دہلی

جماعت اسلامی ہند نے وقف ترمیمی بل 2024سے متعلق 65 سوالات کے جوابات جے پی سی کو سونپے

جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات بنیادی طور سے آئین کی توضیحات ،انتظامی اور قانونی ڈھانچے سے متعلق تھے۔ جی پی سی کے ممبران وقف کے مذہبی اور اس کے سیکولر پہلوؤں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے ۔

نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی ( جے پی سی ) کی طرف سےاوقاف سے متعلق اٹھائے گئے سوالوں کے تحریری جواب سونپ دئے ہیں ۔

متعلقہ خبریں
ناندورا میں عظیم الشان تعلیمی کانفرنس کا انعقاد
خواتین تحفظات قانون میں مسلم اور اوبی سی خواتین کیلئے کوٹہ مختص کیا جائے:جماعت اسلامی ہند

 میڈیا کو جاری ایک بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ وقف ( ترمیمی ) بل2024 کے متعلق 4 نومبر 2024کو جے پی سی سے جماعت کے وفد کی تفصیلی ملاقات کے بعد جماعت کو جے پی سی کی جانب سے 65 سوالات پر مشتمل سوالنامہ موصول ہوا تھا، جماعت کی جانب سے تحریری طور پر تمام سوالات کے جامع جوابات جے پی سی کو پیش کر دیے گئے ہیں ۔

جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات بنیادی طور سے آئین کی توضیحات ،انتظامی اور قانونی ڈھانچے سے متعلق تھے۔ جی پی سی کے ممبران وقف کے مذہبی اور اس کے سیکولر پہلوؤں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے ۔

وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کیا وقف کی جائداد سماج کے سبھی فرقوں کو فائدہ پہنچارہی ہیں یا اس کا فائدہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہتا ہے ۔اس ضمن میں قانونی پیچیدگیاں، وقف کا استعمال کرنے والے افراد کا نظریہ ، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور وقف بورڈ کے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے۔

جی پی سی کے ممبران نے کلکٹر کے اختیارات اور متعلقہ محکموں کے عملی کردار کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔اس میں آئین اور وفاق کے درمیان ممکنہ محاذ آرائی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا ۔

جے پی سی کے سوالوں میں وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے، اس میں شفافیت اور نگرانی کے عمل میں سدھار لانے کے لیے اصلاحات پر بھی غور کیا گیا ہے ۔جے پی سی ممبران نے وقف کی ابتدا ، اس کی تاریخ اور اس کی مذہبی حیثیت کے بارے میں بھی سوالات کئے ۔

جماعت اسلامی کی طرف سے داخل کئے گئے تحریری جواب میں وقف ( ترمیمی) بل 2024کے بارے میں مسلم سماج کی گہری تشویش کو اجاگر کیا گیا۔

ملک معتصم خان صاحب نے کہا کہ ” وقف ( ترمیمی ) بل اوقاف کے تقدس اور اس کے اختیارات کو کمزور کرتا ہے، جبکہ نظام اوقاف کی مضبوطی مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔نئے بل کا مسودہ وقف کے انتظامات کرنے والوں کے اختیارات کو کم کرنے والا، مسجدوں ، قبرستانوں اور درگاہوں جیسے قدیم اور تاریخی اوقاف کے لیے خطرہ پیدا کرنے والا محسوس ہوتا ہے ۔

جن اوقاف کے پاس معمول کے دستاویزات نہیں ہیں لیکن وہ صدیوں سے عوام کی خدمت کے لیے وقف ہیں ، ان کو ہٹانا یا ختم کرنے کا پرویژن، ملکیت کے نئے دعووں کو جنم دینے اور قانونی تنازعات پیدا کرنے کا سبب بنے گا ۔اس سے اوقاف کو سنگین قسم کا نقصانات پہنچ سکتے ہیں ۔

وقف ( ترمیمی ) بل ضلع کلکٹروں کو اوقاف کی پوزیشن کو طے کرنے کا اختیار دیتا ہے جس کی وجہ سے مفادات کے ٹکراؤ جنم لے سکتے ہیں ۔کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اوقاف کو تصرف میں لینے ، ان پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں میں خود سرکاری محکمے شامل ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اختیارات اور فیصلہ سازی کے عمل کو جوڈیشیل باڈی سے ایکزیکیٹیو کی جانب منتقل کرنے سے وقف کی جائدادوں کو غیر قانونی قبضوں سے آزاد کرانے جدوجہد کمزور ہوگی۔”