اسٹامپ پیپرس پر لڑکیوں کی فروخت
میڈیا کی اطلاعات میں ایسے ہولناک جرائم کی شکار کئی لڑکیوں کی مصیبت بیان کی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ اگر میڈیا کی اس رپورٹ کے مشمولات درست ہیں تو یہ متاثرہ لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
جئے پور: قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) نے ذات پنچایتوں کے احکام پر اسٹامپ پیپرس پر لڑکیوں کی مبینہ نیلامی اور اس سے انکار کے نتیجہ میں ان کی ماؤں کی عصمت ریزی کی اطلاعات پر حکومت راجستھان کو نوٹس جاری کی ہے۔
این ایچ آر سی انڈیا نے میڈیا کی ایک رپورٹ کا ازخود نوٹ لیا ہے۔ ایک صحافتی بیان میں یہ بات بتائی گئی۔ عموما جب بھی دوفریقین کے درمیان مالیاتی لین دین یا قرض وغیرہ پر کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو 8 تا18 سال عمر کی لڑکیوں کو نیلام کرتے ہوئے رقم واپس حاصل کی جاتی ہے۔
این ایچ آر سی کے بیان کے مطابق ان لڑکیوں کو اترپردیش، مدھیہ پردیش، ممبئی، دہلی حتی کہ بیرونی ملکوں کو بھیج دیا جاتا ہے اور انہیں غلامی میں رکھتے ہوئے ان کا جسمانی استحصال کیا جاتا ہے، انہیں اذیت رسانی کی جاتی ہے یا جنسی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
میڈیا کی اطلاعات میں ایسے ہولناک جرائم کی شکار کئی لڑکیوں کی مصیبت بیان کی گئی ہے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ اگر میڈیا کی اس رپورٹ کے مشمولات درست ہیں تو یہ متاثرہ لڑکیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔
اسی کے مطابق راجستھان کے چیف سکریٹری کو ایک نوٹس جاری کی گئی ہے اور اس معاملہ میں ان سے تفصیلی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں عمل درآمد رپورٹ پیش کرنے اور پہلے سے کئے جاچکے اقدامات یا ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کئے جانے والے مجوزہ اقدامات کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
راجستھان کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کو ایک نوٹس جاری کی گئی ہے اور ایسے جرائم کے مرتکبین، ان کے ہمدردوں یا مدد کرنے والوں کے خلاف فوجداری کارروائی کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتانے کی ہدایت دی گئی ہے کہ ان سرکاری عہدیداروں کے خلاف کیا کارروائی کی جائے گی جنہوں نے مستقل طور پر ایسے واقعات کو نظرانداز کیا ہے۔
میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق جو 26 اکتوبر 2022 کو شائع کی گئی ہے، راجستھان میں ذات پنچایتیں اس جرم کی مرتکب ہورہی ہیں جیسے شام اور عراق میں ہوتا ہے جہاں لڑکیوں کو غلام بنالیا جاتا ہے۔ بھیلواڑہ میں جب بھی دو فریقین کے درمیان کسی مسئلہ پر تنازعہ ہوتا ہے تو وہ پولیس سے رجوع ہونے کے بجائے مسئلہ کے تصفیہ کیلئے ذات پنچایتوں سے رجوع ہوتے ہیں۔
یہیں سے لڑکیوں کو غلام بنانے کا پہلا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اگر لڑکیوں کو فروخت نہیں کیا جاتا تو ان کی ماؤں کی عصمت ریزی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اخباری اطلاع میں مزید کہا گیا ہے کہ 15 لاکھ روپے کا قرض چکانے ذات پنچایت پہلے کسی شخص کو اپنی بہن کو فروخت کرنے پر مجبور کرتی ہے اس کے بعد بھی اگر قرض مکمل طور پر ادا نہیں کیا جاتا ہے تو اسے اپنی 12 سالہ لڑکی کو فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
خریدار 8 لاکھ روپے کے عوض لڑکی کو خرید لیتا ہے۔ بعدازاں پانچوں بہنیں غلام بن جاتی ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں ایک شخص کو اپنا مکان فروخت کرنے پر اور اپنی بیوی کے علاج کیلئے مزید 6 لاکھ روپے لینے مجبور کیا گیا۔ بعدازاں اس کی بیوی فوت ہوگئی۔
اُس نے اپنی ماں کے علاج کیلئے بھی مزید 6 لاکھ روپے قرض حاصل کیا۔ قرض کی باز ادائیگی کیلئے اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کو 6 لاکھ روپے کے عوض چند افراد کو فروخت کردیا جو اسے آگرہ لے گئے وہاں اسے مزید تین مرتبہ بیچا گیا اور وہ چار مرتبہ حاملہ ہوئی۔