قانونی مشاورتی کالم

اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے تو طلاق و خلع کے لئے تڑپنا پڑے گا

اگر میاں بیوی میں اختلافات ہوں اور مفاہمت کی کوئی صورت نہ ہو تو Deed of Family settlement Khulaکے ذریعہ علاحدگی ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ کام جو گھر میں ہوسکتا ہے اس کے لئے عدالت سے رجوع ہونا پڑسکتا ہے۔

اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے جیسا کہ حالات و واقعات بتارہے ہیں تو مسلمانوں کو اپنے عائلی مسائل کے حل کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طلاق یا علاحدگی صرف عدالت کے ذریعہ ہوگی اور اس کے لئے کئی سال انتظار کرنا پڑے گا کیوں کہ عدالت حسبِ معمول ہر طلاق کے کیس کو Cooling Period میں ڈال دے گی اور معاملہ کئی سال تک لٹکتا رہے گا۔

متعلقہ خبریں
باپ کا لڑکے سے خلع کا مطالبہ کرنا
ٹولی چوکی۔ شیخ پیٹ روڈ کی توسیع جائیدادوں کی بلا معاوضہ طلبی
حکومت کچھ خطرناک قوانین لارہی ہے: جائیدادوں کی بذریعہ زبانی ہبہ تقسیم کردیجئے
یکساں سیول کوڈ سے ہندوؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا: ممتا بنرجی
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس

یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بعض خواتین اپنے شوہروں سے طلاق یا خلع کی طالب ہوتی ہیں اورآپسی معاہدہ کے تحت لاکھوں روپیہ وصول کرتی ہیں۔ بعض مرد بھی بطورِ سزا اپنی بیوی کو کئی سال تک لٹکادیتے ہیں اور وہ بے چاری اس قابل نہیں رہتی کہ بغیر خلع یا طلاق کے دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ فریقین بہت مشکلات کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر قانون لاگو ہوتو مرددوسری شادی نہیں کرسکتا کیوں کہ ایسا عمل جرم سے تعبیر کیا جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم یعنی ہندو‘ عیسائی اور سکھ ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی نہیں کرسکتے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے تو ان پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور سزائے قید بھی ہوسکتی ہے۔

علاوہ ازیں قانون کے نفاذ کے بعد وراثت کا جب مسئلہ اٹھے گا تو بیٹی اور بیٹے کا حصہ برابر کا ہوگا۔ ایسی صورت میں صاحبِ جائیداد اگر اپنے بچوں میں اپنی جائیداد بذریعہ زبانی ہبہ اپنی جائیداد کی تقسیم کردیں تو بعد میں الجھنیں پیدا نہ ہوں گی کیوں کہ بیٹی داماد کے اثر میں آکر اپنے بھائیوں کے خَاف جائیداد کی تقسیم کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔لہٰذا اس سے پہلے کہ یہ مصیبت آئے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔

اگر میاں بیوی میں اختلافات ہوں اور مفاہمت کی کوئی صورت نہ ہو تو Deed of Family settlement Khulaکے ذریعہ علاحدگی ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ کام جو گھر میں ہوسکتا ہے اس کے لئے عدالت سے رجوع ہونا پڑسکتا ہے۔

سوال:- عرض خدمت ہے کہ میں ایک بیوہ ہوں کئی سال سعودی عرب دمام میں بحیثیت نرس زائد از بیس سال خدمت کرکے واپس آئی اور ایک چھوٹے سے مکان کو خریدا اور اس کے اوپر ایک منزل اور بنالی۔ یہی مکان اب میری زندگی کا سہارا ہے اور اس کے کرایہ پر میرا گزر ہوتا ہے۔

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا ایک بیٹا بہت ظالم ہے۔ مجھ پر ظلم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم یہ مکان فروخت کرکے میراحصہ دیدو۔ اس مکان کی خرید و تعمیر میں میرے شوہر کا ایک پیسہ بھی نہیں۔ بیٹا اب دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ مجھ پر مقدمہ دائر کرے گا اور FIR درج کروائے گا۔ میرا جینا حرام ہوگیا ہے۔ آپ سے اس مسئلہ کا حل دریافت کرنا چاہتی ہوں۔

جواب:- اس مکان میں آپ کے بیٹے کا آپ کی زندگی میں کوئی حق نہیں ہے۔ وہ آپ پر اس طرح ظلم نہیں کرسکتا۔ آپ فوری طور پر اس کے نام ایک قانونی نوٹس جاری کروائے کہ وہ آپ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ورنہ اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جاسکتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w