قانونی مشاورتی کالم

صرف وصیت کی اساس پر دیگر ورثاء کو محروم نہیں کیا جاسکتا

آپسی معاملات گھر ہی میں سلجھالئے جائیں تو بہتر ہوگا۔ آپ کے ترسیل کردہ کاغذات تلف کردیئے گئے ہیں۔ اگر والد صاحب وصیت کے بجائے یہ جائیداد آپ کے نام ہبہ سے ٹرانسفر کرتے تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔

سوال:- میرے والد صاحب کے نام پر شروع سے ایک مکان تھا۔ یہ مکان400 مربع گز پر سفال پوش تھا۔ اس مکان کو والد صاحب نے منہدم کرکے RCC کا ‘ مکان بنایا۔ پھر اس کے بعد میں نے روپیہ بھیج کر اس مکان کو G+4 کی منزل تک تعمیر کیا۔

متعلقہ خبریں
حکومت کچھ خطرناک قوانین لارہی ہے: جائیدادوں کی بذریعہ زبانی ہبہ تقسیم کردیجئے
شادی شدہ خاتون از خود خلع نہیں لے سکتی
مالکِ جائیداد کی وفات کے بعد ورثاء آپس میں جائیداد بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو
خواتین کا محرم کے بغیر سفر
جموں و کشمیر میں جیش محمد کے کمانڈر کی 6 جائیدادیں ضبط: این آئی اے

میرے دیگر دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ والد صاحب نے انتقال سے قبل سارے مکان کی وصیت میرے نام پر کردی اور اس کی رجسٹری بھی ہوگئی۔

بہنوں کی شادیاں ہوچکیں وہ اپنے گھروں کی ہوچکیں۔ بھائیوں کا بھی ذاتی مکان ہے ۔ میں اس مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں۔ آٹھ کرایہ دار ہیں جن سے کرایہ وصول کرتا ہوں۔ نیچے چھ دوکانیں بھی ہیں۔

میرے بھائیوں اور بہنوں نے کبھی بھی جائیداد میں اپنے حق کا مطالبہ نہیں کیا کیوں کہ انہیں پتہ تھا کہ والد صاحب نے اس مکان کی وصیت میرے نام پر کی تھی۔

لیکن ایک بہن جن کی معاشی حالت کچھ بہتر نہیں ہے اس کے شوہر کے بھائی ایڈوکیٹ ہیں ‘ بہن اور ان کے ایڈوکیٹ دیور کی سازش سے دو بھائیوں اور دو بہنوں نے میرے خلاف تقسیم ترکہ کا دعویٰ کردیا اور مجھے عدالت سے سمن وصول ہوا ۔

دعویٰ میں ہر بہن نے 1/8 حصہ طلب کیا ہے۔ ہر بھائی نے 2/8 حصہ مانگا ہے۔ اور میرے حصہ میں2/8 کہا گیا ہے۔

دعویٰ میں اس وصیت کا کوئی ذکر نہیں جو رجسٹر شدہ ہے۔ اس ضمن میں آپ سے قانوی رائے طلب کی جارہی ہے کہ یہ مطالبات کس حد تک درست ہیں اور میرے حق میں کی گئی رجسٹر شدہ وصیت نامہ کی قانونی اہمیت کیا ہے۔ جواب کی اشاعت باعثِ تشکر ہوگی۔X-Y-Z ۔ حیدرآباد

جواب:- بہنوں اور بھائیوں کا دعویٰ برحق ہے۔ مطالبات بالکل جائز ہیں۔ قانون اور شرع شریف کی روشنی میں آپ کے حق میں کی گئی رجسٹر شدہ وصیت بے وقعت ہے کیوں کہ وصیت وارث کے حق میں درست نہیں۔

اگر غیر وارث کے حق میں وصیت ہو تو اس کا اطلاق ایک تہائی کی حد تک ہی ہوسکتا ہے۔ دعویٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ دعویٰ میں کوئی قانونی نقص نہیں۔ دعویٰ میں ایک فتویٰ کا بھی ذکر ہے جو برحق ہے۔

آپ صرف وقت بچاسکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ دعویٰ میں ایک ایسی بھی صورت ہوسکتی ہے کہ متروکہ جائیداد کا کرایہ عدالت میں جمع کروایاجاسکتا ہے۔

آپ کو رائے دی جاتی ہے کہ آپ تمام بھائی بہن آپس میں مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو سلجھالیں۔ اگر آپ کچھ کم زیادہ پر راضی ہوں تو وہ لوگ مقدمہ اٹھالیں گے۔

آپسی معاملات گھر ہی میں سلجھالئے جائیں تو بہتر ہوگا۔ آپ کے ترسیل کردہ کاغذات تلف کردیئے گئے ہیں۔ اگر والد صاحب وصیت کے بجائے یہ جائیداد آپ کے نام ہبہ سے ٹرانسفر کرتے تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔