میں اسرائیل فلسطینی علاقوں میں 24 ہزار رہائشی یونٹس بنانے کی منظوری دےچکا ہے۔ گزشتہ سال 7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل مغربی کنارے میں 23 یہودی بستیاں تعمیر کر چکا ہے۔
اسرائیل میں قائم امن پسند گروپ ‘پیس ناؤ’ نے جمعہ کے روز انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے تقریباً 12.7 مربع کلومیٹر جو کہ 5 مربع میل کے قریب ہے وادی اردن میں نئی بستیوں کے لیے مختص کی ہے۔
‘پیس ناؤ’ کے مطابق یہ اب تک کا ایک اکائی کی صورت میں سب سے بڑا فلسطینی قطعہ اراضی ہے جس پر ناجائز یہودی بستیاں قائم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
گروپ کے مطابق اوسلو معاہدہ (1993) کے بعد سے امن عمل شروع ہوا تھا۔ لیکن اس عرصے کے دوران اتنے بڑے قطعہ اراضی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہودی بستیوں کے لیے استعمال میں لانا پہلے سے موجود کشیدگی میں اور اضافے کا باعث بنے گا۔
‘پیس ناؤ گروپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ کے بعد سے مغربی کنارے میں بھی پہلے سے کشیدگی بڑھ چکی ہے۔ جگہ جگہ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور چھاپے مار رہی ہے۔ کئی جگہوں پر مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ ایسے میں نئی یہودی بستیوں کا یہ نیا آغاز خطرے کی گھنٹی ہے۔
‘پیس ناؤ’ گروپ کا کہنا ہے ‘سال 2024 اس حوالے سے سب سے زیادہ وسیع جگہ پر یہودی بستیوں کی نئی تعمیر کا سال قرار پائے گا۔’
واضح رہے اسرائیل نے مغربی کنارے کو 1967 میں قبضہ میں لیا تھا اور اب تک یہ علاقہ اسے کے زیر قبضہ ہے۔ اسرائیل نے اس علاقے میں 100 سے زائد یہودی بستیاں قائم کر رکھی ہیں۔ جہاں 5 لاکھ سے زیادہ ایسے یہودی آباد کیے گئے ہیں جنہیں دوسرے ملکوں سے لایا گیا ہے۔