مضامین

جس طرح ٹوٹ کے گرتی ہے زمیں پر بارش

پانی قدرت کاایک ایسا کرشمہ ہے جس کے سبب آج یہ دنیا قائم و دائم ہے۔ جہاں پانی نہیں ہوتا وہاں زندگی کے آثار نہیں ہوتے۔ خصوصا ًاسلام میں پانی دراصل زندگی کا نشان ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ عملی طور پر روحانیت کی مدد کرتا ہے۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

l پانی تخلیق کائنات کا عظیم ذریعہ
l آبی تحفظ انسانیت کی بقاء کے مترادف
l پانی کی بچت کے لئے قومی مہم کی ضرورت

پانی قدرت کاایک ایسا کرشمہ ہے جس کے سبب آج یہ دنیا قائم و دائم ہے۔ جہاں پانی نہیں ہوتا وہاں زندگی کے آثار نہیں ہوتے۔ خصوصا ًاسلام میں پانی دراصل زندگی کا نشان ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور یہ عملی طور پر روحانیت کی مدد کرتا ہے۔ یہ ہمارے روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے اور اس سے مذہبی ضرویات یعنی وضو کی تکمیل بھی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ پانی کے استعمال میں احتیاط برتیں اور کسی بھی حالت میں اسے ضائع ہونے نہ دیں۔ مختصر یہ کہ انسان پانی کے صحیح استعمال کی قیادت کا ذمہ دار ہے۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ پانی تمام زندوں کی ضروریات کا ذریعہ ہے بلکہ یہ دنیا کی تخلیق میں ایک بہت ہی اہم عنصر ہے۔ دراصل بنی نوع انسان کے لئے قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے۔ پاکی آدھا ایمان ہے اور یہ چیز پانی ہی سے ممکن ہے۔ پینے کا پانی لوگوں کو مہیا کروانا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور ایسا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خاص اجر عطافرماتے ہیں۔ اسلام میں حکم دیا گیا ہے کہ آنے والی نسلوں کے لئے پانی کی بچت کی جائے۔

حضور اکرم ﷺ نے پانی کو جمع کرنے کا حکم دیا ہے جو قلت آب کی صورت میں کام آسکے۔ جب پانی کا ذکر ہوتاہے توذہنوں میں زم زم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہ وہ پانی ہے جو صحت عطا کرتا ہے۔ اتنی عظیم اہمیتوں کا حامل پانی آج ہم سب سے اپیل کرتا ہے کہ ہم اس کا احتیاط اور احترام سے استعمال کریں۔

دونوں شہروں میں بھلے ہی دو دن میں ایک بار پانی آتا ہے لیکن یہ پانی ہماری ضروریات کی بدرجۂ اتم تکمیل کرتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں پانی کے استعمال کے لئے ٹوٹیاں نہیں ہیں جس کے سبب وافر پانی سڑکوں پر بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کے منظر کو دیکھ کر جی کانپ اٹھتا ہے کہ ہم کتنے لاپرواہ ہیں کہ 150 کی ایک ٹوٹی ہمارے پائپوں کو لگا نہیں سکتے۔

ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ دونوں شہروں کو پینے کا پانی مہیا کرانے والے پانی کے جڑواں ذرائع یعنی حمایت ساگر اورعثمان ساگر سے پانی کے اخراج کی اطلاع ملی ہے جسے انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ اوراس طرح کے نقص کو فی الفور ٹھیک کیا جانا چاہئے۔ آپ جانتے ہیں کہ حمایت ساگرایک مصنوعی جھیل ہے جو حیدرآباد سے تقریباً 20 کلومیٹر (12 میل) کے فاصلے پر تلنگانہ کے رنگا ریڈی ضلع میں واقع ہے۔

یہ ایک بڑی مصنوعی جھیل، عثمان ساگر، کے متوازی ہے۔ اس ذخیرہ آب کی گنجائش 2.9 ٹی ایم سی فٹ ہے۔ ایسی ندی، جو موسی ندی کی ایک شاخ ہے، پر یہ ذخیرے 1927 میں تعمیر کیے گئے تھے۔ ان کا مقصد حیدرآباد کو پینے کے پانی کی فراہمی اور شہر کو سیلاب سے محفوظ رکھنا تھا، خاص طور پر 1908 کے تباہ کن سیلاب کے بعد۔ یہ جھیل ریاست حیدرآباد کے آخری نظام، نظام ہفتم، کے دور حکومت میں تعمیر ہوئی اور ان کے بڑے بیٹے حمایت علی خان کے نام پر رکھی گئی۔

حمایت ساگر اور عثمان ساگر کے ڈیمز نے طویل عرصے تک حیدرآباد اور سکندرآباد کو مسلسل پانی کی فراہمی کی، لیکن آبادی میں اضافے کے باعث اب یہ دونوں جھیلیں شہروں کی پانی کی مکمل ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس وقت کے انجینئر جنہوں نے یہ منصوبہ مکمل کیا، وہ مرحوم خواجہ محی الدین تھے، جو محمد حسین مدری کے صاحبزادے تھے۔ 2022 میں، نظام خاندان کے چشم و چراغ، حمایت علی مرزا، نے ”حمایت ساگر اور عثمان ساگر کو بچاؤ تحریک میں شمولیت اختیار کی۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ دونوں جھیلیں حیدرآباد کی شناخت کا حصہ ہیں اور پرانے شہر کے لاکھوں لوگوں کے لیے آج بھی زندگی کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ تلنگانہ سے گزارش کی تھی کہ وہ جی او 111 کی منسوخی کے فیصلے کو واپس لیں۔ حمایت علی مرزا کا کہنا تھا کہ اگر جی او 111 کو منسوخ کر دیا گیا تو ممکن ہے کہ معمولی گرمیوں کی بارشوں سے بھی شہر کے کئی علاقوں میں سیلاب آ جائے۔

اس کے علاوہ، اس اقدام سے جھیل کے آس پاس غیر قانونی تعمیرات میں اضافہ ہوگا جو مستقبل میں شدید سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ عثمان ساگر حیدرآباد شہر میں واقع ایک ذخیرہ آب ہے۔ جھیل کا رقبہ تقریباً 46 مربع کلومیٹر اور اس کا ذخیرہ 29 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی سطح 1790 فٹ اور گنجائش 3.9 ٹی ایم سی فٹ ہے۔ عثمان ساگر کو 1920 میں موسی ندی پر بند باندھ کر بنایا گیا تاکہ حیدرآباد کو اضافی پینے کے پانی کا ذریعہ فراہم کیا جا سکے اور 1908 کے تباہ کن سیلاب کے بعد شہر کو تحفظ دیا جا سکے۔

یہ ذخیرہ آب بھی ریاست حیدرآباد کے آخری نظام، میرعثمان علی خان، کے دور حکومت میں تعمیر ہوا، اسی لیے اس کا نام عثمان ساگر رکھا گیا۔ پچھلے ایک ہفتے سے جاری بارش کے سبب تلنگانہ ریاست کے لگ بھگ سبھی آبی ذرائع بھرنے کی کگار پر ہیں۔ آئیے ہم دعا کریں کہ بارش ہم سب کے لئے رحمت کا سبب بنے نا کہ زحمت کا۔

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تلنگانہ، خاص طور پر حیدرآباد، شدید اور وسیع پیمانے پر بارشوں کی زد میں ہے، جس کے نتیجے میں کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی، روزمرہ زندگی متاثر ہوئی، اور کچھ اضلاع میں افسوسناک ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ جون کے وسط تک کمزور نظر آنے والا مانسون اچانک شدید ہو گیا، اور 18 جولائی سے 24 جولائی کے دوران کئی اضلاع میں ریکارڈ توڑ بارش ہوئی۔ اللہ کا شکرہے کہ جاریہ سال بھی بہتر بارش اللہ تعالی کی بہت بڑی رحمت ہے۔ اللہ کے اس کرم پر یہی کہا جاسکتا ہے۔

جس طرح ٹوٹ کےگرتی ہے زمیں پر بارش
اس طرح خود کو تری ذات پہ مرتے دیکھا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰